خالد قمر
[email protected]
سمیر احمد نے اپنے باپ سے یہ بات چھیڑی کہ رمضان کا بیٹا سلمان پڑھنےکےلیےشاہی آباد گیا ہے۔سنا ہے وہاںپڑھائیبڑیڈھنگ سے ہوتیہے۔شاہی آباد کا ماحولپڑھنےکےلیےسب سے بہتر اور اعلیہے۔پچھلےسالمنظور کے بیٹے نے شاہی آباد سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کرتے ہی اعلٰی محکمہ میں ملازمت حاصل کرلی۔اس بار سلمان بھیڈگریلے کر ملازم بن کر ہی لوٹےگا۔سمیر کی باتیں سن کر اس کا باپ اس سوچ میں پڑگیا کہ کیا سمیر کوشاہی آبادبھیجکر وہ سچ میں ملازم بن جائےگا ۔لیکن دنیا سے بےخبرفاروق بٹ یہ نہیں جانتا تھا کہ شاہی آباد میں اتنی بے روزگاری ہے جتنیشاید دنیا کےکسیکونے میں نہیں ۔
بہرحال وقت آگیا کہ جب سمیر نے باپ کو سمجھایاکہ "بابا آپ پریشان نہ ہوں میں بہتبڑا افسر بن کے ہی لوٹوگا۔اور ہمارییہغریبیجڑ سے ختم ہوگی۔اور بابا سنا ہے کہ وہاں پر فیسبھیدیگرریاستوںکی جامعات سے کم ہے۔میںآپ پر بوجھ نہیں بننا چاہتابابا۔مجھے اس بات کا احساس ہے کہ کس طرح آپ نے میری تربیتکی اور اس میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔بابا یہ غریبیبھی کیا آفت ہے کہ ہمیںایک ہی لباسپہنکر زندگی گزارنیپڑتی ہے ۔اور پیٹکاٹ کر کچھچاول کے دانے ہی کھانےپڑتے ہیں ۔” وہ کچھ اور کہناچاہتاتھالیکنباپ نے روکا اور بولا "آپ فکر مت کریںآپ کے باپ نے آپ کی تعلیم کےلئے دولاکھروپیہپہلے ہی جمع کرکےرکھیںہے۔آپتیاریکرلیں اور ایکبڑاآفیسر بن کر لوٹے”۔
وقت آگیا جب سمیر نے تمام دستاویزاتکو اکٹھاکرکےآخری بار باپ کے ہاتھ میں دیا۔
باپ نے کامیابی کی دعائیںدیں اور بیٹے کو الوداع کیا۔جسجامعہ میں سمیر نے داخلہلیا تھا تو وہاں سے اس کو کہاگیا تھا کہ پانچ سال کے لئےآپ کو صرف ڈیڑھلاکھروپےجمع کروانے ہوں گے ۔اسی بات کو ذہن میں رکھکر وہ خوشیخوشیشاہی آباد میں داخل ہوگیا اور سوچا کہ پچاسہزار کی بچتمیرےلئےکافی ہے اس سے میںضروریاخراجات کو پوراکرسکوںگا۔وقتچلتا گیا اور سمیردرس و تدریس کی فکر میں دل و جان سے لگگیا۔غریب کی محنت جب پوری ہو تو اس کے سامنےمشکلات و مصائب کتنےبھی ہوں وہ ڈرتانہیں۔اس بات کا اندازہ سمیر کے جوش اور جذبات سے دیکھا جاسکتا تھا ۔پہلےسمسٹر کا نتیجہ سن کر سمیر کا باپبہت خوش ہوا اور حقیقت کی دنیا سے خیالی دنیا میں پہنچ گیا ۔اور ساتھ ہی دیکھتا ہے کہ سمیرایکبہتاچھا ملازم بن کر گاوں میں داخل ہوکرگاوں کی ترقی کےلئےایکاسکول اپنے پیسوں سے قائم کرتاہے۔کچھ اور بھیدیکھناچاہتا ہے لیکن رزاق وہاں سے گزرجاتا ہے اور سمیر کی کامیابی پر مبارکبادیپیشکرتاہے۔اوراس بات پر زور دیتا ہے کہ تو توغریب ہے اتنا رقم کہاں سے جمع کیا۔دو وقت کا کھانا تو امیرگھرانوں میں دیکھا جاسکتا ہے لیکنسمیرکے گھر کی طرف جب نظر پڑتی ہے تو یہاں چٹائی اور مٹی کے برتن گھر کی زینتبنی ہے ۔برتن میں کچھچاول کے دانے ہیں اور آٹاڈھائیسیرتک۔روٹیخاص دنوں میں ہی بنتیہے۔اس کے بجائےوہ زیادہ تر ستوکھاکر ہی گزارہکرتے ہیں ۔
ادھرتین سال گزرنے کو ہے اور سمیر کے پیسے کم پڑنےلگےہیں۔وہ اس سوچ میں مبتلا ہوگیا کہ مجھے پہلےہی رقم کے بارے میں کہا گیا تھا ۔پھر اتنےسارےپیسے کہاں خرچہوگئے۔حساب و کتاب کرنے کے بعد یہ اس مشکل میں پڑگیا کہ اسکالرشپ میں ملے رقم بھی غائب ہے۔پریشانی کی حالت میں ہی ان دوستوں کے پاس گیا جو امیرگھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان سے درخواست کی کہ اس کو اتنا زیادہ رقم کس چیز کےلئے خرچہوا۔وہ تو امیر تھے ان کو پیسےلٹانے کی لت تھی وہ اس کے سوال کو سمجھ نہیں سکے۔وہباپ سے فون پر رابطہکرنےکےلئے اٹھکھڑا ہوا لیکن جونہی فون کو ہاتھ میں تھاما تو باپ کی غربت سے کسمپرسی کی حالت یادآگئی تو اس نے فون کو فورا نیچےرکھدیا۔اور اس کے بارے میں سوچتا رہا کہ اب پیسوں کا انتظام کہاں سے کریں۔وہ ان دوستوں سے مدد کی فرمائشکرنے لگا لیکن وہ تو اس بات کے پیچھے تھے کہ اس غریبسمیر کو کس طرح پیچھےدھکیل دیا جائے ۔
جب سمسٹرچہارم کا امتحان فارم نکلا تو اس پر رقم دیکھ کر اس کی روح کانپ اٹھی جب اس نے گیارہ سو پچاس کے بجائے چار ہزارروپے کی رسیددیکھی۔غریبی کی وجہ سے جو حالت ہوتیہوگی وہ حالت سمیر میں دیکھیجاسکتیتھی۔وہاعلٰی حکام سے بات کرنے کےلئے گیا لیکن یہاں تکرسائیغریبوں کی نہیں بلکہامیروں کی تھی۔اب صرف ایکراستہ تھاپڑھائی کو چھوڑ دینا یا پھر پیسوں کو جمع کروانا۔بیچارہاسیخیال میں روتےروتےاسکول کی دیوار سے ٹکراگیا۔ایکچپراسی کی نظر اس پر پڑی وہ دوڑ کر اس کے پاسپہنچااور سب حالات و واقعات سن کر اس کو اعلٰی حکامتکلےآیا۔جبجامعہ کے آفیسر نے سارا معاملہ سنا تو وہ زور سے ہنسپڑا اور بولا”اوبچے یہ شاہی آباد ہے یہاں حالات و واقعات بدلتےرہتے ہیں اسی طرح جامعہ کا سرکولربھی بدلتا رہتا ہے۔جسفیس کی آپ بات کررہے ہیں وہاں سے اب تکتین بار سرکولر بدل دیا گیاہے۔
سمیر نے حساب و کتاب میں ایکموٹی رقم کو الگخانے میں رکھاتھا۔آنکھوںسے آنسوںٹپک ہی رہے تھے ۔اس نے آفیسر سے اس لہجہ میں بات کی کہ گویا وہ اس سے بھیکمانگناچاہتا ہو اور اپنی تعلیمجاریرکھناچاہتاہو۔دھیمی آواز سے کہتا ہے کہ سر یہ موٹی رقم کس لیےمجھ سے لیےگیے ہیں تو آفیسر نے فائیلکھولی اور اس کی طرف آگےبڑھ کر کر بولا یہ تو "ہاٹاینڈکولڈچارجز "ہے۔یہ سن کر سمیربیخودہوکرزمین پر گر پڑا ۔