(جمیعت کا تحفہ علاقہ کنزر کے نام)
تحریر: حافظ میر ابراھیم سلفی
بارہمولہ کشمیر
عظمت اخلاق میں مضمر ہے قوموں کا کمال
صاحب خلق حسین ہے صاحب حسن و جمال
جمیعت اہلحدیث جموں و کشمیر وہ عظیم اور اعلی جماعت ہے جو بین الاقوامی سطح پر قرآن و سنت اور منھج سلف کی ترجمانی کررہی ہے۔ عرب و عجم میں جمیعت اپنے تعلیمی پروگرام ، تدریسی پروگرام اور ابلاغ کے شعبے میں صف اول میں کھڑی ہے۔ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ جمیعت نے ہمیشہ پوری دنیا میں بالعموم اور وادی کشمیر میں بالخصوص اخوت، محبت، اتحاد و اتفاق کے خاطر روز اول سے قربانیاں دیں ہیں۔ مولانا انور شاہ شوپیانی رحمہ اللہ ، میر واعظ غلام نبی مبارکی رحمہ اللہ، علامہ عبدالرشید طاہری رحمہ اللہ و دیگر اسلاف نے اس گلشن میں پھولوں کے غنچے قائم کئے تھے جن کی مہک آج ہم محسوس کررہے ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امیر محترم فضیلتہ الشیخ غلام احمد بٹ المدنی حفظہ اللہ تعالی کی قیادت میں جمیعت نے کچھ ایسے اقدام اٹھائے جو اپنے عظمت میں لاثانی ہیں۔جن میں الكلية السلفية للبنين مومن آباد سرینگر کی عمارت میں توسیع، الكلية السلفية للبنات بیمنہ سرینگر کی تعمیر وغیرہ سر فہرست ہیں۔
مدارس و مساجد کے قیام کے ساتھ ساتھ فلاحی و رفاعی کام میں بھی جمیعت بحیثیت قائد نظر آرہی ہے۔ جمیعت نے روز اول سے ہی انسانیت کی فلاح و بہبودی کے خاطر اپنے آپ کو پیش پیش رکھا۔ جمیعت اہلحدیث جموں و کشمیر کے مرکزی دفتر کے ساتھ ہی ایک اعلی طبی شفا خانہ چل رہا ہے جو بلا لحاظ مسلک و جماعت ہر ایک کے لئے کھلا ہے جو سرینگر کے علاقہ بربر شاہ میں واقع ہے۔ انسانیت کے تئیں سخاوت و ہمدردی میں جمیعت کی محنت قابل تقلید ہے۔صدر محترم کے ساتھ ساتھ ناظم اعلی فضيلة الشيخ الدكتور عبد اللطيف الكندي حفظہ اللہ تعالی کا نام بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ امراء تب ہی کامیاب ہوتے ہیں جب مشاورتی افراد ذہین و فہیم ہوں۔اور بحمداللہ تعالی ڈاکٹر صاحب عرب و عجم کے جید اور ثقہ علماء کی فہرست میں شامل ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ جمیعت نے علماء، مبلغین و مدرسین کی ایسی جماعت تیار کی ہے جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے میں محو سفر ہیں۔
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
وادی کشمیر میں جمیعت کے پاس کچھ ایسے ہیرے اور انمول موتی ہیں جن کی اہمیت و عظمت پر لب کشائی کرنا سمندر کو کوزے میں بھرنے کے مترادف ہے۔ انہیں انمول موتیوں میں ایک نام فضیلتہ الشیخ محترم عبدالرشید بابا صاحب حفظہ اللہ تعالی کا ہے جو جمیعت کے ان وفادار خادموں میں شامل ہیں جو اپنے لیل و نہار منھج سلف کی خدمت میں گزار رہے ہیں۔شمالی کشمیر کے علاقہ کنزر( ٹنگمرگ) میں جمیعت کی طرف سے ٹرانس ورلڈ مسلم ڈائگناسٹک سینٹر(Trans world Muslim Diagnostic Center) کا قیام بھی ان ممتاز کارناموں میں شامل ہے جن سے انسانیت کی قدر منزلت بحال ہوتی ہے۔ عصر حاضر میں جہاں ہر طرف معاشی بحران اپنے عروج پر ہے، مہنگائی نے غریب عوام کی زندگی کو قید خانے میں محصور کردیا ہے، وہاں جمیعت کا یہ کارنامہ اپنی عظمت پر دال ہے۔اس ڈایگناسٹک سینٹر کے قیام میں محترم عبدالرشید بابا صاحب کا ایک اہم رول ہے۔ اس ڈایگناسٹک سینٹر میں عوام الناس کو %50 رعایت کے ساتھ خون کا جانچ کیا جائے گا۔
افتتاحی محفل کے میر کارواں صدر محترم تھے جنہوں نے اس تقریب پر قرآن و سنت کی روشنی میں حقوق العباد کی اہمیت کو اجاگر کیا۔اسلامی شریعت نے ہمیں زندگی کے ہر شعبہ میں مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ عقائد، عبادات، معاملات، اخلاقیات، سیاست، کاروبار، معیشت، حدود و فرائض۔۔۔ غرض ہر شعبے میں اسلام نے ہمیں قوانین و ضوابط فراہم کئے ہیں۔ محدثین کرام نے اپنی کتب احادیث و فقہاء عظام نے کتب فقہ کے اندر ابواب قائم کرکے ان مسائل کی افہام و تفہیم کو مزید آسان بنا دیا ہے۔حدیث مفلس وہ معروف روایت ہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ دھوکہ، خیانت، بددیانتی، حق تلفی، مکر و فریب ایسے شرمناک گناہ ہیں جنکی وجہ سے حسنات کا تبادلہ سیئات سے ہوگا۔آج حرام دولت کی بھرمار ہے۔۔۔ حلال و حرام کی تمیز ختم ہوچکی ہے۔ بنی آدم عبد الدرھم و عبدالدینار بن کر اپنی آخرت کا خسارہ جمع کررہے ہیں ایسی صورتحال میں جمیعت کا یہ قدم اپنی مثال آپ ہے۔ڈاکٹر الکندی حفظہ اللہ و مفتی اعظم فضیلتہ الشیخ محمد یعقوب بابا المدنی حفظہ اللہ نے بھی اس موقع پر اپنے نصایح سے سامعین کو مستفید فرمایا۔
سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں
آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت
لوگوں میں سے اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ وہ ہیں جو انسانوں لئے زیادہ نفع بخش ہوں۔خدمت خلق کا کام گناہوں کی بخشش اور رب کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے۔
حقیقی بڑا تو وہ ہے جو اپنے ہر چھوٹے کو پہچانتا ہو اور اس کی ضروریات کا خیال رکھتا ہو۔
خلقت سے تکلیف دور کرکے خود اٹھا لینا حقیقی سخاوت ہے۔جمیعت نے ہمیشہ ایک شفیق ماں کی طرح اس قوم کا خیال رکھا ہے۔بیوہ‘ یتیم‘ نادار‘ مفلس اور معذور افراد وہ لوگ ہیں جن کے طفیل‘ اﷲ تعالیٰ ہمیں رزق دیتا ہے۔ نوازتا ہے‘ برکت اور رحمت نازل کرتا ہے جن گھروں میں ایسے لوگ بستے ہیں اور جو لوگ ایسے افراد کی دیکھ بھال کر ر ہے ہیں اہل نظر کی نگاہ میں وہ عظیم لوگ ہیں۔خدمت خلق ایک مقدس جذبہ ہے جس کی تحریک کے لئے کسی رہبر کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ تو دل کا سودا ہے اور رضاکارانہ طور پر کیا جاتا ہے۔ لیکن جمیعت نے اسے تحریک کی شکل بھی دی اور رہبر کی سربراہی بھی جس سے اس فعل عظیم کو انجام دینے میں کافی راحت میسر ہوئی۔محتاجوں کے کام آنا‘ بھوکے کو کھانا کھلانا‘ اپاہجوں اور یتیموں کی سرپرستی کرنا‘ یہ وہ نیکیاں ہیں جو امن و آشتی اور انس و الفت کے پھول بکھیرتی ہیں۔ اور دلوں کو تسکین دیتی ہیں۔جمیعت کی سربراہی میں پوری وادی میں مختلف فلاحی ادارے چل رہے ہیں۔ گلمرگ کی حسین وادیوں سے لیکر جموں سے وابستہ انتہائی پسماندہ علاقوں تک جمیعت نے اپنی خدمت کے پھول بکھیرے ہیں۔جمیعت کی خدمات اس حدیث کی عملی تفسیر ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی الجامع الصحیح کے اندر نقل کیا ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا "اِیمان والوں کی آپس کی محبت، رحم دِلی اور شفقت کی مثال ایک اِنسانی جسم جیسی ہے کہ اَگر جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے تو (وہ تکلیف صرف اُسی حصہ میں منحصر نہیں رہتی، بلکہ اُس سے) پورَا جسم متاثر ہوتا ہے، پورَا جسم جاگتا ہے اور بخار و بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔“(صحیح بخاری )
قرآن کریم نے مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیا ہے اور اس اُخوت اور محبت کو اللہ کی نعمت قرار دیا ہے اور اس محبت اور اتحاد پر اُن کی قوت اور طاقت کا مدار ہے۔ اس اُخوت کو قائم رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے اور اُن تمام صفات کو اپنانا جن سے یہ اُخوت کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے، جیسے: خیر خواہی، محبت، اخلاص، ایثار، ملنا ملانا، صلح جوئی اور ایک دُوسرے کو سلام اور دُعاء پیش کرنا وغیرہ. سال 2014 کے سیلاب ہو، سال 2016 کا ہڑتال ہو ، سال 2019 کا سیاسی بحران ہو یا پھر رواں سال 2020 کا covid lockdown ہو ، جمیعت نے سیرت طیبہ کی عملی شرح کرتے ہوئے بحیثیت قائد قوم کے حاجت مندوں کی دل جوئی فرمائی۔
سلام اس پرکہ اسرار محبت جس نے سکھلائے
سلام اس پرکہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
اب حالات کا تقاضہ ہے کہ جمیعت کی اس عمارت کو مزید مستحکم بنانے میں قوم و ملت کے غیور نوجوان سامنے آئیں۔فرقہ پرستی، مذہبی منافرت، تعصب و عصبیت سے کنارہ کشی کرکے خدمت دین و خدمت انسانیت کو اپنی مشعل راہ بنائیں۔ اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ جمیعت کی خدمات اپنے دربار میں قبول فرمائے۔اور محبت و الفت کو ہمارے دلوں میں راسخ کردے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنّا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
مصنف اسلامک اسٹڈیز کے طالبِ علم ہے اور اُن سے [email protected] یا 6005465614 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔