ازقلم:منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر
رابط:6006952656
سوشل میڈیا پر بہن عائشہ کے ویڈیو نے ہر کلیجے کو شق کیا. بہن عائشہ کے زخمی جزبات اور احساسات زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کرتے ہیں.صنف نازک کو اسلام نے اعلی مقام عطا کیا تھا لیکن کمزور تربیت کے سبب موجودہ دور کے نوجوانوں نے اخلاقی سرحدیں پار کرکے وہ جرائم انجام دیے کہ انسان کا روح کانپ جاتاہے. عائشہ کا ویڈیو دیکھ کر انسان سوچ میں پڑتا ہے کہ یہ نوجوان جو عورتوں کی دولت سے محبت کرتے ہیں کس قدر مردہ ضمیر ہے اور اس دھرتی پر یہ کس قسم کی گندگی ہے.
عائشہ نام کی فقط یہ ایک بیٹی نہیں تھی جو اس غم میں تڑپ رہی تھی کہ وہ جہیز کی مانگ مکمل پوری نہیں کرسکی بلکہ اس غم میں ہماری لاکھوں بیٹیاں ہزاروں دکھ اور بے بسی کے آنسووں اپنے دل کے تنگ قبرستان میں دفن کرچکی ہے. عائشہ کے چہرے پر یہ بات واضح تھی کہ یہ بے بس اور لاچار بیٹی بے شمار درد دل کے ویران آنگن میں دفن کرچکی ہے. اس کے ہر لفظ سے درد چھلکتا تھا اور ہر سنجیدہ انسان اس درد کی چیخ وپکار سمجھتا تھا.
ہاں ادھر سوشل میڈیا کے ذریعے ایک عائشہ کا طوفان دیکھنے کو ملا مگر عائشہ جیسی لاکھوں بیٹیاں جہیز کی تجارت میں ہار مان کر دنیا والوں سے ہمیشہ الوداع کہہ کر چلی گئی. عائشہ کی باتوں سے صاف یہ ظاہر ہوتا تھا کہ جس تعلیم کو ہم ترقی سمجھتے ہیں یہ ہمارے لئے بہت خطرناک ہے کیونکہ جس نوجوان نے تعلیم پڑھ کر بھی چند چیزوں کے خاطر کسی حسین چہرے کو برباد کیا وہ تعلیم اور کوئی مہذب انسان نہیں ہوسکتا بلکہ ایک حیوان صفت بے غیرت اور مردہ ضمیر جیسے صفتوں کا مالک .
عائشہ کے باتوں میں اسقدر بردباری اور توانائی تھی کہ وہ غموں کا چٹان سینے میں رکھ کر بھی کسی کو اس مصیبت کا الزام نہیں دیتی تھی بلکہ ہر بات یہی رکتی تھی کہ میں اللہ سے پوچھوں گی کہ مجھ میں کیا کمی رکھی تھی. اگرچہ والدین فون کال پر عائشہ کو بہت سمجھاتے تھے کہ واپس آجاو خود کشی علاج نہیں ہے ہم آپ کے مسلے کو ٹھیک کریں گے لیکن سسرال اور خاوند کا ظلم اسقدر بے لگام ہوا تھا کہ عائشہ نے زندگی کے تمام سوالوں کا جواب موت کا ہی سمجھا. عائشہ جیسی بے شمار بیٹیاں یہ درد یہ عذاب جھیل رہی ہے. جنہیں گاڑی, فرج, لاکر, بیڈ یا دیگر فضول چیزوں کے لیے سسرال میں ساس یا دیگر افراد فضول چیزوں کے لیے سسرال میں ساس یا دیگر افراد کی طرف سے بے شمار طعنے سننے کو ملتے ہیں اور آخر پر وہ بھی موت کے نظر ہوجاتی ہیں.
عائشہ کے باتوں سے پتا چلا کہ زندگی کے اس طوفان سے لڑکر بھی وہ کسی سے کوئی شکوہ نہیں رکھتی بلکہ خود غرض انسانوں سے وہ اسقدر دہشت زدہ ہے کہ اپنے آخری پیغام میں بھی یہ بات لب کشائی کی کہ”خدا سے دعا ہے کہ وہ مجھے انسانوں کی شکل دوبارہ کبھی نہ دکھائے”. یہ الفاظ ان نوجوانوں کے چہرے پر زوردار تپھڑ ہے جو تعلیم اور ترقی کے نشے میں عورتوں کو جوتے کا تسمہ سمجھتے ہیں. عائشہ کی ایک ایک بات سماج کے باشعور انسانوں کے لیے سوالیہ نشان تھی. ان باتوں میں جو بے بسی لاچاری اور مظلومیت ظاہر ہورہی تھی وہ نوجوانوں کے سبق آموز تھا. ہمارے سماج میں جہیز کے فتنے کے سبب بے شمار بیٹیوں کے ہاتھ مہندی کے لیے ترس رہے ہیں کئی بیٹیوں کے ارمان خاک آلودہ ہوئے.
یہ ڈگریاں اور ترقی کا یہ کھوکھلا جنون سماج کے لیے ایک ناسور ہے کیونکہ اسی جنون نے میرے نوجوان کو عورت کی عظمت اور مقام سے ناآشنا رکھا. اسی تربیت نے نکاح کی عظمت سے اس نوجوان کو نافہم رکھا جس کے سبب اس نوجوان کو جہیز کے چند چیزوں میں ہی رشتے کی عظمت نظر آتی ہے.نوجوانوں کو بدلنا ہے اس سے پہلے اور عائشہ جیسی بیٹیاں موت کا راستہ اختیار کرکے اپنے ارمانوں کو زمین بوس کریں. اس تعلیم سے میرا نوجوان اسقدر مردہ ضمیری کا شکار ہے کہ بیٹیوں خود کشی کے واقعات روز اخبار کے صفحوں پر نظر آتے ہے. آئے بیٹیوں کے عظمت اور نکاح کا حقیقی معنی سمجھ کر اس جہیز جیسی دہشت کو لگام لگائیں گے.