تحریر :حافظ میر ابراھیم سلفی
بارہمولہ کشمیر
دشتِ تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے تیرے ہونٹوں کے سراب
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جو قوم اپنی ماضی سے عبرت حاصل نہیں کرتی اس کا وجود ہی روۓ ارض سے مٹ جاتا ہے۔ قرآن مقدس کی متعدد آیات بینات اس پیغام کو اظہر من الشمس واضح کررہے ہیں۔ لیکن کائنات کی سنت رہی ہے کہ ابن آدم نسیان کا شکار ہوکر ماضی میں ہوگئی غلطیاں دہرا کر اپنے مستقل کو زیر آتش کر دیتا ہے۔ بقول شاعر
ہر چیز پر بہار‘ ہر اک شے پہ حسن تھا
دنیا جوان تھی میرے عہدِ شباب میں
ابن آدم اس بھول میں اپنے لمحات گزار رہا ہے کہ جو دن بھی ملے اسے نفس کی پیروی میں گزارے۔ اہل عقل بخوبی جانتے ہیں کہ ایام شباب لہو لعب اور لذت و مٹھاس کے ایام ہوتے ہیں۔لیکن یہ مٹھاس چند دن کا مہمان ہوتا ہے۔اگر قوم و ملت کے افراد اسی لذت پرستی میں مبتلا ہوۓ تو وہ دن دور نہیں جب آنے والی نسلیں اپنے آباء و اجداد پر لعن و طعن کرنے میں کوئی قصر باقی نہ چھوڑ دیں۔جیسا کہ اہل دنیا واقف ہیں۔سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات عظمیٰ اس پہلو کو بڑی بہتر طریقے سے اجاگر کرتی ہیں کہ مومن وہ ہے جو دوبار ایک ہی خطا کا مرتکب نہ ہو کیونکہ صاحب ایمان تو احتساب نفس کا پیکر ہوتا ہے۔رب ذوالجلال نے بنی آدم کو پہلے ہی وعید سنائی تھی کہ کثرت مال اور طلب مال اس امت پر سب سے بڑا فتنہ ہے۔عصر حاضر میں اپنی زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لئے مال و دولت کا ہونا لازمی ہے۔ کیونکہ جب تک مال نہ ہو، تب تک انسان کی خواہشات سوء کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔یہ کسی ایک فرد کی بات نہیں بلکہ پوری قوم کی حالت اسی بات کی ترجمانی کر رہی ہے۔بقول شاعر
کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
جب اس قوم کی حالات کا ادراک باریک بینی سے کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آئے کہ ہم انسانی مجسمہ لئے کسی اور بے دل مخلوق کی زندگی گزار ہیں۔حقائق اس بات کی ترجمانی کررہے ہیں کہ جس قدر ہمارے قدم برزخ و آخرت کی طرف بڑھ رہے ہیں اسی قدر ہم سرکش اور باغی بنتے جارہے ہیں۔ لیکن ماضی کے اوراق پڑھ کر اس بات سے دل لرز اٹھتا ہے کہ یہ لذت مٹھاس بغتتہ آلودہ زہر کی شکل اختیار کرتا ہے۔ جس دولت سے غریب بیٹیوں کے اجسام سے لذت حاصل کی جائے، مزدوروں کا خون چوسا جائے، مفلوک الحال عوام پر بربریت کا عالم برپا کیا جائے وہ لذت زہر بننے کا ہی حق رکھتا ہے۔ہم نے اپنے کردار سے شرم و حیا کا جنازہ نکال کر اپنی نسلوں کو فحاشی کے اس زہریلے کنویں میں دھکیل دیا ہے جس سے شاید وہ کبھی باہر نہ نکل پائیں۔ اعلیٰ محلات تعمیر کرنے میں ہم اس قدر منہمک ہوچکے ہیں کہ ہم نے انسانی روح کو ہی سپرد خاک کردیا ہے۔
دل کی بساط کیا تھی نگاہِ جمال میں
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں
اپنے مشائخ سے راقم نے سنا تھا کہ اس قوم کو داعیان کردار کی ضرورت ہے۔ مصلحین کو آگے آنے کی اشد ضرورت ہے لیکن آج دیکھتا ہوں تو بہت مایوس ہوتا ہوں۔ کہاں گئے اسلاف کے نمونے۔ اب تو اہل دین بھی اپنی خودی کو بیچ چکے ہیں۔حسد و بغض، آپسی اختلاف، طلب شہرت نے انکی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ امت کے لئے درد دل رکھنے والے داعی زیر زمین ہیں۔ امت کی خاطر راتوں کو رونے والے مبلغین قبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔اب تو بس لوگوں کا مال ہڑپ کرنے کی صلاحیتین میدان عمل میں محو سفر ہیں۔ لوگ بھی اب دینی حلقوں سے متنفر ہوچکے ہیں۔ایک سائل آیا تھا اور اس نے سوال کیا تھا "یا رسول اللہﷺ! مجھے ایسی عمل کی تعلیم دیجئے کہ جس کے کرنے سے خالق بھی مجھے محبوب رکھے اور مخلوق بھی مجھ سے محبت کرے؟ تو جواب دیا گیا کہ ‘دنیا کی رغبت اپنے دل سے نکال دے، اللہ تجھے محبوب رکھے گا اور کثرت مال و حرص مال سے تحذیر اختیار کر، مخلوق کی محبت حاصل کرے گا”.یہ روایت متعدد کتب احادیث میں جید سند سے مروی ہے۔
آج یہ امت لٹ رہی ہے، اسلام کی عمارت کو اہل اسلام ہی منہدم کررہے ہیں،نصرت و رعب سے یہ قوم زوال پزیر ہوچکی ہے۔مشرق و مغرب، شمال و جنوب۔۔۔ جس طرف بھی دیکھو اہل طاقت مظلوم امت کو موت کی گھاٹ اتارنے میں مصروف عمل ہیں۔مسلم امراء خواب خرگوش کی نیند میں سوئے ہوئے ہیں۔جس امت کو جسم واحد بتلایا گیا تھا، آج مختلف ٹکڑوں میں بٹ کے رہ گئی ہے۔غریبوں اور مسکینوں کے نام پر دولت کے انبار جمع کئے جارہے ہیں،لیکن نہ غربت کا خاتمہ اور نہ مفلسی سے نجات۔راقم کی نظر میں یہ محلات جو قائم کئے جارہے ہیں،اسکی بنیاد چار چیزیں ہیں۔حرام سود پر مبنی دولت، منشیات کا کاروبار، غریبوں کی عصمت فروشی، شہداء کے خون کا سودا۔خود فرش مخمل پر سونے والے، قید خانوں کی زینت بنے ہوئے بے کسوں کی حیات کو سوشل میڈیا پر موضوع سخن بنا رہے ہیں۔ غیرت نام کی کوئی چیز باقی نہ رہی۔عمدہ لباس پہنے، مہنگا جوتا لگائے، اپنے جسم کو اعلی عطر سے مہکاکر ہمارا باطن درندگی کی حد تجاوز کر چکا ہے۔
خوش شکل و خوش لباس ہوں کیا جانیئے کیا ہو
پھر بھی بہت اداس ہوں تو کیا جانیئے کیا ہو
اس قوم پر زلزلوں کی کثرت ہوئی، ہمارا گفتار و کردار تبدیل نہ ہوا۔اس ملت کو سیلابوں نے جھنجھوڑا، ہمارا وتیرہ پھر بھی نہ بدلا، ہماری شناخت چھینی گئ، ہم ٹس سے مس نہ ہوئے۔
ملت کے نوجوانوں کا سرعام خون بہایا گیا، پھر بھی ہم سوتے رہے۔ہماری بہنوں کی عصمت سرعام لوٹی گئی، ہم تماشائی بن کے بیٹھے رہے۔ہمارے بزرگوں کی عزت نفس کو لوٹا گیا، ہم بزدلوں کی زندگی گزار کر بستروں میں سوتے رہے۔کلیجا تب پھٹنے کو آتا ہے جب اتنا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہم ہی طاغوت کے صفوں کو مضبوط و مستحکم کرنے میں لگے ہیں۔طاغوت کے پیر دھونے کو فخر و اعجاز تصور کیا جاتا ہے۔ اس درندگی کے خلاف قلم و لسان اٹھانے والے زندان کی تاریکیوں میں گھٹ گھٹ کر مر رہے ہیں۔ کہاں ہے محمد بن قاسم؟ کہاں ہے صلاح الدین ایوبی؟ کہاں ہے محمدبن عبدالوھاب؟ کہاں کھو گئے ابن تیمیہ کے فرزند؟ کہاں دفن ہوئے شاہ اسماعیل شہید کے روحانی بیٹے؟ کہاں گئے میدان کارزار کے شہسوار؟ اے تاریخ۔۔۔! ہم شرمندہ ہیں۔ سیاسی بازی گروں کے مکر و فریب سے لیکر تعلیمی دانشگاہوں کا حال ایک جیسا ہے۔
جو علم کو دنیا کمانے کے لیے حاصل کرتا ہے علم اس کے قلب میں جگہ نہیں پاتا.
گہری حقیقتیں بھی اُترتی رہیں گی پھر
خوابوں کی چاندنی تو لبِ جُو بکھیریے
کہاں جائیں یہ درد لیکر۔۔۔؟ کس کے سامنے رکھے اپنی یہ بے خوابی…؟ ملت کے باشعور فرزندو! امت کی باعزت بہنو! یہ سوداگری کب تک؟ یہ عیاشی کب تک۔۔۔؟ ہمارے اسلاف جنگلوں میں رہ کر دین کے شیدائی تھے۔۔۔ ہمارے اسلاف کچے اور ٹوٹے مکانوں میں مثل موتی تھے۔۔۔۔ ہمارے اسلاف اپنے سروں کو کٹانا برداشت کرتے تھے لیکن اپنی خودی کا سودا کرنے کو گوارا نہیں کرتے تھے۔۔۔وہ آسمانوں کے موتی پیوند زدہ لباس میں دین کے سفیر تھے۔۔۔ وہ معصوم تھے ان چالوں اور مکار اخلاق سے۔۔۔۔ وہ دنوں میں مجاہدانہ کردار لئے حلال روزی کے متلاشی تھے۔۔ وہ راتوں میں شب بیدار محو آنسو تھے۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنے لیل و نہار آخرت کی فکر میں گزار کر طیب اور پاک حیات عظمیٰ بسر کررہے تھے۔وہ صبر و استقلال کے علمبردار تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب حشر کا میدان سجا ہوگا۔۔۔ یہ فقیر بھی موجود ہونگے۔۔۔۔ یہ معصوم صالح وہاں دیکھ رہے ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا جواب دو گے انہیں۔۔۔۔۔؟ جن کی میراث کو تم نے لوٹا ہے۔۔۔۔۔۔ درویشوں کے علاوہ دنیا کے باقی لوگ ان بچوں کی مانند ہیں جو دنیا کی محبت کھلونوں کی طرح رکھتے ہیں۔ یہاں درویشوں سے مراد غرباء امت ہے۔اے ابن آدم! تمہارا دل سمندر کی طرح وسیع ہے۔ جاؤ خود کو اپنی پوشیدہ وسعتوں میں تلاش کرو۔۔۔۔ احتساب کرو۔۔۔۔۔۔
اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری
اک فقر ہے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری
مصنف اسلامک اسٹڈیز کے طالبِ علم ہے اور اُن سے [email protected] یا 6005465614 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔