از قلم:منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر
رابط:9797217232
بابا آدم کے زمانے سے لیکر آج تک زندگی کے ہر شعبے میں جوانوں نے نمایاں کام انجام دیےہیں. قوم اور قوموں کی امامت اس فلسفے کا روح اسی اہل شباب کو گردانہ جاتا ہے. زندگی کے تمام طبقہ ہائے فکر کے لوگ اس بات سے مکمل متفق ہے کہ جواں ہی ایک قوم کا گراں بہا حقیقت ہے. تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہوئے ہم اس بات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ اس طبقے نے ہر انقلاب پر بہار کا لباس زیب تن کیا ہے. ایام ماضی میں اس طبقے نے ہر آندھی کو عقل وفکر کی روشنی سے منور کیا. جوان ہی ایک قوم کے لیے بصارت اور بصیرت کا کام دیتے ہیں. یہ بات ہر سوچ کے ترازو پر باوزن ثابت ہوتی ہے کہ اگر جوان سنجیدگی, بردباری, طبعیت حلیم اور عقل سلیم جیسے نعمتوں سے مالامال ہیں تو دنیا کی کوئی شے قوم کو ترقی کے پیمانے لبریز کرنے سے نہیں روک سکتا. لیکن اگر یہی جوان کاروان زندگی کے بنیادی حقیقت سے ناواقف ہے تو قوم کا سفینہ کسی بھی وقت لہروں کے جال میں آسکتا ہے. اس لیے گمان غالب یہی ہے کہ تاریخ کے اوراق پر جوانوں کا مقام عیاں اور بیاں ہیں. یہ ایک مسلمہ آفاقی حقیقت ہے کہ جوان کو قوم کا روح تعبیر کیا جاتا ہے. تب تک ایک قوم بمثل موت تصور کیا جاتا ہے جب تک نہ اس میں غازی صفت جوانوں کی موجودگی باقی ہو. ہر قوم میں عقیل جوانوں کا ہونا ہی عمر جاوداں والی بات ہے. خیر فلسفہ جوان کو لفظوں میں قید کیا جائے تو غیر محدود اوراق تحریر ہوجائیں گے اور اگر فکر اقبال رح کی نظروں میں اس فلسفے کو کیھنچا جائے تب بھی صفحہ قرطاس اور خامہ حق تھکاوٹ ظاہر نہیں کریں گے.
اس قوم کو شمیشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جن کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
بحرحال مجھے اس عسیرالحال معاشرے میں میں موجود نوجوانوں سے محو گفتگو ہونا ہیں جو ظاہری طور ترقی کے اعلی منازلوں کو پانے کی کوشش میں ہیں لیکن حقیقتاً وہ سب کچھ کھورہے ہیں جو انسانیت کا قیمتی اساس اور جس کے کھونے سے انسانیت کا چہرہ مسخ ہوا ہیں. وہ ہے اخلاقی صورتحال , سنجیدگی, بردباری, حیاواحترام, تہزیب و تمدن اور وغیرہ یہ سب کچھ کھونے سے دور جدید میں انسانیت کی زبان گونگی نظر آتی ہیں.چونکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ دور جدید میں زندگی کا ہر شعبہ ترقی کی اور رواں دواں ہیں لیکن جوانوں میں بڑھتی بے راہ روی اخلاقی پامالی جیسے پریشانیوں نے پورے قوم کو فکروتشویش میں مبتلا کیا. فیشن کے جنون نے جوانوں کی اکثریت کو جیسے بے خود کیا اور ان کے ہاتھوں اب غیریت اور حیا سرعام نیلام ہورہا ہے. ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں تعلیمی سرگرمیاں عروج پر ہے لیکن جہاں نظر دوڑائیں ہر طرف اخلاقی ناتوانیوں میں ملوث نوجوان نظر آتے ہیں. جوانوں میں بھی ایک نوجوان ہونے کے ناطے اس بات سے واقف ہوں کہ ہم سب کاغذ کی ڈگریاں رکھتے ہیں لیکن یہ سندیں اداروں کی طرف سے صرف پیسوں کا ایک رسید ہے باقی تعلیم صعف وہی کہلاتی ہیں جس سے انسان اپنے وجود سے آشنا ہو. اس لیے علامہ اقبال رح کی بات واقعی حکمت کی موتی ظاہر ہوتی ہے.
ادب پیرایہ نادان و دانااست
خوش آں کواز ادب خود رابیاراست
ندارم آں مسلماں زادہ رادوست
کہ در دانش فزودودرادب کاست
بڑوں اور دوسروں کا ادب واحترام کرنا ہر انسان کی زینت ہے خواہ و نادان یا بے شعور ہے اور خواہ دانا ہے وہ آدمی بڑا ہی مبارک انسان ہے جس نے خود کو ادب کے زیور وزینت سے سجایا.میں اس مسلمان نوجوان کو پسند نہیں کرتا جس نے بڑی بڑی ڈگریاں تو لے لیں لیکن دوسروں کے ادب واحترام کے سلسلے میں وہ کوتاہی کرتا رہا.
جہاں پر دوستو پوری کشمیری قوم ایک طرف سے” کس کس دکھ کو روئیں گے” کے عین مطابق زندگی بسر کرہی ہے. وہی پر جوانوں کو چاہیے کہ اس مردہ گلشن میں ایک نئی روح پھونک دے اور فیشن پرستی جدیدیت اخلاقی بحران جیسے بیماریوں سے اس ریشہ وار کو بچائے ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہمارے پاس دولت و ڈگریاں تو ہوگی لیکن قدم قدم پر رذیلانہ انجمنیں نظر آئیں گے. ہمارے اسلافوں نے بڑی محنت سے اس ریشہ وار کو خون جگر سے سینچا ہیں اور درس احترام وحیا سے پوری وادی کو مستفید کیا ہے. اللہ نہ کرے اگر صورت حال یہی رہی تو تاریخ کا ہر صفحہ ہم لوگوں پر واویلا کرے گا اور اسلافوں کی محنت اکارت ہوجائے گی.
دوستو بامرادوں کے دن یعنی شباب کا زمانہ بھی اللہ کی طرف سے نعمت ہوتی ہیں کیوں ہم اس عظیم تحفے کو بدکرداری کے کیچڑ میں بے رنگ وبو بنائے .آئیے ان بیماریوں کو قلع قمع کرکے ایک ایسے کل
کو مرتب کریں گے جس سے ہر دل ودماغ کی کلی مہک اٹھے گی اور ہم اپنی فکر کو اسی فکر میں رنگ لیں گے جس کی صورت ہر ایک کو آپ کا معتقد بنائے. آئے ہم اس دبستان علم و فکر کو تعمیر کریں گے جس کے فیض سے ہر ایک بندہ خدا اپنے آپ کو محفوظ پائیں باقی نا میں کوئی واعظ ہوں نا قلمی دنیا کا کوئی بادشاہ بلکہ شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات کے مطابق میں نے احساس کے دریچوں سے آئی آواز کو لفظوں میں جگہ دی. باقی آپ کا ادراک اس بات سے واقف ہیں کہ
مرد باید کہ گیرد اندر گوش
گر نوشت است پند بر
اللہ ہمیں بالغ فہم کے ساتھ مردم شناسی کے وصف سے نوازے.