تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس
بارہمولہ کشمیر
رابطہ نمبر:6005465614
مولانا حالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
برے ان پہ وقت آکے پڑنے لگے اب
وہ دنیا میں بس کر اجڑنے لگے اب
بھرے ان کے میلے بچھڑنے لگے اب
بنے تھے وہ جیسے بگڑنے لگے اب
ہری کھیتیاں جل گئیں لہلہا کر
گھٹا کھل گئی سارے عالم پہ چھپا کر
اہل علم جانتے ہیں کہ قرآن مقدس میں اللہ رب العزت نے قریباً تیس مقامات(سے زائد)پر زکاۃ دینے کی تاکید کی ہے جو کہ امت مسلمہ پر واجب و فرض ہے۔ اسی طرح پندرہ مقامات سے زائد جگہوں پر قرآن مقدس میں صدقہ کرنے کی ترغیب و مدح بیان کی گئی ہے۔زکاۃ ادا کرنا اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے جس کی ادائیگی فقط ایسے شخص سے ہو سکتی ہے جو صاحب استطاعت یعنی مالدار ہو۔ثانیاً اسلام نے اہل ایمان پر آخرت سنوارنے کے ساتھ ساتھ شرعی حدود میں رہ کر دنیا سنوارنے کی بھی تعلیم دی ہے۔خود رسول کریمﷺ بکثرت آخرت کی عافیت کے ساتھ ساتھ دنیا کی عافیت بھی اللہ عزوجل سے طلب کرتے تھے جیسا کہ حدیث انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے واضح ہے۔آخرت سنوارنے کے لئے بعض اوقات دنیا کی بہتری بھی کام آجاتی ہے۔جیسے کہ شرک جیسے قبیح فعل میں(عصر حاضر میں) اکثر وہ لوگ مبتلاء ہوجاتے ہیں جو فقر و فاقہ و بے روزگاری کے شکار ہوتے ہیں۔نیز یہ بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ جس عالم کی روزی روٹی فقط امامت و خطابت پر منحصر ہو، وہ حق بولنے کی جرأت نہیں کرپاتا الا من رحم ربی۔نتیجتاً دنیا کی خستہ حالی آخرت کی بربادی کی وجہ بنی۔ طبی امراض بالخصوص ذہنی امراض، قتل نفس (خود کشی) کا بڑھتا رجحان بھی اسی فقر کی دین ہے۔ کتب احادیث کا ذخیرہ مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فقر سے اللہ کی پناہ طلب کی ہے کیونکہ فقر انسان کو کفر تک لے جاتا ہے۔فحاشی و عریانی کے بڑھتے مراکز، مے خانوں میں مسلم نوجوان کی بڑھتی تعداد، سماج میں پھیل رہے مہلک جرائم اسی فقیری کی دین ہے۔شریعت نے جہاں ہمیں عقائد، عبادات کی تعلیم دی وہیں معاملات و معیشت میں بھی ہماری کامل رہنمائی فرمائی۔اسلام چونکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اس لئے اس مسئلہ کا حل بھی ہمیں شریعت ہی عطا کرے گی۔فقر سے نجات پانے کے لئے شریعت نے جو مختلف پہلو ہمارے سامنے رکھے ہیں، ان میں تجارت و کاروبار ایک نمایاں علاج ہے۔
فضائل تجارت
رسول کریمﷺ خود بھی ایک اعلی اور کامیاب تاجر گزرے ہیں۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ، سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور اکثر مہاجرین کا ذریعہ معاش تجارت ہی تھا۔سامان تجارت کے لئے سفر اختیار کرنے کو اللہ عزوجل نے بطور احسان ذکر فرمایا۔ فرمان ربانی ہے کہ "چونکہ(اللہ نے) قریش کو مانوس کردیا تھا کہ وہ سردیوں اور گرمیوں میں (تجارتی) سفر سے مانوس ہوگئے تھے”.(سورہ قریش آیت نمبر 1) ثانیاً ثمرات تجارت کو اللہ عزوجل نے "خیر” قرار دیا۔ فرمان ربانی ہے کہ "آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں، کہہ دو جو مال بھی تم خرچ کرو وہ والدین اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں
کا حق ہے۔ اور جو نیکی تم کرتے ہو سو بے شک اللہ خوب جانتا ہے”.(سورۃ البقرہ آیت نمبرنمبر:215) اس آیت مبارکہ میں اللہ عزوجل نے مال کی جگہ "أنفقتم من خير” کے مبارک الفاظ استعمال کئے۔ثالثاً قرآن مقدس نے ثمرات تجارت یعنی مال کو فضل الہی قرار دیا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ "پس جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں چلو پھرو اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔” (سورۃ الجمعہ آیت نمبر 10) رابعاً رسول کریمﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ "سچا اور ایماندار تاجر انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا”.(صحیح الترغيب والترھیب رقم الحدیث 1782) خامساً اللہ عزوجل نے تجارت سے نفع حاصل کرنے کو حلال و عمدہ قرار دیا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ "ایک دوسرے کا مال ناجائز ذریعے سے نہ کھاؤ بلکہ باہمی رضامندی کے ساتھ تجارت کی راہ سے نفع حاصل کرو”.(سورۃ النساء آیت نمبر 29) ۔ سلف و صالحین کے اوصاف جمیلہ میں یہ وصف بھی شامل تھا کہ خود بھی تاجر تھے اور طلاب العلم و شباب المسلمین کو بھی تجارت پر آمادہ کرتے تھے۔عصر حاضر میں مال و دولت حاصل کرنا کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ حرام راہیں کھلی ہوئی ہیں لیکن بحیثیت مسلمان،ہمارا جسد و روح، ظاہر و باطن، خلوت و جلوت پاک ہونی چاہئے جو تبھی ممکن ہے جب اکل حلال ہمارے پیٹوں میں جاۓ گا۔
نہ قوموں میں عزت نہ جلسوں میں وقعت
نہ اپنوں سے الفت نہ غیروں سے ملت
مزاجوں میں سستی ، دماغوں میں نخوت
خیالوں میں پستی ، کمالوں سے نفرت
عداوت نہاں دوستی آشکارا
غرض کی تواضع ، غرض کی مدارا
اصول تجارت
شرعی قوانین میں تجارت کرنے کی خاطر کامل اصول و ضوابط کو مرتب کیا گیا ہے جن کا پاس و لحاظ رکھنا لازمی ہے۔جب شروط فوت ہو جاتے ہیں تو مشروط بھی حاصل نہیں ہوتا، جب اصول سے محروم ہو جائیں تو وصول بھی حاصل نہیں ہوتا۔تجارت کرنے میں بھی ترجیح آخرت کو ہی دینی ہے یعنی اس تجارت کے ذریعے اپنے آخرت کو سنوارا جاۓ۔ویل ہے ویسے بدقسمت افراد کے لئے جو مال تو حاصل کرتے ہیں پر حلال و حرام کا فرق نہیں جانتے یا خیال نہیں رکھتے۔ایسا جسم جہنم کا ایندھن بنے گا جس کی پرورش حرام روزی سے ہوئی ہوگی۔
(۱) اللہ پر کامل توکل————————-
تاجر پر لازمی ہے کہ ضروری و جائز اسباب اختیار کرکے اللہ پر حسن توکل کرے۔فرمان نبوی ﷺ ہے کہ "اگر تم لوگ اللہ پر بھروسہ کرو، جیسا بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تمہیں بھی اسی طرح رزق عطا کیا جائے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے ، وہ صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں”.(جامع ترمذی رقم الحدیث 2344، حدیث صحیح) معلوم یہ ہوا کہ اسباب کو اختیار کرنا توکل میں شامل ہے کیونکہ حدیث کے الفاظ "تغدوا خماسا” اس امر کو واضح کررہے ہیں۔جیسا کہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے۔توحید تو یہی ہے کہ ادنیٰ سے افتتاح کرکے اعلی کی امید رکھی جائے شرط بس یہ ہے کہ طریقہ شرعاً جائز ہو۔
(۲) اللہ کے رزاق ہونے میں کامل ایمان ہونا————
اللہ عزوجل رب العالمین ہے تو ربوبیت بھی فقط اللہ عزوجل کے لئے خاص کی جائے گی۔فرمان ربانی ہے کہ "اور تمہاری روزی اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے۔آسمان و زمین کے پروردگار کی قسم! کہ یہ بالکل حق ہے ایسا ہی جیسے تم باتیں کرتے ہو”.(سورۃ الزاریات آیت نمبر 22-23) نیز فرمایا کہ "زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ پر ہیں وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہے اور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو بھی، سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے ".(ھود-6) فرمان نبوی ﷺ ہے کہ "بے شک رزق بندے کو تلاش کرتا ہے جیسے اس کی موت اسے تلاش کرتی ہے”.(صحیح ابن حبان ، رقم الحدیث 3238 ، حدیث صحیح ‘لغیرہ’)
(۳)کثرت دعا—————————-
دعا کی عظمت پر یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں جسے امام ابو عیسی ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی الجامع کے اندر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کیا ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا "جس شخص کے لئے دعا کا دروازہ کھل گیا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھل گئے اور اللہ تعالیٰ سے جتنی بھی چیزوں کا سوال ہوتا ہے ان میں سے اللہ کو سب سے زیادہ پسند یہ ہے کہ عافیت کا سوال کیا جائے”.(رقم الحدیث 3548 ، قال الالبانی—حسن) دعا اللہ عزوجل کی محبوب ترین عمل ہے۔ دعا کرنا تکبر کو زائل کردیتا ہے جبکہ تکبر نعمتوں کو زوال پزیر کردیتا ہے۔ تجارت کتنا بھی بڑھا کیوں نہ ہو، دعا مسلسل کرتے ہیں اور اپنے دل کو تکبر جیسے امراض سے محفوظ رکھیں۔ فرمان مصطفی ﷺ ہے کہ "بے شک دعا ایسی آفت کی جو نازل ہوچکی ہے اور ایسی جو ابھی نازل نہیں ہوئی سب کے لئے نفع بخش ہے ،اس لئے اللہ کے بندو! "فعلیکم۔۔۔۔ بالدعا” دعا کو لازم پکڑلو”.(جامع ترمذی رقم الحدیث 3548 ،قال الالبانی—حسن)
(۴) عبادت کے لئے وقت نکالنا———————–
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ "اللہ کا فرمان ہے کہ ‘اے ابن آدم! تو میری عبادت کے لئے یکسو ہوجا، میں تیرا سینہ استغناء و بے نیازی سے بھردوں گا اور تیری محتاجی دور کروں گا اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرا دل مشغولیت سے بھردوں گا اور تیری محتاجی دور نہ کروں گا”.(سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث 2466 ، حدیث صحیح) تاجدار حرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول سجا اور حق ہے۔یہ ہمارا ایمان و یقین ہے۔ عبادات کے اوقات مقرر ہے جن میں سستی کسی بھی صورت میں قبول نہیں۔ہر کام مناسب وقت پر ہی ادا کرنا معزز افراد کا شیوہ ہے۔فرمان مصطفی ﷺ ہے کہ "جو شخص اذان سن کر (مسجد میں نماز کے لئے) نہ آئے، تو سواۓ عزر کے اس کی کوئی نماز نہیں”.(سنن ابن ماجہ، 739، قال الالبانی—حدیث صحیح) تارک نماز عصر کے متعلق یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں کہ ان کے اموال اور اولاد برباد ہوگئے۔
(۵) اچھے معاونین کا انتخاب کرنا—————–
فرمان مصطفی ﷺ ہے کہ "آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہذا چاہے کہ تم میں سے ہر ایک دیکھے کہ وہ کس سے دوستی کرتا ہے”.(سنن ابوداؤد 3833، و سندہ صحیح) یہ شرط کافی اہم ہے بعض اس مسئلہ کو اہمیت نہیں دیتے جس کی بھرپائی انہیں پھر بعد میں کرنی پڑتی ہے۔اگر قرض بھی لینا پڑے تو بصیرت سے دینے والے کا انتخاب کریں۔شرعی مسائل کا حصول کرکے اپنی تجارت کو کامیاب بنائیں۔اس ضمن میں یہ بات بھی یاد رہے کہ تجارت میں پیش آنے والے مسائل کا حل معتبر علماء سے پوچھا کریں تاکہ شرمندگی سے بچا جاسکے۔
(۶) مشورہ لینا————————
مشورہ لینا اور دینا سنت نبوی ﷺ ہے۔ نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے مختلف معاملات میں مشورہ لیتے۔ تجارت کو بلندی دینے کی غرض سے ان افراد سے مشورہ لیں جو ثقہ و عدول ہوں یعنی تجربہ کار، تجارت کا علم رکھنے والے، وسیع النظر اور خیر خواہ ہوں۔ اس مرحلے پر بھی دھوکے سے بچنے کے لئے رب کی مدد استخارہ کے زریعے حاصل کرتے رہیں۔ الغرض مشورہ خالق کائنات سے بھی لیں اور مخلوق سے بھی۔ یہی اصحاب عقل و دانش کا وتیرہ ہے۔
(۷) صحیح وقت کا انتخاب———————
صحیح وقت سے یہاں مراد صبح کا بابرکت وقت ہے۔ دعاء نبوی ﷺ ہے کہ "اللهم بارك لأمتي في بكورها” ترجمہ ‘اے اللہ! میری امت کے سویرے کے کاموں میں برکت فرما’۔ (سنن ترمزی ،1212) سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی چھوٹا یا بڑا لشکر روانہ فرماتے تو دن کے اول حصہ میں روانہ کرتے. سیدنا صخر الغامدی رضی اللہ عنہ خود تاجر تھے اور کوفہ میں رہتے تھے ، وہ اپنے نوکروں کو صبح ہی مارکیٹ روانہ کرتے تھے، چنانچہ ان کی دولت میں خوب برکت آئی۔ (حوالہ ایضا) جو بد قسمت نماز فجر سے غافل رہ کر طلوع شمس کے بعد فراش سے اٹھتا ہے تو شیطان اس کے کانوں میں گندگی کردیتا ہے جیسا کہ صحیح صریح روایات سے ثابت ہے۔ نیز نماز فجر کا تارک تاجدار حرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید کا بھی شکار ہوجاتا ہے جس میں ان کے گھروں کو جلانے کی تمنا خود رسول کریمﷺ نے کی ہے۔ نماز فجر سے محرومی ہر قسم کی نحوست کی وجہ ہے۔ایسا شخص سلف کے آئینے میں خبیث ہے۔
(۸) مشکوک اشیاء سے پرہیز——————-
فرمان مصطفی ﷺ ہے کہ "حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے ‘وبینھما مشبھات’ اور ان کے درمیان شبہ والی چیزیں ہیں جن کے حکم سے اکثر لوگ لاعلم ہیں۔ تو جو شخص مشتبہ چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنے دین و عزت کو محفوظ رکھا۔ اور جو ان مشتبہ امور کے دلدل میں پھنس گیا وہ اس چرواہے کی طرح ہے جو اپنے جانوروں کو محفوظ چراگاہ کے آس پاس چراتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ اپنے دھن میں اس چراگاہ میں جا گھساۓ۔اس طرح سن لو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ یاد رکھو کہ اللہ کی زمین میں اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ اور خبر دار! جسم میں ایک گوشت ٹکڑا ہے اگر یہ ٹکڑا سالم رہے تو پورا جسم سالم ہوتا ہے لیکن اگر گوشت کا یہ ٹکڑا بیمار ہو جائے تو انسان کو سارا وجود بیمار ہو جاتا ہے اور وہ ٹکڑا دل ہے۔”(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
عطر دکان پر شراب کی بوتل نہیں جچتی۔مشکوک و حرام اشیاء سے تحذیر لازمی ہے۔
(۹)صدق و ایمانداری———————
فرمان ربانی ہے کہ "اے ایمان والو!اللہ تعالی سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو”.(سورۃ التوبہ) نیز فرمایا "إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها” ترجمہ "اللہ تعالی تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ”.(سورۃ النساء:آیت نمبر 15) معروف روایت ہے کہ "خریدنے اور بیچنے والے کو اس وقت تک اختیار ہے جب تک دونوں جدا نہ ہوں۔ پس اگر دونوں نے سچائی سے کام لیا اور ہر بات کھول کھول کر صاف بیان کردی تو انکی خرید و فروخت میں برکت ڈالی جاتی ہے لیکن اگر کوئی بات چھپا رکھی یا جھوٹ بولی تو برکت زائل و صلب کردی جاتی ہے”.(بخاری و مسلم)
(۱۰) کثرت حلف سے اجتناب——————
روحانی امراض میں یہ بھی شامل ہے کہ بندہ جھوٹی قسم اٹھا کر یا کثرت قسم اٹھا کر اپنا سودا فروخت کرتا ہے لیکن یہ صحیح نہیں۔ فرمان نبوی ﷺ ہےکہ "سامان بیچتے وقت دکاندار کے قسم کھانے سے سامان تو جلدی بک جاتا ہے لیکن وہ قسم برکت کو مٹا دینے والی ہوتی ہے۔ ” (صحیح مسلم، 1606)
(۱۱) کثرت صدقہ—————————–
اہل ایمان میں سے جب بھی کوئی معروف کام کرنا چاہتا ہے تو شیطان فقیری کی باغ دکھا کر سامنے آجاتا ہے۔ جیسا کہ فرمان ربانی ہے کہ "شیطان تمہیں فقر کا ڈراؤ دیتا ہے اور تمہیں بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تمہیں اپنی طرف سے بڑی بخشش اور فضل کا وعدہ دیتا ہے اور اللہ وسعت والا ، خوب جاننے والا ہے”.(البقرۃ، 268) فرمان نبوی ﷺ ہے کہ "صدقے نے مال میں کبھی کوئی کمی نہیں کی اور معاف کرنے سے اللہ بندے کو عزت ہی میں بڑھاتا ہے ".(صحیح مسلم،2588) ایک دوسری جگہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ "ہر روز جس میں بندے صبح کرتے ہیں ، دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ، ایک فرشتہ کہتا ہے ” یا اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے”. دوسرا فرشتہ کہتا ہے "یا اللہ! مال روکنے والے کے مال کو تلف کردے”.(صحیح بخاری، 1442)
(۱۲) تنگدستوں کو مہلت دینا———————-
فرمان مصطفی ﷺ ہے کہ "ایک تاجر لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا جب کسی تنگ دست کو دیکھتا تو اپنے نوکروں سے کہہ دیتا کہ اس سے درگزر کرجاؤ۔ شاید کہ اللہ تعالی بھی ہمیں درگزر فرمائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا”.(صحیح بخاری، 2078) رب نے بھی اعلان فرما دیا کہ "اور اگر کوئی تنگی والا ہوہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہیے۔ اور اگر تم صدقہ ہی کر دو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو”.(البقرۃ،280)
(۱۳) ناپ تول میں دھوکا نہ کرنا——————-
فرمان ربانی ہے کہ ” تباہی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں ، جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انہیں کم دیتے ہیں۔ کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ایک بڑے دن یہ اٹھا کر لائے جانے والے ہیں ، اس دن کہ سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہونگے”.(سورۃ المطففین، 1-6)
(۱۴) حسن اخلاق————————
اپنی تجارت کو بلندیوں پر پہنچانے کے لئے آپ کو اپنے اخلاق مزین کرنے ہونگے۔کاروبار کے دوران آپکا سامنا مختلف افراد سے ہوتا ہے جو فطرتاً مزاجاً مختلف ہونگے۔ ہر ایک سے نرمی و شفقت سے پیش آنا آپ پر لازم ہے۔جیسا کہ جریر نے کہا
"وجرح السیف تدمله فيبرا ويبقى الدهر ما جرح اللسان” یعنی کہ تلوار کا زخم مٹ جاتا ہے ، لیکن زبان کا زخم زمانہ بھر باقی رہتا ہے”.
(۱۵) کتمان سر ——————-
اپنے کردار کو مزین کروگے تو اہل تجارت آپکے پیچھے پیچھے چلیں گے۔ دوران تجارت آپکو سینے میں مختلف اسرار و بھید دفن کرنے پڑتے ہیں۔راز، سر اپنا ہو یا مخالف گروہ کا، کتمان یعنی چھپانا لازمی امر ہے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ "لوگوں سے چھپا کر اپنے مقاصد کی کامیابی پر مدد طلب کرو کیونکہ ہر نعمت والا حسد کیا جاتا ہے”.(صحیح الجامع، 943) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ” راز اس وقت تک آپکا غلام ہے جب تک آپ نے اسے کسی سے بیان نہیں کیا لیکن جب اسے بیان کر دیا تو اب آپ اس کے غلام ہوگئے ".(ادب الدنیا والدین)
(۱۶) شکر گزاری———————-
ایک طویل حدیث میں یہ نسخہ بتلایا گیا ہے کہ اگر امیری چاہتے ہو تو قناعت اختیار کرلو۔(مفہوما ،الصحییحہ) قناعت سے مراد اللہ کی تقسیم پر راضی رہنا ہے۔ ہر نعمت کا شکر ادا کیا کرو۔زبان سے بھی اللہ عزوجل کی تحمید، تہلیل اور تسبیح بیان کرو اور عملاً بھی نعمت کا صحیح استعمال کرکے رب کا شکر ادا کرلیا کرو۔کفران نعمت زوال نعمت کی راہ کو ہموار کر دیتا ہے۔ نیز معصیت سے بھی دور رہیں کیونکہ بندے کا رزق گناہوں کی سبب بھی صلب کردیا جاتا ہے۔ شکر گزاری کے ساتھ ساتھ تقوى اختیار کرلیا کریں نیز استغفار بھی کثرت سے کیا کریں۔ اسی طرح مسنون اذکار کو اپنے اوپر لازم کرلیں تاکہ آپ حاسدین، جنات، سحر، جادو، نظر بد و دیگر روحانی امراض سے محفوظ رہ سکیں۔فرصت کے لمحوں کو ضائع نہ کریں، دوران تجارت بھی قرآنی تلاوت و معروف افعال کا اہتمام کریں۔
خلاصہ کلام
تاریخ کے روشن اوراق گواہ ہیں کہ قرون مفضلہ میں صحابہ و تابعین کے عملی کردار سے اسلام کا نورانی پیغام دنیا کے سرحدوں پر جا پہنچا۔صحابہ و تابعین نے اپنی تجارت سے اسلام کے نور سے دنیا کو مشرف کردیا۔اس بات کا اعتراف غیر بھی کرچکے ہیں جیسا کہ ربندر ناتھ ٹیگور کی تصنیفات سے واضح ہے۔ مولانا حالی نے بھی اپنی مسدس میں نوجوان ملت کو اس بات کی معرفت کروائی ہے۔جدیدیت، معیشت اور مغربیت کے مضر اثرات سے ہم اپنی وراثت کھو بیٹھے ہیں لیکن کامیابی اسی میں ہے کہ ہم امر اول کی طرف رجوع کریں۔نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ پر چل کر صحابہ کرام کی اقتدا میں رہ کر اپنے عقائد و عبادات کے ساتھ ساتھ اخلاقیات، معاملات، کاروبار، سیاست، حدود اور لین دان کے معاملہ میں اصلاح کرکے دنیا و آخروی عزت کے حقدار بنیں۔۔۔۔۔۔ ان شاء اللہ۔ اللہ سے دعا گو ہوں کہ ہمیں دین میں پوری طرح داخل ہونے کی توفیق عنایت فرمائے۔۔۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔
تنزل نے کی ہے بری گت ہماری
بہت دور پہنچی ہے نکبت ہماری
گئی گزری دنیا سے عزت ہماری
نہیں کچھ ابھرنے کی صورت ہماری
پڑے ہیں اک امید کے ہم سہارے
توقع پہ جنت کی جیتے ہیں سارے