کالم نویس: مشتاق خالدؔ چودھری
درہ نامبلہ اُوڑی کشمیر
91-7051471583
شاعر، ادیب اورمفکر معاشرے کا حساس طبقہ ہے اور یہ نباض و رہبر ہوتے ہیں۔ یہ الفاظ کو زبان بخشنے کا ہنر جانتے ہیں اور سمندر کو کوزے میں بند کرنا بخوبی جانتے ہیں۔ یہ طبقہ ہر دُکھتی رگ کو ڈھونڈنے میں مہارت رکھتا ہے اورہر زخم کا مداوا کرتے ہوئے مرہم پٹی کرتا ہے۔ یہ کہیں اپنے درد ِدل کو بھی دوسروں کی زبان سے بیان کرتا ہے اور کہیں دوسروں کی آہوں کواپنے الفاظ میں سجا کر پیش کرتا ہے، تو ہر قاری کو وہ تخلیق اپنی سی لگتی ہے۔ کہیں یاس و امید کی کشمکش میں گُھپ اندھیرے سے روشنی کی کرن بن کر نمودار ہوتا ہے۔ تو کہیں معاشرے کی کردار سازی کرنے میں پیش پیش ہے۔کہیں سماجی نابرابری میں انصاف فراہم کرنے کے لئے یہ اپنی زبان و قلم سے انقلاب برپا کر دیتا ہے اور ایک اچھا معاشرہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ایک ادیب ادب ہی کے ذریعے انسان میں ہمت اور جوش پیدا کرتا ہے۔ جب ہم صرف ادب کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے ذہن میں الفاظ، معانی، تراکیب اور تخلیق کے کئی تصورات ابھرتے ہیں۔ شاعر اورادیب الفاظ کی جادوئی تراکیب سے مصرعوں اورجملوں سے وہ گُلدستہ تیار کرتے ہیں، جس میں جان ہوتی ہے۔ کہیں یہ گُلدستہ ذہنوں کو مہکاتا ہے، کہیں دِلوں جھنجھوڑتا اور تڑپاتا ہے۔ کہیں ہنساتا اور رُلاتا ہے۔کہیں یہ تیر بن کر جگر میں پیوست ہو جاتا ہے۔ اور کہیں یہ خاموشی سے کسی کی دنیا بگاڑتا اور بناتا ہے۔غرض یہ ہزار رنگ رکھتا ہے۔ یہ الفاظ نہ صرف ظاہر بلکہ باطن بھی رکھتے ہیں اور ادب میں علامتیں اور استعارے بن کر قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایک شاعراور ادیب الفاظ کے موتیوں سے ایک ایسی مالا پروتا ہے کہ وہ کسی کے حسن کو دوبالا کر دیتی ہے۔ یا سماجی نابراری کا الفاظ سے ایسا نقشہ کھینچتا ہے کہ مصور بھی دنگ رہ جاتا ہے۔
ادب کے بارے میں عام طور پرایک سوال کیا جاتا ہے کہ ادیب لکھتا کیوں ہے؟ چونکہ ہر ادیب اپنی انفرادیت رکھتا ہے، اُس کا اپنا اسلوب ہے اور وہ اپنے طریقے سے سماج کو کچھ دینا چاہتا ہے۔ اس لئے اس کی وجوہات بھی مختلف ہو سکتی ہیں۔ایک شاعر اورادیب ہمیشہ ان لمحات کا منتظر ہوتا ہے۔ جب اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں میں ایک لہر اُبھرتی ہے تو فن پارے کا وجود بنتا ہے اور پھر وہ اس فن پارے کو دوسروں کے سامنے پیش کرنے کے لئے خوبصورت الفاظ کا اِنتخاب کرتا ہے۔شاعر اور ادیب کا تخلیقی عمل تب تک نامکمل ہوتا ہے جب تک قاری اسے پڑھ کر مستفید نہ ہو تو وہ اورمعاشرہ اُس کا اثر نہ قبولے۔ کوئی بھی شاعر اور ادیب اپنی ذات کے لئے کبھی نہیں لکھتا۔ جب کوئی ادیب کسی موضوع پر قلم اٹھاتا ہے اور اپنی تحریروں سے اپنے خیالات، جذبات، احساسات اور نظریات کا اظہار کرتا ہے تو قاری کو اس کے نقطہئ نظر کا اندازہ ہوتا ہے اور وہ اس میں شریک ہو کراُن پہلوؤں پر غور وفکر کرتا ہے۔ شاعر اورادیب کا اپنے ماحول سے عجیب و غریب رشتہ ہوتا ہے۔
شاعر اور ادیب کی معاشرے میں کم فہمی کی وجہ سے قدر و منزلت کم ہوتی ہے۔ سخن ور سے سخن فہم اور سخن شناس ہونا بہت ضروری ہے۔میں آج ایک ایسی ہی شخصیت کے بارے میں لکھ رہا ہوں جنھوں نے زبان اور قوم کے لئے بہت کام کیا ہے۔جو واقعی قوم کے نباض بھی ہیں اور رہبر و نمائندہ بھی۔ ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اگر گوجری زبان اور گجر قوم کے حوالے سے اِنٹرنیٹ پر کچھ بھی تلاش کیا جائے تو ایک ایسا نام سامنے آتا ہے جن کی کاوشوں کی سراہنا کئے بغیر کوئی نہیں رہ پاتا۔ وہ شخصیت اِس وقت نوجوانوں کے لئے ایک رول ماڈل ہیں۔ جنھوں نے نوجوانوں کوزبان اور قوم کے لئے متحرک کیا۔ وہ نام ہے ڈاکٹر جاوید راہیؔ کا۔
ڈاکٹر جاوید راہیؔ جموں و کشمیر یوٹی کے ضلع پونچھ کے ایک گاؤں چنڈک میں یکم ستمبر1970ء میں معروف شاعر،ادیب اور طنز و مزاح نگار چودھری بابو نورمحمد نورؔ اور راشدہ بیگم کے ہاں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر جاوید راہیؔ گجروں کی کھٹانہ گوت سے تعلق رکھتے ہیں۔ بنیادی تعلیم اپنے گاؤں چنڈک سے مدرسہ اشاعت العلوم سے شروع کی اور یہاں پانچویں تک تعلیم حاصل کی،پھرچھٹی سے بارہویں تک گورنمنٹ ہائر اسکنڈری اسکول چنڈک پونچھ میں زیرِ تعلیم رہے۔ پھرگورنمنٹ ڈگری کالج پونچھ سے1993 میں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے جموں یونیورسٹی کا رخ کیا۔اور 1995میں ایم اے کے بعد پی ایچ ڈی تک جموں رہے۔ 2004 میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ ڈاکٹر جاوید راہی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جموں و کشمیر اکادمی برائے فن، ثقافت اور لسانیات میں ملازم ہو گئے۔ اور آج گوجری شعبہ میں چیف ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر جاوید راہی بیک وقت ایک انجمن ہیں۔وہ شاعر، ادیب، محقق،مورخ،ماہرِ لسانیات، لغت ساز، دانشور، مصنف، مترجم، صحافی، کالم نویس، ڈرامہ نگار، براڈکاسٹراور سماجی کارکن ہیں۔ انھوں نے کئی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ اوران کی ادارت میں سیکڑوں کتابیں تالیف ہوئی ہیں۔اُنھوں نے گوجری زبان وادب اور گجر قوم کے لئے بہت کام کئے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر جاوید راہی جموں وکشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن میں گوجری زبان کے کنوینر ہیں اور گوجری نصاب تیار کروانے کے لئے بہت بڑا کام کیا ہے۔ وہ گوجری زبان کو اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے کے لئے جدوجہد میں ہمیشہ آگے رہے ہیں۔اور گوجری زبان کو آئینِ ہند کے آٹھویں شیڈول میں شامل کروانے کے لئے حکومتِ ہندکے ساتھ گجر قوم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ خانہ بدوش گجر قبائل میں بکروال،اور دودھی گجروں کے حقوق کے لئے ہمیشہ آواز اٹھاتے ہیں۔ڈاکٹر جاوید راہی نے گوجری زبان و ادب کو ایک نئی سمت دی ہے۔
اِس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں انھوں نے اِنٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سائٹس پر گوجری زبان کوخوب متعارف کیا ہے۔ اِس کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے ٹیک وَن ایک نجی ٹی وی چینل پر مارچ 2006 میں گوجری زبان میں گجر گونج کے نام سے ہفتہ وار پروگرام شروع کیا جس میں 150قسطوں پر مشتمل پروگرام کئے۔اور اِس چینل پر گوجری خبروں کا سلسلہ بھی شروع کیا،گوجری خبروں کاسلسلہ ہنوز جاری ہے۔پھر 26جنوری2017میں ایک اور نجی ٹی وی چینل گلستان نیوز پر ہفتہ وار گوجری پروگرام مھاری اَواز کے نام سے شروع کیا جو کافی مقبول ہے اور اِس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اِس کے ساتھ ہی اِسی چینل پر روزانہ گوجری خبروں کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے جو عوام میں بہت مقبول ہیں۔اِ س کے علاوہ ڈاکٹر جاوید راہی نے یو ٹیوب پر جاوید راہی نام سے اپنا ایک چینل لانچ کیا جو گوجری زبان اور ثقافت کی ترجمانی کرتا ہے اور اِس وقت جاوید راہی یو ٹیوب چینل کو ’سلور کریئیٹر‘ ایوارڈ ملا ہے جو یوٹیوب ایسے چینلز کو دیتا ہے جن کے ایک لاکھ صارفین ہوں۔
ڈاکٹر جاوید راہیؔ کی تصنیف اور تالیف و ادارت میں شائع تمام کُتب کی پی ڈی ایف اِس وقت اِنٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ ڈاکٹر جاوید راہی کی درجن سے زیادہ تصانیف کے علاوہ ادارت میں شائع لگ بھگ 300 کتب گوجری زبان وادب اور گجر قوم کی ترجمانی کرتی ہیں۔ ڈاکٹر جاوید راہی ٹرائبل ریسرچ اینڈ کلچرل فاؤنڈیشن نامی انجمن کے بانی سیکریٹری ہیں اور اِس انجمن کے بینر تلے انھوں نے گوجری زبان وادب اور گجر قوم کی خاطر کئی نمایاں کام کئے ہیں۔ وزارتِ ثقافت حکومتِ ہند کے ساتھ فیلو شپ کے تحت انھوں نے گوجری زبان وثقافت اور گجر قوم کیلئے کئی اہم منصوبوں پر کام کیاہے۔ گوجری مونو لینگول ڈکشنری، اور گوجری ہندی ڈکشنری کے علاوہ انسائیکلو پیڈیا آف ہمالین گجرس ان کی شہرہ آفاق تصانیف ہیں۔
ڈاکٹر جاوید راہی بین الاقوامی سطح پر گوجری زبان اورگجر ثقافت کو بچانے اور اس کو اجاگر کرنے کے لئے کافی جدوجہد کر رہے ہیں۔ڈاکٹرجاوید راہی جموں و کشمیر میں گجر قوم اور خاص کر خانہ بدوش گجر قبائل کے ساتھ ہونے والی نااِنصافیوں پر ہر وقت آواز اٹھاتے ہیں اور اِس قوم کی فلاح وبہبود کے لئے ہمیشہ آگے رہتے ہیں۔ جموں کشمیر میں گجر قوم کے لئے فارسٹ رائٹ ایکٹ کا نفاذ ہو،یا موسمی ہجرت کے وقت درپیش مسائل، خانہ بدوش طرز زندگی کے تحفظ کے لئے مرکزی قوانین کا نفاذ ہو، یاآئینِ ہند کے آٹھویں شیڈول میں گوجری زبان کو تسلیم کرنے کی بات ہو۔ وہ ہمیشہ گجر قوم کی آواز بن کر سامنے آتے ہیں۔جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ سماج کے اِس حساس طبقے سے منسلک شاعر اور ادیب کو ہر عام شخص سمجھنے سے قاصر ہے، اِسی طرح ڈاکٹر جاوید راہی جیسی کئی ادبی اور علمی شخصیات کو بھی ہمارے معاشرے کے کچھ لوگ ابھی سمجھنے سے قاصر ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اِن کی محنت اور قربانیوں سے جب قومیں فیضیاب ہوتی ہیں تب ان کی قدر و منزلت دوبالا ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر جاوید راہیؔ کو صحت تندرستی اور مزید ہمت عطا فرمائے تاکہ گجرقوم کا یہ سپوت گوجری زبان وادب اور گجر قوم کو مزید بلندیوں پر پہنچائے۔
(نوٹ: کالم نویس شاعر، ادیب، براڈکاسٹر اور صحافی ہیں۔)