تحریر: عمران بن رشید
حضرت عائشہ ؓ سے مرفوعاََ روایت ہے کہ اللہ کے رسول ؐ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ اَحَدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھَذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ
صحیح البخاری۔2697
یعنی جس نے ہمارے اِس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو دین میں نہیں تھی وہ مردود ہے۔ یہ حدیث صحیح مسلم میں کچھ لفظی تبدیلیوں کے ساتھ یوں آئی ہے:
مَنْ عَمَلَ عَملاََ لَیْسَ عَلَیہ اَمْرِنَا فَھُوَرَدٌ
مسلم۔1718
”جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر یعنی حکم موجود نہیں‘تو وہ عمل مردود ہے“
یہ حدیث معنًی متواترہے۔یعنی مختلف لفظیات کے ساتھ آئی ہے جبکہ معنی اور مفہوم میں برابر ہے۔اس حدیث میں رسول اللہ ؐ نے ہر اُس عمل کو مردود کہا ہے جس میں آپؐ کا کوئی حکم موجود نہ ہو۔ ایسے عمل سے متعلق ایک دوسری صحیح حدیث میں ”بدعت“ کا لفظ آیا ہے:
اِنَّ خَیْرُالْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ وَخَیْرَالْھَدْیِ ھَدیُ مُحَمَّدَ وَشرَّالْاُمورِمَحَدَثَا تُھَا وَکُلُّ بِدَعَۃٍ ضَلَا لَۃٌ
وَکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّار
”بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور بہترین راستہ محمدؐ کا راستہ ہے۔اور بدترین باتیں دین میں نئی نکالی ہوئی باتیں ہیں‘اور دین
میں ہر نئی بات(بدعت)گمراہی ہے اور (ایسی)ہر گمراہی آگ یعنی جہنم میں لے جانے والی ہے“
یہ حدیث صحیح مسلم کے علاوہ حدیث کی چند دیگر کتابوں میں بھی آئی ہے۔حدیث کے الفاظ پر غور کیجئے‘اِس میں کسی خاص بدعت کی قید نہیں بلکہ ہر طرح کی بدعت کو گمراہی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
بدعت کا ماخذ ومصدر:۔بدعت کی تشریح سے متعلق راقم الحروف نے کچھ سال قبل ایک مختصر مضمون تحریر کیا تھا‘ جس میں راقم نے قدرے اختصار کے ساتھ بدعت کی وضاحت کی تھی۔یہ مضمون بعد میں ہفتہ روزہ ”مسلم“ میں بھی شایع ہوا ؎ٰ۔ اُ س مضمون سے کچھ استفادہ کرتے ہوئے میں یہاں لفظ ”بدعت“ کے لغوی مفہوم کی کچھ وضاحت کرتا ہوں‘تاکہ بدعت کا صحیح نقشہ آپ کے ذہن میں بیٹھ جائے۔ بدعت کا لفظ اصل میں ”بَدِیعُ“ سے ماخوذ ہے۔بَدِیْع اللہ تعلی کا ایک صفاتی نام ہے ۲؎۔جیسا کہ سورۃالبقرہ میں ارشاد ہوا ہے:۔
بَدِیعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِطوَاِذَا قَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہُ کُنْ فَیَکُوْنُ
”آسمانوں اور زمین کا موجد (اللہ) ہے اور (وہ) جب کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو اُسے بس یہی کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے“
( البقرہ۔117)
عدم (Nothimg/Non existence)سے کسی چیز کو وجود (Existence)میں لانا عربی زبان میں ”ابداع“ کہلاتا ہے۔اور وہ ذات جو عدم سے کسی چیز کو وجود میں لائے ”بَدِیعُ“ کہلاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعلی آسمانوں اور زمین کا بدیع یعنی اِن کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے۔ اب اسی تنا ظر میں ”بدعت“ کو سمجھیں کہ بدعت ہر وہ عمل ہے جس کا پہلے سے قرآن و سنت میں کوئی وجود نہ ہو۔جیسا کہ سورۃالبقرہ کی مذکورہ آیت کے حوالے سے ابو نعمان سیف اللہ خالدحفظہ اللہ لکھتے ہیں:۔
”لفظ ”بدعت“ بدیع سے ماخوذ ہے‘تو ہر وہ بات جو اسلام میں نئی پیدا کی جائے اور جس کی تائید قرآن و سنت سے نہ ملے‘
اُسے بدعت کہا جاتا ہے“
تفسیر دعوۃالقرآن
جلد اول۔صفحہ نمبر۔167
چنانچہ ڈاکٹر ابو عدنان سہیل ؔبدعت کی وضاحت کے ضمن میں رقمطراز ہے:۔
”عربی زبان میں لفظ ”بدعت“ لغوی اعتبار سے ہر اُس نئی چیز کے وجود میں آنے کے لئے مستعمل ہے جو پہلے سے موجود
نہ ہو‘ اس طرح اس لفظ کے تحت ہر قسم کی نئی نئی ایجادات‘طور طریقہ‘ رسم ورواج‘عادات واطوار‘علوم و فنون اور سائنسی
انکشافات وغیرہ آجاتے ہیں۔یوں اس لفظ کا دائرہ استعمال اس قدر وسیع و ہمہ گیر ہوجاتا ہے کہ اس کی حد بندی ناممکن
ہے۔
شریعت کی اصطلاح میں ’بدعت‘ ہر اُس اضافہ اور زیادتی کو کہتے ہیں جو بغیر کسی سند اور شرعی بنیاد کے تَعَبُّد یا تقرب ِ
الی اللہ کے قصد سے دین میں (اس کے مکمل ہوجانے کے بعد) داخل کرلی گئی ہو“۔۳؎
اربعین ِ نوویؒ کی شرح میں شیخ عبدالہادی عبدالخالق مدنی نے بدعت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ”بدعت دین میں ایجاد کردہ ہر اُس عمل کا نام ہے جس کی شریعت میں کوئی اساس نہ ہو“۔۴؎
بدعت کی باطل تقسیم:۔ رسول اللہؐ نے اگر چہ ہر طرح کی بدعت کو ضلالت اور گمراہی سے تعبیر کیا ہے‘ تاہم کچھ نفس پرست‘ خود غرض اور نام نہاد ملاؤں نے بدعت کو مختلف نام دے کر ہر دور اور ہر زمانے میں مسلمانوں کو الجھایا ہے۔ اِن نام نہاد ملاؤں نے ”بدعتِ حسنہ“ اور ”بدعتِ سَیَّہ“کی تقسیم پر بدعت کو پانچ درجات میں بانٹ رکھا ہے۔(۱)مندوب(۲)واجب(۳)مباح(۴)مکروہ(۵)اورحرام۔ بدعت کی یہ درجہ نبدی سراسر باطل اور خود غرضی پر مبنی ہے۔چناچہ شیخ عبدالہادی عبدالخالق رقمطراز ہیں:۔
”ہر بدعت مردود ہے لہذا بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سَیَّہ کی تقسیم باطل ہے اور جن لوگوں نے بدعت کی پانچ قسمیں ذکر کی ہیں‘واجب‘مندوب‘مباح‘حرام اور مکروہ‘اُن لوگوں کی تقسیم بھی غلط ہے“
شرح اربعینِ نووی ؒ
صفحہ نمبر۔ 42
باطل استدلال:۔بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیہ کی تقسیم پر حضرت عمر ؓ کے اُس قول کو بطورِ دلیل پیش کیا جاتا ہے‘ جو آپؓ نے قیامُ اللیل (تراویح)سے متعلق کہا تھا۔حضرت عمرِ فاروقؓ کے دورِ خلافت میں جب نمازِ تراویح باجماعت پڑھی گئی تو حضرت عمرؓ نے اس عمل کو دیکھ کر کہا تھا”نِعْمَ الْبِدْ عَۃُ ھٰذِہِ“یعنی یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔
حضرت عمر ؓ نے بدعت کا لفظ استعمال کرتے ہوئے اگرچہ نمازِتراویح باجماعت کو’’اچھی بد عت“ کہا ہے‘لیکن غور کیا جائے تو نمازِ تراویح باجماعت پڑھناشرعاً کوئی بدعت نہیں ہے۔ کیونکہ نمازِ تراویح باجماعت حضرت عمرؓ کا کوئی خود ساختہ طریقہ نہیں ہے‘ بلکہ رسول اللہ ؐ سے ثابت شدہ ہے۔ جیسا کہ امم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ:۔
”اللہ کے رسول ؐ نے ایک رات مسجد میں نماز(قیام اللیل) پڑھائی۔صحابہ ؓ نے بھی آپؐ کے ساتھ یہ نماز ادا کی۔
دوسری رات آپؐ نے جب یہ نماز پڑھائی تو نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔تیسری یا چوتھی رات یہ تعداد
ایک بڑے اجتماع میں تبدیل ہوگئی‘لیکن رسول اللہ ؐ اس رات نماز کے لئے تشریف نہیں لائے۔اس کے بعد صبح
کے وقت آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ میں نے تم لوگوں کی تعداد دیکھی‘لیکن مجھے یہ خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ نماز
تم پر فرض نہ کردی جائے‘کہ تم عاجز آجاؤاسی لئے میں (اپنے حجرہ سے) باہر نہیں آیا۔اور رسول اللہؐ کی وفات
تک یہی کیفیت رہی۔“(بخاری)
اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ قیام اللیل کو با جماعت پڑھنا ہرگز کوئی بدعت نہیں ہے بلکہ سنت سے ایک ثابت شدہ عمل ہے۔حضرت عمرؓ نے اس طریقہ کو لغتاً بدعت کہاتھا نہ کہ شریعتاً۔جیسا کہ ڈاکٹر ابو عدنا سہیل رقمطراز ہیں:۔
”حضرت عمرؓ نے نمازِ تراویح کی جماعت بندی کو اچھی بدعت محض لغوی اعتبار سے کہا تھا‘شرعی طور پر نہیں۔
کیونکہ لغت میں بدعت عام طور پر اُس چیز کو کہتے ہیں جو کسی سابق مثال کے بغیر نئی نئی کی گئی ہو‘ لیکن
شریعت کی اصطلاح میں بدعت ہر اُس نئی چیز کو کہا جاتا ہے جس کی مشروعیت پر کوئی شرعی دلیل نہ ہو
تراویح کی نماز رسول اللہ ؐ نے باجماعت پڑھی اور پڑھائی ہے۔“
(اسلام میں بدعت و ضلالت کے محرکات)
صفحہ نمبر۔
اب ذرا غور کیجیے کہ جن لوگوں نے اپنے خود ساختہ طریقوں کو بدعتِ حسنہ اور اعتقاد کا نام دے کر جائز ٹھرالیا ہے اُن کا یہ اجتہاد کیا درست ہے؟ کیا حضرت عمرؓ کے مذکورہ قول سے بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیۂ کا تصور اخذ کرنا ٹھیک ہے؟ ہر گز نہیں!یہ سراسر گمراہی اور قرآن وسنت کے تیئن بد دیانتی ہے۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس باطل تقسیم نے امت میں طرح طرح کے کفریہ عقائد کو جنم دیا۔
بدعتِ مُکَفِرَہ اور مُفَسِقَہ:۔یہاں پریہ بات بھی واضح کردوں کہ رسول اللہؐ نے اگرچہ ہر طرح کی بدعت کو ضلالت کہا ہے‘تاہم بعد کے زمانوں میں جو بدعات اُمت میں پائی گئیں اُن میں کچھ بدعات سراسر مبنی بر کفر تھیں۔جس کی بنا پر علماء اور محدثینِ اُمت نے بدعت کے دو زمرے قائم کئے۔ ایک ”بدعتِ مکفرہ“ دوسرے ”بدعتِ مفسقہ“۔بدعتِ مفسقہ سے مراد وہ بدعات ہیں جن کا مرتکب فاسق اور گناہ گار تصور کیا جائے گا،البتہ ایسے شخص پر تکفیر نہیں ہوگی۔جیسا کہ حجر ابن اسقلانیؒ ”فتح الباری“ میں لکھتے ہیں کہ ”جو اہلِ بدعت توحید کے اقراری اور شرائع کا التزام کرنے والے ہیں ان کی تکفیر نہ کی جائے گی اور یہ کہ کافر کی توبہ قبول کی جائے گی“یہ استدلال انہوں نے عبداللہ ابن عمرؓ کی روایت کردہ اس حدیث سے کیا ہے‘ جس میں رسول اللہ ؐ نے فرمایا ہے کی مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں اس وقت تک کہ وہ اس بات کا اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمدؐ اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز ادا کرنے لگیں اور زکاۃ دیں‘ جس وقت وہ یہ کرنے لگیں گے تو مجھ سے اپنے جان ومال کو محفوظ کر لیں گے‘ سوائے اسلام کے حق کے (رہا ان کے دل کا حال تو) ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے(صحیح بخاری۔23)۔ ۵؎
لیکن کچھ بدعات ایسی بھی ہیں کہ جن کا مرتکب شرک اور کفر میں پہنچ جاتاہے۔اور ایسی ہی بدعات مُکَفِرہ کے زمرے میں آتی ہیں۔