از قلم: منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر
رابط:6006952656
اس بات سے ہر ایک باشعور انسان اتفاق رکھتا ہے کہ وادی کشمیر علم وادب کے حوالے سے دنیا میں امامت کا درجہ رکھتی ہے. اس مظلوم چمن میں وہ گل کھل گئے جن کی مہک نے پورے عالم کو مہکایا. ان ہی گلوں میں شمالی کشمیر کے ہردشیوہ سوپور کا مدثر حسن مرچال ایک معروف نام ہے جس کی علمی اور ادبی بڑھائی کا تعرف اکثر علم دوست حضرات کو ہیں. مدثر حسن مرچال صاحب ہردشیوہ سوپور میں تولد ہوئے.ابتدائی تعلیم آبائی گاوں میں ایک پرائیوٹ ادارے سے حاصل کی اور بعد میں بی ایس سی کی ڈگری سوپور ڈگری کالج سے حاصل کی.علم حیاتیات(Zoology) میں ماسٹرس کی ڈگری حاصل کرکے بحثیت استاد وادی کے ایک معروف اسکول ویلکن میں کام سنبھالنے لگے. مدثر ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتا ہے جس کے سبب اس نوجوان کو علم کی پیاس رگ رگ میں موجود ہے.مدثر بچپن سے ہی قلم چلانے کا شوق رکھتا تھا اور جوانی کے دہلیز پر آتے ہی اس اقبال کے شاہین نے ادبی دنیا میں ایک نام درج کیا.مدثر ایک ,صنف, استاد, سماجی کارکن اور معروف کالم نویس ہے.مدثر کئی کتابوں کا مصنف ہے اور یہ کتابیں تحقیقی میزان میں باوزن ثابت ہوئی. چند مہینے پہلے اقبال کے اس شاہین کی ایک کتاب کشف مار منظر عام پر آئی اور ایک قلیل وقت میں اس کتاب کو سماج کے مختلف شعبوں سے پزیرائی حاصل ہوئی. یہ کتاب 112صفحوں پر مشتمل ہے جس میں کشمیر کے تاریخ پر 15 مضامین درج ہوئے.کتاب کامطالعہ کرکے احساس ہوتا ہے کہ قلم کار نے عرق ریزی سے دریا کو کوزے میں بند کیا ہے. وسیع موضوع کو کم اوراق میں قلمبند کرنا بالغ فن کاری کا اظہار ہے جس کا ثبوت کشف مار نامی یہ کتاب ہے. کتاب کے ابتدائی اوراق میں وسیم مرچال صاحب کے چند خوبصورت اشعار درج کرکے کتاب کو اور حسن بخشا.
اسی صدف سانس فرس تل ساسہ بدی گوہر موللی
اسی نگہبان, اسی قدرداں, اسی بہارکی پاسبان
باگرو حب بلبلن منز, سگ دمو پوشن وفا
اسی گلن ہندی رازداں, اسی چھ وطنکی ترجمان
کتاب کا مختصر تعارف اور تعریف میں وادی کی معروف شخصیت جامع درگاہ حضرتبل کے شعبہ کشمیری کے سربراہ ڈاکٹر پروفیسر شاد رمضان صاحب نے جامع الفاظ درج کرکے کتاب کی مضبوطی کو ظاہر کیا. کتاب کے بارے میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہے.
"کشف مار چھے نوجوان لکھاری مدثر مرچال سنز اکھ تژھ کتاب یتھ منز کشیر ہندین مختلف پاسن تہ گوشن پیٹھ تفصیلی کتھ کرنہ آمژ چھے. کشیر منز یمہ ناگہانی آفژ آمژ چھ تہنز موخصر زان دتھ چھ کتاب ہند مصنف پرن والین تام تواریخی پس منظرس منز پننی تاثرات واتناوان. کثیر ہندین مختلف موسمن منز چھے جاناوارن ہنز مختلف زاژ نظر گژھان تہ یمن متعلق تہ چھ زان فراہم کرنہ آمژ یتھے کنی چھ چارواین تہ فصلن متعلق تہ زان حاصل سپدان”
کشف مار میں قلمکار نے وادی کے تاریخی منظر نامے کو مستند دلائلوں کے ساتھ پیش کیا. یہاں کے جغرافیائی, سیاسی, سماجی, تمدنی, سیاحتی اور ادبی صورتحال کو احسن طریقے سے پیش کیا گیا. کتاب پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ مصنف نے وسیع مطالعہ سے کام لے کر بڑھی ذمہ داری اور ہوشیاری سے لفظوں کو تراشا ہے.کشمیر کی تاریخ اور یہاں کی راجاوں کے بارے میں بڑھے خوبصورت انداز میں جانکاری کولوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کوشش میں کامیابی کی خوشبو آتی ہے.کشمیر کی جغرافیائی صورتحال کو دلائل دے کر پیش کرکے قلمکار نے پڑھنے والوں کو یہ احساس دیا کہ قلمکار جغرافیہ کے مضمون کا ماہر ہے. یہاں کے سیاسی منظر نامے کو الفاظوں کو اس سانچے میں ڈالا گیا کہ عام پڑھنے والا بھی بات کو احسن طریقے سے سمجھ سکتا ہے.یہاں کے مذہبوں کے بارے میں خوبصورت لہجے اور الفاظوں کے سہارے سے جانکاری درج کی. مذہبوں کی ترجمانی کرکے کسی شاعر کا ایک خوبصورت شعر بھی قلمبند کیا.
مشیدن, مندرن, گرجن, دھرم شالن تہ آستانن
یمن ییتن گھرن اژنک کنے دروازء تھاون چھم
جہاں پر یہ کتاب کشمیری زبان کی خدمت کے حوالے سے خود ایک ثبوت ہے وہی پر کشمیری ادب کے بارے میں اس کتاب میں تذکرہ ہوا. جس میں کشمیری ادب کے اماموں کی ذکر بھی قلمبند ہوئی ہیں . مدثر حسن مرچال لکھتے ہے.
” کاشر ادب چھ قدیم آسنس ستی ستی سیٹھاہ وسیع تہ مولل. امچ آبیاری کرنس منز چھ لل دید, نند ریش علاوء مہجور, آزاد تہ رسل میر ہیوین بہلہ پایہ گونماتن ہند اہم کردار رودمت”
اپنی وراثت اور یہاں کے نامور شخصیتوں کا بھی ذکر اس کتاب میں درج ہیں . یہ کتاب کشمیری ادب میں ایک نادر نمونہ ہے.اگرچہ قلمکار نے خون جگر قربان کرکے کتاب کو قلمبند کیا لیکن "ولر پبلشنگ ہاوس”نے کتاب کی سجاوٹ میں ناانصافی اور غیر سنجیدگی سے کام لی ہے. یہ کتاب اقبال کے اس خیال کو سچ ثابت کرتی ہے کہ.
"ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے ساقی”
اللہ تعالی مصنف کو زور قلم عطا کرے اور یہ کتاب ادبی اور علمی دنیا میں ایک نام درج کرنے میں کامیاب ہوجائے.آمین