تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
رابطہ نمبر:6005465614
ایک مُدت سے ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
ہوا دُکھوں کی جب آئی کبھی خزاں کی طرح
مجھے چُھپا لیا مٹی نے میری ماں کی طرح
قرآن و سنت میں ماں کی جو عظمت بیان کی گئی ہے، ہر عاقل مسلم اس سے واقف ہے۔ مختصراً یوں کہا جائے کہ ماں بے غرض محبت، بے لوث محبت کی اعلیٰ نشانی ہے۔ ماں صبر و تحمل کی اعلیٰ مثال ہے۔ بچہ کتنا بھی شرارتی کیوں نہ ہو، ماں کی رحمت کبھی زوال پذیر نہیں ہوتی۔ محبت میں قربانیاں دینا کوئی ماں سے سیکھے۔۔۔۔ ایسی محبت کہ بچے کی گندگی اور نجاست کو بھی ماں نعمت تصور کرتی ہے۔ خون جگر نچھاور کرنا کوئی اس ہستی بے مثال سے سیکھے۔ ماں کی گود اولاد کے لئے جنت کی عظیم وادیوں سے کم حیثیت نہیں رکھتی۔ ماں کے سینے پر سر رکھ کر بچے کا آرام کرنا اطمنان و سکون کے اعلیٰ درجے پر دلالت کرتا ہے۔
کوئی بھی ہستی ماں کی محبت کی ترجمانی نہیں کرسکتی سواۓ ماں کے۔ ہمارے اسلاف کہا کرتے تھے کہ ماں کے بغیر گھر کسی قبرستان سے کم نہیں۔ ماں کی دعا ہر مرض کی دوا، ہر تکلیف کی شفاء ہے۔ ماں کی ممتا جیسا وصف کائنات کی کسی دوسری شیء میں نہیں۔ ماں ایک پھول جس کی خوشبو کبھی بھی کم نہیں ہوتی بلکہ دن بدن نکھرتی ہے. ماں اس ثمر او ردرخت کو کہتے ہیں جس کا پھل کبھی کڑوا نہ ہو جس کا پھول کبھی مرجھائے نہ وہ پھول جو سدا خوشبو سے معطر اور منور رہے.
مال وہ عظیم فتنہ ہے جس نے ماں کی ممتا کو بھی خرید کر زیر زمین سپردخاک کردیا۔دولت، جائداد، bank balance جمع کرنے کے خاطر اب ہمارے شباب اپنی ماں کا خون بھی چوس سکتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے الجامع الصحیح کے اندر کتاب الرقاق کے تحت یہ روایت لائی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا، "دینار و درہم کے بندے، عمدہ ریشمی چادروں کے بندے، سیاہ کملی کے بندے، تباہ ہو گئے کہ اگر انہیں دیا جائے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو ناراض رہتے ہیں۔“(رقم الحدیث، 6435) ماضی میں بھی ایسے بے شمار واقعات دیکھنے کو ملے ہیں جن میں اولاد نے ہی زمینی مسائل کی وجہ سے والدین کا خون بہایا۔ اور حال ہی میں میڈیا ذرائع کے report کے مطابق بانڈی پورہ (bandipora) کے ایک نوجوان نے معمولی مسئلہ پر ماں کا خون بہایا۔وادی میں جرائم کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور یہ ایسے جرائم ہیں جو مہلک یعنی تباہ کن اور ہلاکت خیز ہیں۔
یہ ایک تنبیہ ہے اس قوم کے لئے۔ آخر کیا وجوہات ہیں کہ اولاد کے ذہن میں والدین کے لئے ایسا زہر ہے کہ انہیں قتل کرنے سے بھی یہ افراد نہیں لرزتے۔ اخلاقی گراوٹ اپنے عروج پر ہے۔ فقط ماتم کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، ہمیں گھر گھر اور بستی بستی درس قرآن، درس حدیث، درس اخلاقیات جیسے پروگرام منعقد کرنے ہونگے۔ تاکہ کسی حد تک اس تربیتی فقدان کو قابو میں لایا جاسکے۔
یہ نہ تو مسلکی لڑائی ہے اور نہ جماعتی مسئلہ۔۔۔ یہ گھر گھر کی کہانی ہے۔والدین اپنے ہی گھروں میں مظلومانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کہیں گالی گلوچ تو کہیں مار پیٹ، کہیں طعنہ و تشنیع تو کہیں حقوق کی پامالی۔۔۔۔
اب اس قوم کو ایسے خود دار نوجوانوں کی ضرورت و طلب ہے جو voluntary ملت کی تربیت کے لئے آگے آئیں اور قوم پر لازم ہے کہ ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کریں۔۔۔۔۔۔۔۔