تحریر: حافظ میر ابراھیم سلفی
بارہمولہ کشمیر
شمار اس کی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص
چراغ بانٹتا پھِرتا ہے چھِین کر آنکھیں
فقیر بن کر تم ان کے در پر ہزار دھونی رما کے بیٹھو
جبیں کے لکھے کو کیا کرو گے جبیں کا لکھا مٹا کے
ریاکاری کی ظلمتوں نے ہمارے قلوب سے سخاوت و اخوت کے کردار کو اوجھل کردیا ہے۔ اہل دولت اپنی عیاشیوں میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔ معاشی بحران نے فقراء کی زندگی کو قید خانے میں محصور کردیا ہے۔لوگوں کو سخاوت کا درس دینے والے بخیلی کے مراکز بنے ہوئے ہیں۔ زکات و صدقات کو بطور قرض ادا کیا جارہا ہے۔ مظلوم افراد ظلم کی چکی میں پیستے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ موسم سرما کے ایام طلوع ہوچکے ہیں۔ ایک طرف اہل دولت سردیوں کے مزے لینے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف اہل غربت اپنے نصیب کو کوستے ہوئے سخت ترین ٹھنڈ آسمان کے چھت کے نیچے گزار رہے ہیں۔ جہاں اہل دولت برف باری سے لطف اندوز ہونے کے لئے سیر و تفریح میں مشغول ہیں تو وہیں اہل غربت پھٹے کپڑوں کو پیوند دینے میں کوشاں ہیں۔ ایک طرف اصحاب مال سرمائی کھیلوں میں مزے لوٹ رہے ہیں تو دوسری طرف اصحاب فقر اپنے بچوں کی آہیں برداشت کرنے کی کشمکش میں ہیں۔ اصحاب بصیرت یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن کچھ کہنے سے قاصر ہیں کیونکہ یہ بستی درد دل کی صفت سے محروم ہوچکی ہے۔
جانتے بھی ہو درد کسے کہتے ہیں؟ گرم بستروں پر لوگوں کو سخاوت کا درس دینا آسان ہے لیکن ٹھنڈی ہواؤں میں آسمان کے چھت کے نیچے مفلسی کی رات گزارنا کار درد والا معاملہ ہے۔ ذرا اپنے ضمیر کو ٹٹولو۔غریب کے ساتھ غریب بن کے رہنا اہل درد کا کردار ہے۔ ادراک درد کوئی معمولی بات نہیں۔ آج یہ بات میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ صدقات و خیرات جمع کرنے والے بھی عدل سے کام نہیں لیتے ہیں الا ماشاء اللہ۔ غرباء کے نام پر مال جمع کرنے والے اپنے گھروں کو آباد کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ دھوکہ، خیانت اور مکر و فریب کا دور دورا ہے۔ سیاسی پارٹیوں سے لیکر دینی تنظیموں کا حال قریبا قریبا ایک جیسا ہوگیا ہے۔ جبکہ غیر مذہبی تنظیمیں کسی حد تک اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ یہ محض خیالی داستان نہیں بلکہ زمینی حقائق ہیں۔ غریب کی غربت، مفلس کی مفلسی، بے بس کی بے بسی کا برملا استحصال کیا جارہا ہے۔ایسے اشخاص شاید قرآن مقدس کے اخبارات سے لاعلم ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ افراد خود کو دھوکہ دے دینے میں مست و مگن ہیں۔
صحیح روایات اس بات کی شاہد ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔ یہی وہ کردار عظمیٰ تھا جس نے کائنات میں انقلاب برپا کردیا۔ماہ رمضان میں تاجدار حرم ﷺ کی سخاوت مثل مرثلات رہتی تھی۔ دو دو مہینوں تک امام کائنات ﷺ کے گھر میں فقط پانی اور کھجور سے کام چلایا گیا۔ دودھ بھیجنے والا دودھ لاتا پر نبی کریم ﷺ اسے بھی مہمان نوازی میں صرف کرتے۔ سردار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ایک سائلہ عورت کا دخول ہوتا ہے، دو بچے بھی ساتھ ہیں۔ سائلہ اپنی درد بھری فریاد صدیقیہ کائنات رضی اللہ عنہا کی خدمت میں رکھتی ہیں۔ صدیقیہ کائنات پورا گھر تلاش کرکے تین کھجور لاتی ہیں اور اسے عورت کے ہاتھ میں دیتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے گھر میں تین کھجوروں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ لیکن غریبوں کی صدا پر لبیک کہنا آپ کا کردار اعلیٰ تھا۔ عورت دو کھجور اپنے بچوں میں تقسیم کرتی ہیں۔ بچے اب بچے ہوئے کھجور کی طرف بھوکی نگاہوں سے دیکھتے ہیں، یہ محتاج ماں اس بچے ہوئے کھجور کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرکے بچوں میں بانٹتی ہے۔ نبی کریم ﷺ اس منظر کی داستان سن کر اس عورت کو جنت کی بشارت دے دیتے ہیں۔
یہ فسانۂ محبت،یہ وفا کی داستانیں
کوئی اور ذکر چھیڑو،میرا دِل لہو لہو ہے
جید اسناد سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ غرباء و ضعفاء کی وجہ سے ہی اہل ارض کو رزق ملتا ہے۔ لیکن جب یہی محتاج باپ کسی دولت مند کے در پر دستک دیتا ہے تو سوائے گالیوں و طعنوں کے اسے کچھ نہیں ملتا۔ ارباب اقتدار بھی عوام کے پیسوں سے اپنے انجمن سجانے میں مصروف ہیں۔ حکومت وقت کرسی پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کی خاطر علانیہ معصوم عوام کے حقوق کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اسی لئے اللہ سے فریاد کرتا ہوں کہ میرے مولا! ہمیں فقط اپنے در کا سائل بنا۔کیونکہ مخلوق کے در پر اپنا دامن بچھانے سے نہ مرادیں پر ہوتی ہیں اور عزت بھی محفوظ نہیں رہتی۔ راقم اس بات کا شاہد ہے کہ منٹوں اور سیکنڈوں میں بادشاہ کو فقیر اور فقیر کو بادشاہ بنتے ہوۓ دیکھا ہے۔ ماضی کے اوراق اس بات کو واضح کررہے ہیں کہ دولت نے انسان کو اندھا بنا کر فساد فی الارض کا بازار گرم کردیا۔
سخاوت کے نام پہ تماشا ہورہا ہے۔ میں سلام پیش کرتا ہوں ایسے فلاحی اداروں کو جو مخفی انداز میں دولت لٹا کر حاجت مندوں کی ضروریات کا خیال رکھ رہے ہیں۔ ورنہ سوشل میڈیا پر غرباء کی تصاویر وائرل کرکے اپنی سخاوت کا ڈنڈورا پیٹنے والے کثیر التعداد میں موجود ہیں۔ درحقیقت یہ بد قسمت لوگ نیکی کو دریا میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ اپنے پیٹوں میں جہنم کا ایندھن بر رہے ہیں۔ اپنے گھر میں جسے بیٹی ہو، وہ کسی محتاج کی بیٹی کی عزت کیسے پامال کرسکتا ہے۔۔ لیکن جہاں ضمیر مردہ ہو چکا ہو وہاں یہ درس کام آنے والا نہیں ہے۔ رسول کریمﷺ کے پاس تو عدو اور جانی دشمن بھی اپنی ضروریات کا حل تلاش کرنے کے لئے آتے تھے لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ کسی مظلوم اور کمزور کی چڑھائی کرتے وقت یہ نہ بھول جانا کہ مظلوم کی آہ اور پروردگار عالم کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔
ایسی حسرت مرنے والی آنکھ میں تھی
میں نے موت کو حسرت کرتے دیکھا تھا
ملک ہندوستان میں سردیوں کی راتیں غریب عوام پر قہر بن کے ٹوٹتی ہیں۔ مرکزی حکومت نے بھی اقتدار سنبھالتے ہی کسانوں اور غریبوں کا جنازہ نکالنے کا عزم کیا تھا۔۔ اب اگر کوئی سہارہ ہے تو وہ ہیں فلاحی ادارے۔ بلا لحاظ مذھب و مسلک یہاں انسانیت کی لاج رکھ لیں۔ پہاڑی علاقوں سے وابستہ ہمارے بھائی انسانیت کے سامنے سوالیہ نشان لگائے ہوئے ہیں کہ ” کیا ہمارا شمار بھی انسانوں میں ہوتا ہے ".مذہبی و مسلکی منافرت، ذات پات کی نحوست نے ہمارے دلوں کو بنجر بنا کے رکھ دیا ہے۔وادی کشمیر کی فضا ہمدردی و ملنسار کے لئے پوری دنیا میں جانی جاتی تھی لیکن حرام دولت کے نزول سے ہی یہ جذبات و احساسات اوجھل ہوگئے۔ مساجد و مدارس کی تعمیر اپنے عروج پر ہے۔ لیکن جن مساجد سے محبت و الفت کا پیغام سنایا جاتا تھا، آج انہیں اللہ کے گھروں سے نفرتوں کے شعلے چنگاریوں کی شکل میں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ کثرت تعمیر مساجد نے فرقہ واریت کی آگ کو ہوا دینے میں اہم کردار ادا کیا حالانکہ اللہ کے گھر اس سے بھری ہیں۔
فرامین ربانی و فرمودات نبوی ﷺ سے ثابت ہے کہ بیواؤں اور مسکینوں کی خاطر دوڈ دھوپ کرنے والا قائم و صائم کے ساتھ ساتھ اللہ کے راستے میں مثل مجاھد ہے۔ مخفی طریقہ سے صدقہ کرنے والے حشر کے میدان میں رحمن کے سائے کے نیچے ہونگے۔ صدقہ اللہ کے غضب کو ٹالنے میں کلیدی رول ادا کرتا ہے۔ جو کسی محتاج مسلم کو اچانک خوش کرے گا، اللہ قیامت کے دن اسے اچانک بشارت سنائیں گے۔ لیکن آج یہ روایات ناحق طریقہ سے مال لوٹنے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ اصل مقصد فوت ہوچکا ہے۔ مساجد میں سائل کا نام علانیہ لے کر سرعام عزت نفس کو سپرد خاک کیا جاتا ہے۔
غربت ایسی بیماری ہے جس سے صلاحیتیں زائل ہوجاتی ہیں۔ غریب کی ذہانت بھی مذاق بن کے رہ جاتی ہے جبکہ امیر کی عیاشی بھی قابل تقلید بن جاتی ہے۔ مذدور طبقہ موسم سرما میں کھانے کے ایک نوالے کو ترس رہے ہوتے ہیں جبکہ عیاش اور امیر کبیر حضرات گرم گرم حلوے سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں۔ جن بد نصیبوں کے گھر کچے ہیں وہ آج سے ہی فکر مند ہوتے ہیں کہ کہیں اس سال کی برف ان کے وجود کو مٹا نہ ڈالے۔ اوپر سے کاروباری طبقہ بھی مذدور عوام کو لوٹنے میں کوئی قصر باقی نہیں رکھتے۔جذبہ ایثار سے ہم کوسو دور ہیں۔
ہوائیں سرد اورجسم بے لباس ہے میرا
امیر شہر تجھ کو ذرا بھی احساس ہے میرا؟
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے قلوب کو رقیق بناکر اپنے اعمال کا محاسبہ کرلیں۔ انفرادی سطح پر حسب استطاعت حاجت مندوں، قرض میں ڈوبے افراد، غرباء و مساکین کا خیال رکھ لیں۔ خود غرضی، سخت مزاجی سے کنارہ کشی اختیار کرکے خود میدان عمل میں آئیں۔ اپنی مسلم بہنوں، بیٹیوں، ماؤں کی عفت و عصمت کی حفاظت کرلیں کیونکہ بہت سے زندیق ایسے بھی ہوتے ہیں جو مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ہمارے معاشرے کو جرائم و نجس گناہوں کے سیلاب میں غرق آب کرنا چاہتے ہیں۔سلف و صالحین کا اسوہ ہمارے سامنے ہے۔ خود کو مختلف مسالک کے ساتھ جوڑنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا جب تک عملاً کردار باوفا نہ ہو۔ واعظ، خطباء، علماء سے بھی گزارش ہے کہ اپنے اقوال کو اعمال کی شکل دیں۔قوم کے ذی دولت حضرات بغیر کسی واسطے کے خود یہ فریضہ انجام دیں۔
"For attractive lips, speak words of kindness.
For lovely eyes, seek out the good in people.
For a slim figure, share your food with the hungry.
For beautiful hair, let a child run his fingers through it once a day.
For poise, walk with the knowledge you’ll never walk alone.”
اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارے قول و فعل کے تضاد کو مٹا دے۔۔۔ ۔۔
آمین یا رب العالمین۔
مصنف اسلامک اسٹڈیز کے طالبِ علم ہے اور اُن سے [email protected] یا 6005465614 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔