سرینگر، یکم فروری: پاکستان سے واپس لوٹنے والے کشمیریوں کی پاکستانی بیویوں نے پیر کے روز یہاں اپنے مطالبات بالخصوص سفری دستاویزات کی فراہمی کے لئے ایک بار پھر احتجاجی مظاہرہ کیا۔
پریس کالونی سری نگر میں کئے جانے والے اس احتجاجی مظاہرے کی شرکاء خواتین اور ان کے بچے ‘وی وانٹ جسٹس، ہماری مانگیں پوری کرو، ہم کیا چاہتے واپسی، وی وانٹ ٹریول ڈاکومنٹس’ جیسے نعرے لگا رہے تھے اور انہوں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز بھی اٹھا رکھے تھے۔
ایک احتجاجی پاکستانی خاتون، جو اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ کپوارہ میں رہتی ہیں، نے نامہ نگاروں کو بتایا: ‘ہم ایک بار پھر یہاں احتجاج کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ ہم نے بہت بار احتجاج کیا اور کئی بار پریس کانفرنسیں کیں لیکن ہمیں ہمارے سوالات کا جواب نہیں مل رہا ہے’۔
انہوں نے کہا: ‘ہم یہاں حکومت ہندوستان اور حکومت پاکستان سے اپیل کرنے آتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں اور ہمیں واپس بھیج دیں۔ لیکن ہمیں دونوں حکومتوں سے کوئی جواب نہیں مل رہا ہے’۔
مذکورہ خاتون نے کہا کہ اگر بھارتی حکومت ہمیں سفری دستاویز نہیں دے سکتی ہے تو ہمیں واپس بھیج دیں۔
انہوں نے کہا: ‘ہم پہلے شہریت کے لئے لڑ رہے تھے لیکن جب صومیہ صدف کے ووٹوں کی گنتی روک دی گئی تو ہمیں پتہ چلا کہ شہریت نہیں ملے گی۔ اگر آپ ہمیں سفری دستاویز نہیں دے سکتے ہیں تو ہمیں واپس بھیج دیں۔ ہمیں اپنے وطن واپس بھیج دیا جائے۔ ہمیں نہیں لگ رہا کہ یہاں کی سرکار ہمارے معاملے کو حل کرنے کے تئیں سنجیدہ ہے۔ ہم یہاں بارہ تا پندرہ برسوں سے پھنسی ہوئی ہیں۔ ہمیں کن گناہوں کی سزا دی جا رہی ہے’۔
ایک اور احتجاجی خاتون نے کہا کہ ہمارے بچوں کا مستقبل خراب ہو رہا ہے اور ہم احتجاج کرتے کرتے تھک چکے ہیں۔
انہوں نے کہا: ‘اگر حکومت ہمیں قبول نہیں کرنا چاہتی ہے واپس تو بھیج سکتی ہے۔ ہمیں قید میں رکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ ہمارے بچوں کا مستقبل خراب ہو رہا ہے۔ ہم یہاں احتجاج کرتے کرتے تھک گئے ہیں’۔
ان کا مزید کہنا تھا: ‘حکومت پاکستان ہمیں واپس بلانا چاہتی ہے۔ وہاں سے ہر ماہ ایک مکتوب بھارتی حکومت کو بھیجا جاتا ہے لیکن یہاں کی حکومت کوئی جواب نہیں دیتی ہے’۔
پاکستانی ماں سے جنم لینے والی لائبہ نے نامہ نگاروں کو بتایا: ‘میری ممی پاکستان کی ہیں۔ ہم 2015 میں یہاں آئے لیکن تب سے لے کر اب تک پریشان ہیں’۔
ان کا مزید کہنا تھا: ‘میرے پاپا وہاں کام نہیں کرتے تھے لیکن پھر بھی ہماری وہاں زندگی بہت اچھے سے گزر رہی تھی۔ میرے پاپا یہاں مزدوری کرتے ہیں۔ آمدنی اتنی کم ہے کہ ہم بہن بھائی پڑھ نہیں پاتے ہیں۔ بچے اپنے رشتہ داروں کے گھر جاتے ہیں، ہم کس کے پاس جائیں گے؟’
واضح رہے کہ سال 2010 میں عمرعبداللہ کے دور حکومت میں جنگجوئوں کی بازآباد کاری پالیسی کے تحت قریب ساڑھے چار سو کشمیری، جو اسلحہ تربیت کے لئے سرحد پار کر گئے تھے، اپنی بیویوں کے ساتھ واپس وادی کشمیر آئے۔
یو این آئی