از قلم :منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر
رابط:9797217232
صفحہ تاریخ کے تمام سطور اس بات کے گواہ ہیں کہ ہر قوم کے لوگ اہمیت اطفال کے معتقد ہیں. زندگی کے ہر لحظ میں بچے ایک گھر میں خوشیوں کے بہار مانے جاتے ہیں. انسان کسی بھی مزاج کا مالک ہو لیکن شفقت اطفال اور ان کی اہمیت اس کے دل میں ضرور بہ ضرور ہوتی ہے. بچے ایک قوم کی روشن کل کے لیے ضمانت ہوتے ہیں.بچوں سے گلشن زندگی میں ہر سو مہک اور بہار ہوتا ہیں.یہ ایک ایسی عظیم نعمت ہیں جس کی کمی ہر انسان کے برداشت کے باہر ہے. انبیاء سے لیکر کائنات میں جتنے بھی عظیم انسان گذرے ہیں ان تمام لوگوں نے اس نعمت کے لیے بڑی سنجیدگی سے بارگاہ رب العالمین میں فریاد کی. صالح اولاد ہر انسان کےلیے نادر تحفہ ہوتا ہے جس تحفے کے ہوتے ہوئے انسان اپنی زندگی میں عزت کی مٹھاس مکمل طور محسوس کرتا ہے.لیکن جہاں پر سوال یہ ہے کہ بچوں کا ہونا ایک گھر کی زینت ہے وہی ہر ان کی تربیت و پرورش ہر والدین کے لیے بڑی ذمہ داری والی بات ہے. اگر اس ذمہ داری میں کسی قسم کی ناتوانی باقی رہی تو خوابوں کا تعبیر بھی ناتواں ہی نظر آئے گا.ایک قوم کی محنت تب تک ثمردار ثابت نہیں ہوگی جب تک نہ اس میں پل رہے بچے مکتب تربیت میں زانوئے طلب ہو. موضوع اگرچہ وسیع ہیں لیکن حرف تراشی کرنے کے بغیر اگر موجودہ دور میں بچوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہزاروں سوالیہ نشاں عیاں اور بیاں ہیں. چونکہ کارواں زندگی کے موجودہ دور میں والدین اتنے مصروف ہیں کہ بچوں کی زندگی صرف نجی اداروں کے حوالے ہوئی ہیں اور تربیت کا ہر پہلو بے جان نظر ڈالی جائیں تو یہ بات آسانی سے ہمارے فہم و ادارک میں آئے گی کہ ان کے عظیم بننے کا راز اسی تربیت میں مضمر آتی ہیں. آج کی تربیت اور اس تربیت میں زمین و آسمان کی فرق نظر آرہی ہیں. آج کی تربیت بلکل بے سود ثابت ہورہی ہیں کیونکہ والدین حضرت بچوں کے نفسیات سے بلکل بے خبر ہیں. جب آج کی اس تیز رفتار زندگی میں بچے کی پیدائش ہوتی ہیں تو اس کے بعد کھلون اور باقی بے کار چیزوں کے حوالے اس بچے کو کیا جاتا ہے برعکس اس کے والدین حضرات اس کی تربیت میں دس منٹ صرف کرتے. اس کے بعد کسی بڑے نجی ادارے میں اس کو داخل کرکے یہ خیال خام رکھا جاتا ہیں کہ شاید یہی ادارے اس کے ترقی کے ضامن ہیں. جو کہ تربیت کے کسی شرائط میں درج نہیں ہے. اصل بات گھر میں ہی بچے کو تربیت کے سانچے میں ڈالا جائے. اور تو اور ایام ماضی میں بچوں کو چھڑی یعنی عقل نما سے مارا جاتا تھا جس سے بچے حیا واحترام, محنت و تمیز غرض ہر چیز کے سائے تلے محفوظ رہتے تھے. لیکن والدین سے لیکر سیاسی طرز فکر تک اب اس کے عوض استاد کو نشانہ بنایا گیا جو کہ کوئی خیز بات نہیں ہے. چاہیے ماہر تعلیم اس حوالے سے کتنے بھی والدین اور سیاسی ٹھیکداروں کے حامی نظر آئے تب بھی میرا اس بات پر پختہ ہیں کہ عقل نما تربیت کے لیے لازمی ہے, کشمیری زبان کا ایک مشہور محاورہ ہے”بچس گژھ کھیون دین پلاو تہ گرمتہء ستی گژھنس اتھ پوٹھراون”. اس بات میں تربیت کا وسیع فلسفہ درج ہے.اور شیخ سعدی شیرازی رح اس حوالے سے رقمطراز ہیں.
ہرآں طفل کہ جود آموزگار
نہ بیند جفا بیند از روزگار
ہر وہ بچہ جو استاد کا ظلم نہیں سہتا ہے وہ پھر زمانے کا ظلم سہتا ہے.
ندانی کہ سعدی مکاں ازچہ یافت
نہ ہاموں نوشت و نہ دریا شگافت
بخردی بخورد ازبزرگاں کفا
خدا دادش اندر بزرگی صفا
تجھے معلوم نہیں سعدی کو مرتبہ کس چیز سے ملا نہ جنگل طے کیے نہ دریا پھاڑا اس نے بزرگوں کے طمانچے کھائے خدا نے اس کو بزرگی میں صفائی عنایت فرمائی.
غرض جس باپ نے اپنے نور نظر کو نازوں سے پالا اور زندگی کے حقیقی طرز فکر سے دور رکھا وہ بچہ خسارے میں رہے گا. اگرچہ دور حاضر میں والدین بچوں کو تمام سہولیت میسر رکھتا ہے لیکن تربیت کے حوالے سے بہت کمزوریاں نظر آرہی ہیں. ایک اچھے سماج کی تعمیر صرف اس بات میں مضمر ہیں کہ افرادِ سماج صالح اولاد رکھنے کا ذوق رکھتے ہو. قران نے بھی اس فکر میں لوگوں کو مطلع کیا ہیں.
رب ھب لی من لدنک ذریتہ طیبتہ انک سمیع الدعا(آل عمران)
اے اللہ مجھے پاک باز اولاد عطا فرما بیشک آپ دعا سننے والے ہیں
اگر آپ حضرات چاہتے ہیں کہ گھر سے لیکر ملک تک کا مقدر بدل جائے اور اخلاقی بہار چار سو مہکنے لگے تو تمام والدینوں کو اس فکر کو ہر فکر پر ترجیع دینی ہے اور ان شگوفوں کو پرورش کیلئے کمر بستہ ہونا ہے. اگر آپ صفت امام حسین جیسے مرد مجاہد کے کردار پر اپنے لاڈلوں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے مزاج کو اس بات سے آشنا کرنا ہے جس بارے میں اقبال رح نے اپنے قلم کو متحرک کیا.
بتولے باش و پنہاں شو ازیں عصر
.کہ در آغوش شبیرےؓ بگیری
آپ فاطمہؓ زہرا کی طرح بنو حسین جیسے اولاد تولد ہونگے.
جہانِ اطفال کی طرف توجہ کو مرکوز کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ چمن میں مہلک بیماریوں کے لگ جانے کا اندیشہ ہے. اگرچہ آپ اپنا سب کچھ ان جگر گوشوں کے لیے قربان کررہے ہیں لیکن تربیت کے ابتدائی مرحلوں پر نظر رکھنا آپ پر فرض ہیں باقی عقل والوں کے لیے فضا کی گردش واضح ہے.
تربیت عام تو ہے جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کہ یہ وہ گل ہی نہیں
جہاں پر کائنات کے صفحے پر اسماعیل ؓ کے فرمانبردار اور صالح ہونے کی بات سونہرے حروف سے قلمبند ہے وہی پر ابراہیم ؓ کی تربیت بھی ایک خوبصورت مثال سے جانی جاتی ہے. اسلئے اگر آپ اپنے جگر پاروں کو اسماعیلؓ کے طبعیت کا مالک دیکھنا چاہتے ہیں تو صیح میں آپ کو صفت ابراہیم ؓ سے خود کو نوازنا ہے. جب یہ روایت آپ کی زندگی میں مستعمل ہوگی تو یقیناً آپ کے لیے بھی یہ خیال معنی خیز ثابت ہوگا.
وہ فیضان نظر تھی یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؓ کو آداب فرزندی
جہاں پر والدینوں کو اس میں محو عمل ہونا ہے وہی پر سماج کے ذی شعور افراد بھی ان قدموں میں جان بخشے.جموں و کشمیر کی بات کریں تومختلف انجمنیں اس سلسلے میں اگرچہ کام کررہی ہیں لیکن بچوں کے فطانت یا صلاحیت کو بروئے کار لانے کیلئے چھ ایسے انجمنوں کی اشد ضرورت ہیں جو مختلف تقاریب کا اہتمام کریں جہاں پر بچے مختلف مضمونوں کے حوالے سے تقابلی مزاج میں اپنے آپ کو پیش کریں. کیونکہ اس قسم کا انکشاف یا ایکسپوجر بچوں کے لیے ثمر آور ثابت ہوگا. والدین حضرات سے امیدیں مضبوط ہیں کہ وہ بچوں کی تربیت کے معملے میں اپنے ماحول کے نبض کو صیح طور پرکھے اور سنجیدگی کا لباس زیب تن کرکے بچوں کو ہر تمیز سے آشنا کرائے. مغربیت اور باقی گندی ہواوں نے ان شگوفوں کو بھی متاثر کیا. ہر ایک انسان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس حساس مسلے کو اولین ترجیع دیکر اپنی فکر کو متحرک کریں. باقی یہ بات کائنات کے ماتھے پر تحریر ہیں کہ بچے ہی حقیقی معنی میں کاواں زندگی کا روح ہیں. اس لیے ابن قیم رح نے اس کو واضح کرکے کہا.
انما اولادنا بیننا
اکبادنا تمشی علی الارض
لوھبت الریح علی العضھم
لا متنحت عینی من الخمص
ہمارے اولاد ہمارے جگر کے ٹکڑے ہیں جو روئے زمین پر چلتے پھرتے ہیں اگر انہیں معمولی ہوا کا جھونکا بھی لگ جائے تو ہمارے آنکھوں سے نیند غائب ہوجائے گی.