از قلم: انجیل یوسف
بٹہ مالو سرینگر
عاقب شاہین کشمیر کے ابھرے ہوئے جوان سال کالم نویس ہیں۔ وہ ۱۴ اگست ۱۹۹۹ ء کو کشمیر کے ضلع پلوامہ کے گاؤں میں پیدا ہوئے۔آپ کو وادی کشمیر کے سب سے کم عمر کالم نویسوں اور افسانہ نگاروں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
عاقب شاہین کا ناول "وہ جو خواب ہی رہا” کشمیر کے پر سوز حالات و واقعات کو بیان کرتے ہیں۔ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم، تشدد، بدامنی اور دل کو دہلانے والے واقعات کی بھر پور عکاسی ہوئی ہے۔
کشــمیـر کا ہر فرد جانتا ہے کہ ہماری جنت جیسی وادی کو جہنم بنانے میں ظالموں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن پھر بھی آزادی کے متوالوں کو آج تک نہ کوئی روک پایا ہے اور نہ کوئی روک سکتا ہے بھلے ہی روز ہمارے نوجوان شہید ہوتے ہیں اپنے وطن عزیز کے لیے جان دےدیتے ہیں۔ظالم انہیں چھپ تو کرادیتے ہیں لیکن وادی کے سینکڑوں لوگوں کی آواز کو کیسے دبا سکتے ہیں۔مصنف نے ایک نوجوان زبیر کا کردار پیش کرکے کشمیر میں کہی اولاد آدمیوں کو پیش کیا ہے۔ جنہوں نے اپنے بچپن سے لےکر اپنی آخری عمر تک گولیوں، حامیوں اور بدامنی میں زندگی گزاردی اور اپنے کہی عزیزوں کو وطن کے لیے قربان ہوتے دیکھا۔
یہاں وہ ایک زبیر سے اسکی آنکھوں کے سامنے اسکے دادا کو قتل کرتے ہیں لیکن زبیر کے بیٹے بدر کی شکل میں کہی آزادی کے متوالوں کو جنم دیتے ہیں۔جن کو اپنے وطن کی آزادی کے علاوہ اور کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی۔
یہاں ایک آکاش کو پاکستان سے محبت کےلئے اسکے پورے خاندان کو گولیوں کا شکار بناتے ہیں اور اس طرح ہر طرف خون کی بارش ہوتی ہے۔ظالم ظلم ایک بندے پے کرتا ہے۔لیکن تڑپتی ساری وادی ہے۔ناول "وہ جو خواب ہی رہا ” میں ہماری وادی میں ہونے والے مظالم ایک ماں کی تڑپ،والد کی محبت،بہنوں کا برداشت اور ایک بیوی کے صبر کی کہانی ہے جو دراصل یہاں کے ہر ایک فرد کی کہانی کو بیان کرتی ہے۔
کہانی کے کہی کردار ہیں لیکن آخر میں ہر ایک کی سزا موت ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم پے سر نہیں جھکایا بلکہ لڑتے رہیں چاہیں بدر اور آکاش کی شکل میں قلمی جہاد ہوں یا محمد کی شکل میں جان دینا ہوں ہر ایک کا انجام آخر کار ایک فوجی کی گولی ہوتی ہے کیونکہ ہمیں تو آزادی میں جینے کا کوئی حق نہیں۔ اپنے کشــمیـر کے حالات،یہاں کے فرد فرد کی کہانی اس کتاب میں قید ہے۔