تحریر: حافظ میر ابراھیم سلفی
بارہمولہ کشمیر
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے، مگر صاحب کتاب نہیں
شکایت ہے مجھے یا رب خُداوندانِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
کتب خانہ اللہ عزوجل کی نعمت عظمیٰ ہے۔ ذوق مطالعہ رکھنے والا فرد بغیر کتابوں کے نہیں رہ سکتا۔ یقیناً کتابیں انسان کی سب سے بہترین دوست ہیں۔لیکن ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس میں کتابوں کے لئے گھر کا ایک کونہ مقرر کردیا گیا ہے جس میں ان کو قید کردیا گیا ہے۔کتابوں کی جگہ smart phones نے لے ہی ہے۔ کتابوں کے شائقین آج بھی ملتے ہیں لیکن یہ طبقہ محدود ہے۔ ثانیاً انٹرنیٹ کی آمد سے جہاں متعدد فوائد سامنے آئے وہیں ایک بہت بڑا نقصان بھی دیکھنے کو ملا اور وہ یہ ہے کہ انسان کتب سے دور اور سوشل میڈیا کے قریب آگیا۔ پڑھے لکھے نوجوان اکثر آج پڑھتے بھی ہیں تو فقط soft copies سے ہی کام چلا لیتے ہیں۔ Hard copies سے قطعی کنارہ کشی اختیار کی جاچکی ہے۔ اگرچہ ہمیں soft copies سے بے انتہا فائدہ پہنچا لیکن علم کی برکت چلی جاتی رہی۔ soft copies سے ہمیں ان کتابوں کا تعارف حاصل ہوا جن سے ہمارے کتب خانے لاعلم تھے۔ جس کے پاس پیسہ میسر نہیں وہ آسانی سے ان کتب سے استفادہ کرنے لگے لیکن علم کی وہ مٹھاس،کتابوں کی وہ مہک چلی جاتی رہی۔
کتب بینی انسان کے وقت کو نہ صرف ضائع ہونے سے بچاتی ہے؛ بلکہ انسان کی غم خوار ومددگار، انسانی ضمیر کو روشنی بخشنے والا قندیل، علم وآگہی کا بہترین زینہ، تنہائی کی جاں گسل طوالت کی بہترین رفیق، زندگی کی نا ہموار راہوں میں دلنواز ہم سفر اور اضطراب وبے چینی کی معالج بھی ہے. کتابوں کی مہک اہل فکر کے لئے روح کی غذا ہے۔ طالب علم کی پہچان شوق مطالعہ سے ہی ہوتی ہے۔
مطالعہ سے وسوسہ اور غم دور ہوتا ہے۔ ناحق لڑائی جھگڑے سے حفاظت رہتی ہے۔ فارغ اور بے کار لوگوں سے بچاؤ رہتا ہے۔ زبان کھلتی ہے اور کلام کاطریقہ آتا ہے۔ ذہن کھلتا ہے اور دل تندرست ہوتا ہے۔ علوم حاصل ہوتے ہیں۔ لوگوں کے تجربات اور علماء وحکماء کی حکمتوں کاعلم حاصل ہوتا ہے۔ دینی کتب کے مطالعہ سے ایمان تازہ ہوتا ہے۔ لیکن Digitalization نے ہمیں اس نعمت سے محروم کر دیا۔یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ کتب بینی سے مراد امتحان کی تیاری میں کتابیں پڑھنا نہیں ہے بلکہ کتب بینی سے مراد یہ ہے کہ انسان ہر لمحہ کتابوں کو اپنا جانشین بنائے۔ مختلف رسائل و جرائد کا مطالعہ اپنا، معمول بنائیں۔ اخبارات(Newspapers) کی دنیا کے ساتھ جڑھ کر اپنے ذہن کو وسیع کریں۔اور یاد رہے کہ اخبارات و مقالات کا مطالعہ لسانیات و ادب سے جڑے ہر فرد کی دھڑکن ہے۔
جب کتابوں سے میری بات نہیں ہوتی ہے
تب میری رات میری رات نہیں ہوتی ہے
حالت مسرت ہو یا ایام غم کتابیں ہر مرحلے پر آپکا ساتھ دیتی ہیں۔احقر نے اس بات کو حقیقتاً آزمایا ہے کہ آپکے ہر اشکال و سوال کا جواب اب صحف میں پوشیدہ ہوتا ہے۔عصری علوم سے متعلقہ کتب کی بات کی جائے تو یہ وقت کی ضرورت ہے۔ طلباء کو چاہیے کہ عصری علوم و فنون میں اسلاف کی مثال زندہ کریں۔محنت و اجتہاد اپنا سرمایہ بنائیں۔ لیکن یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اگر آپکو فہم و فراست کی تلاش ہے، اگر آپکو تدبر و تفقہ کی صلاحیت درکار ہے تو دینی کتب کو اپنے کتب خانے میں جگہ دیں۔قرآن مقدس و کتب احادیث کا مطالعہ اپنی شب و روز کا مشغلہ بنائیں۔اسکے ساتھ ساتھ علماء، محدثین، فقہاء کی کتب کا مطالعہ اپنے اوپر لازم کرلیں۔ کتب، رسائل و جرائد، اخبارات کا مطالعہ آپکی شخصیت سازی میں اہم رول ادا کرتا ہے۔کتابیں آپ کے اخلاق و آداب کو مزین کرکے آراستہ کریں گی۔کتب بینی انسان کی ذہنی صلاحیت میں بھی نکھار پیدا کرتی ہے۔حق و ناحق میں تمیز کرنے کے لئے کتب بینی دوا کا کام دیتی ہے۔ بعض فہیم محققین نے لکھا ہے کہ "ملازمت ہو یا تجارت عام طور پر شہروں میں صبح 9 یا 10 بجے ہی کام شروع ہوتا ہے، لہٰذا ایک مسلمان اگر فجر کی نماز جماعت سے ادا کرے تو گرمیوں میں چار گھنٹہ اور سردیوں میں تین گھنٹہ اس کے پاس وقت رہتا ہے جس میں سے ایک گھنٹہ بآسانی مطالعہ کے لیے فارغ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح عام طور پر ملازمت شام 5 بجے ختم ہوجاتی ہے اور کاروباری مرکز رات 8 بجے تک بند ہوجاتے ہیں، گویارات کو بھی سونے سے پہلے ایک گھنٹہ کا وقت بسہولت مل سکتا ہے، مگر ہماری بے توجہی ہے جس کے سبب یہ وقت بے کار ہوتا ہے”.وقت کے ساتھ ساتھ استاذ کی رہبری بھی لازمی ہے۔
سلف تا خلف میں ایسے مصنفین گزرے ہیں جنہوں نے ظاہری امور کے ساتھ ساتھ باطنی حیات پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ جب انسان انکی مؤلفات کا مطالعہ کرتا ہے تو ہمارا روح اپنی منزل تک پہنچنے کا راستہ حاصل کرتا ہے۔مثلاً علامہ ابن قیم رحمہ اللہ، حافظ ابن رجب رحمہ اللہ، علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ، امام غزالی رحمة الله عليه، شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالی ، حالت ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ تعالی ایسے بزرگ گزرے ہیں جنہوں نے دل کی دنیا اپنی کتب میں آباد کی۔عصر حاضر میں شیخ صالح المنجد حفظہ اللہ تعالی، شیخ ابو زید ضمیر حفظہ اللہ تعالی ایسے چوٹی کے عالم ہیں جنہوں نے تزکیہ نفس و زھد و تقوی کے موضوع پر کافی محنت کی۔بزرگوں کے اقوال زریں پڑھ کر حالات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔کتب بینی سے آپ گھر بیٹھے پوری کائنات کا سفر کرتے ہیں بلکہ ماضی کے واقعات سے سبق لیکر آپکی اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔لیکن اسکے لئے اصول مطالعہ کا لحاظ رکھنا اشد لازمی ہے۔
اہل دل ہمیشہ محبت کی زبان سے گفتگو کیا کرتے ہیں۔ جب جذبات و جنوں انسان پر غالب آجاتے ہیں تو دل کا میلان از خود شعر و شاعری کی طرف کھینچتا ہوا چلا جاتا ہے۔ دل کی ویران بستی کو آباد کرنے کی خاطر دل کی دنیا سے ہی ہیرے اور موتی تراشے جاتے ہیں جو کہ اشعار کی صورت میں ہمیں ملتے ہیں۔لیکن جدیدیت و مغربیت کے مضر اثرات سے ہم اپنی قومی و مادری زبان سے محروم ہوچکے ہیں۔آج اردو زبان صرف بولنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے شگوفے اردو پڑھنے اور لکھنے سے قاصر ہیں۔وقت کے اہم تقاضوں میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم لسانیات کی ترویج پر زور دیں۔کسی بھی موضوع کے متعلق جاننا ہو، کسی بھی فن پر کلام کرنا ہو، کتابیں آپکی رہبر نظر آییں گی۔ نثر ہو، نظم ہو، ناول ہو، افسانہ ہو، داستان ہو، غزل ہو، رباعی ہو، مسدس ہو، قطعہ ہو، مرثیہ ہو یا قصیدہ ہر فن میں زندگی کو حسین و جمیل بنانے کے اسرار و رموز ملیں گے۔ سائنس کی معلومات ہو، تاریخ کے حقائق ہوں، ادب کی کرنیں ہوں، عظمت کردار کی تعمیر میں آپکو اپنا اپنا عنصر عطا کریں گے۔یہ بات بھی واضح ہے کہ اردو ادب میں روز اول سے ہی آنکھ، پھول اور کتاب کا رشتہ راسخ رہا ہے۔
اب وقت کا تقاضہ ہے کہ کتابوں سے خود کو جوڑیں، اپنے گھروں میں کتب خانوں(library) کی تشکیل دی جائے۔
اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں قلم و کتاب کی الفت عطا کرے تاکہ اسلاف کی کھوئی ہوئی وراثت پھر سے حاصل کرسکے۔۔۔۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین
آج پھر درد و غم کے دھاگے میں
ہم پروکر ترے خیال کے پھول
ترکِ الفت کے دشت سے چن کر
تیری دہلیز پر سجا آئے
مصنف اسلامک اسٹڈیز کے طالبِ علم ہے اور اُن سے [email protected] یا 6005465614 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔