ڈاکٹر احسان عالم
پرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ
موبائل:9431414808
عالمی شہرت یافتہ شاعر اور فنکار پروفیسر عبدالمنان طرزیؔ کی شخصیت کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ادب سے متعلق متنوع موضوعات کے ساتھ بڑی تعداد میں برگزیدہ و چیدہ شخصیات کی حیات اور کارناموں کو منظوم پیرائے میں پیش کرنے کا سہرا ان کے سر بندھ چکا ہے۔اس طرح کی پانچ کتابیں ”سودیدہ ور“ اور”دیدہ ورانِ بہار“ کی چار جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ گوپی چندنارنگ پر ”نارنگ زار“، مناظر عاشق ہرگانوی پر ”مناظر نامہ“ اور مظہر امام پر ”دستارِ طرح دار“ کے علاوہ کئی دیگر معاصرین پران کی منظوم کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اسی طرز پر موصوف نے اردو کے ایک اور نامور نکتہ سنج نقاد پروفیسر وہاب اشرفی پر بھی ”منظوم جائزہ“ قلم بند کیا ہے جس میں طرزی ؔصاحب نے وہاب اشرفی ؔکے ادبی اور تنقیدی کارناموں کا نہ صرف یہ کہ منظوم تعارف پیش کیا ہے بلکہ ان کے اوصافِ حمیدہ کا ذکربھی کیا ہے۔ اس سے بھی بڑا تحقیقی کام گذشتہ چند سالوں میں انہوں نے ”نازبردرانِ اردو“ اور غیر مسلم نعت گو شعرا“ منظوم لکھتے ہوئے قارئین کو تحفے کی شکل میں پیش کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔ موصوف کے اتنے کارہائے نمایاں پر نظر رکھناپھر انہیں منظوم سانچے میں ڈھالنا آسان کام نہیں ہے۔یہ بے شک طرزیؔ صاحب کی موزوں طبیعت کا ہی طرہئ امتیاز ہے جو ایسا پیچیدہ کام کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر حافظ عبد المنان طرزی کے منظوم تزکرے، تنقید و تحقیق کا اتنا بڑا سرمایہ دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ڈاکٹر طرزی نے کس طرح اتنا اہم، معیاری،قابل قدر اور قابل رشک کام انجام دیا ہے۔ ان کی جس کتاب کو پڑھ جائیے، ہر کتاب علم و فن کا خزانہ معلوم پڑتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کتاب کے بعد اگر پروفیسر طرزی کچھ نہیں لکھتے، تو بھی وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنی انمٹ نقوش چھوڑ جانے میں کامیاب تھے۔ جس قدر ان کے افکار و اظہار شعری پیرائے میں جگہ پا چکے ہیں، وہ انھیں ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید رکھنے کے لئے کافی ہے۔ اب تک ان کی پچاس کتابیں جو کہ تقریباََ ساٹھ ہزار اشعار پر مشتمل ہیں، منظر عام پر آ کر تاریخ رقم کر چکی ہیں۔
مندرجہ بالا کارناموں کے علاوہ پروفیسر عبدالمنان طرزی نے بچوں کے شاعر کی حیثیت سے بھی اپنی جگہ مسلم کرلی ہے۔ ۱۲۰۲ء میں انہوں نے بچوں کے لئے دو منظوم کتابیں ”میٹھی میٹھی نظمیں“ اور پیاری پیاری نظمیں“ تحریر کی ہیں۔ ان دونوں کتابوں کی پذیرائی اردو شعر و ادب کے قارئین کے درمیان ہونا لازمی ہے۔
یہاں راقم الحروف کا عنوان”پروفیسر عبدالمنان طرزی بحیثیت بچوں کے شاعر“ ہے۔ اس لئے اپنی تحریر کو بچوں کے حوالے سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں۔
بچوں کا ذہن کس چیز کو پسند کرتا ہے اور کس چیز کو ناپسند یہ شاعر وادیب کے ذہن میں ہر وقت رہنا چاہئے۔ بچوں کے لئے افسانہ، ڈرامہ، ناول یا نظم جو کچھ بھی تحریر کیا جاتا ہے وہ بچوں کی ذہنیت کو سامنے رکھ کر کرنا پڑتا ہے۔ بچوں کے لئے تحریر کی گئی دونوں کتابوں کے مطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پروفیسر طرزی بچوں کی نفسیات کو سمجھنے میں پوری طرح کامیاب ہیں۔
بچوں کے لئے تخلیق کردہ کتاب ”پیاری پیاری نظمیں“ میں محمد سبحان (دہلی) نے ”طرزی اور ادب اطفال“کے عنوان سے بڑی عمدہ باتیں لکھی ہیں۔ چند اہم اور خوبصورت جملے ملاحظہ کریں:
”پری پرائمری اور ابتدائی درجات میں بچوں کو زبان کی تعلیم دینے کے لیے انگریزی میں Rhymesاور چھوٹی چھوٹی نظمیں پڑھائی جاتی ہیں جن کو بچے پڑھنے کے ساتھ گاتے اور گنگناتے بھی ہیں۔ اردو میں ایسی نظموں کی کمی ہے جو ابتدائی درجات کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہوں۔ طرزی صاحب نے پری پرائمری اور ابتدائی درجات کو سامنے رکھ کر ایسی نظمیں لکھنے کا ارادہ کیا ہے جو بچوں کو زبان کی تعلیم دینے میں معاون ہوں۔ ایسی نظموں کی زبان کا بچوں کی عمر اور ذہنی استعداد کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ ان میں لفظوں کی آموزش کے ساتھ اخلاقی تربیت کا بھی خیال رکھا گیا ہو اور اس میں بچوں کی تفریح کا سامان بھی ہو۔“
کتاب کے بیک کور پر معروف افسانہ نگار ڈاکٹر مجیر احمد آزاد نے اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار ان جملوں میں کیا ہے:
”ادب اطفال کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے طمانیت کا احساس ہوتا ہے کہ بزرگ شاعر پروفیسر عبدالمنان طرزی نے بچوں کے لئے شاعری کو بامقصد اور دلچسپ بنانے میں ہنرمندی سے کام لیتے ہوئے جولانیئ طبع سے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ ان کی نظموں میں الفاظ کی نزاکت اور لہجے کی نرمی نیز موضوعی جدت پائی جاتی ہے۔ ان کے پیش نظر بچوں کی عمر، موجودہ ماحول اور اس سے متاثر ہورہے نونہال ہیں۔ شاعر کی نگاہوں میں بچوں کے الئے ذمہ دار شہری بننے کا خواب موجود ہے جس کا برملا اظہار ان کی نظموں میں کہیں پند و نصیحت تو کہیں دعا کی شکل میں تخلیق کا حصہ بنتا رہا ہے۔“
”پیاری پیاری نظموں“ میں کل ۲۴ نظمیں ہیں۔ کتاب کا آغاز انہوں نے حمد و نعت سے کیا ہے۔ حمد میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی تعریف پروفیسر طرزی نے اس انداز میں بیان کی ہے کہ وہ بچوں کی زبان بن جائے اور اللہ کی شان میں بچے گنگنا کر یہ کہنے لگیں:
سورج ہوں کہ چاند ستارے
رب کی گواہی سب ہیں دیتے
مٹی پانی اور ہوا بھی
اس نے ہی ہم سب کو بخشی
سب کو کیا اللہ نے پیدا
ایک وہ ہے خالق سب کا
اور پھر سرکار دو عالم ﷺ کی تعریف میں پروفیسر طرزی کا قلم بچوں کی زبانی یوں بول اٹھتا ہے:
خدا کے نبی لائے دین ایک ایسا
کہ جس کی بناپر اسے ہم نے جانا
ہدایت بھی پائی ہے ہم نے اسی سے
کہ ہم آج اس کی عبادت ہیں کرتے
کتابِ ہدایت بھی وہ ساتھ لائے
کہ دستورِ اسلام ہی جس کو کہئے
بچوں کی زندگی میں استاذ کی بڑی اہمیت ہے۔ بچوں پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کرام کی عزت کریں۔ اس احساسات و جذبات کو جگانے کے لئے پروفیسر طرزی کا قلم بے ساختہ بول اٹھتا ہے:
ہم اچھے انسان بنے
یہ احسان ہیں ٹیچر کے
وہ نہ پڑھاتے ہم کو گر
ہم جاہل ہی رہ جاتے
ہم کو ان سے علم ملا
ورنہ ہم کس کام کے تھے
ہر انسان کو اپنا ملک جان سے زیادہ عزیز ہے۔ بچوں میں اس احساس کو جگانے کی کوشش شاعر نے بڑی سادگی کے ساتھ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
ہم بچے ہیں بھارت کے
رکھوالے اس دولت کے
کام اس کو ہم آئیں گے
اس کی شان بڑھائیں گے
اس میں ندیاں بہتی ہیں
اس میں کلیاں کھلتی ہیں
بڑے فلسفی کا قول ہے کہ قلم کی طاقت تلوار سے زیادہ ہے۔ شاعر نے بھی اس بات کو صحیح گردانتے ہوئے یہ نظم لکھی ہے۔ اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ کریں:
قلم ہے دولت بڑی ہماری
قلم ہے طاقت بڑی ہماری
قلم سے عظمت ہماری قائم
قلم سے پائی ہے سربلندی
عصر حاضر میں پبلک اسکول کی اہمیت کافی بڑھ گئی ہے۔ زیادہ تر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بچہ پبلک اسکول میں پڑھے۔ شاعر نے پبلک اسکول کا نقشہ اس انداز میں کھینچا ہے:
ہم پبلک اسکول میں پڑھتے
علم یہاں پر حاصل کرتے
صبح سویرے گاڑی آتی
جس سے ہم اسکول پہنچتے
ساتویں گھنٹی پوری ہوتی
لوٹ کے اپنے گھر ہم آتے
بچے جب ایک کلاس میں کچھ دنوں تک پڑھتے ہیں تب ان کی دوستی بہت سے بچوں کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ بچوں کی دوستی بے لوث ہوا کرتی ہے۔پروفیسر عبدالمنان طرزی نے بچوں کی دوستی کو منظوم پیرائے میں ڈھال کر بچوں کی زبانی لکھتے ہیں:
راشد احسن دوست ہے میرا
یوم ولادت کل ہے جس کا
گھر اس کے میں کل جاؤں گا
گفٹ بھی اک اچھا سا دوں گا
تحفہ بھی جو اس کو دوں گا
میرا ہوگا سب سے اچھا
ابتدائی دور میں بچے اسکول جانا نہیں چاہتے لیکن جب اسکول جانے لگتے ہیں۔ اسکول میں اس کے بہت سے دوست بن جاتے ہیں تب اسکول بچوں کے لئے سب سے اچھی جگہ ہوجاتی ہے۔ وہ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ”میرا اسکول سب سے اچھا ہے“۔ شاعر بچوں کی زبانی کہتے ہیں:
خوشیوں کا ہی گہوارہ
بیشک ہے اسکول اپنا
اپنے گھر سے کچھ اچھا
ہم کو ہے بھی وہ لگتا
گھر سے ہے اسکول بھلا
خوشیوں کا ہی گہوارہ
چھٹی کے دنوں میں بچے تتلیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ تتلی کے مختلف رنگ اسے خوب بھاتے ہیں۔ اس کی تعریف جم کر کرتے ہیں۔ نظم پیاری تتلی کے چند اشعار سے محظوظ ہوں:
پیاری تتلی، پیاری تتلی
دن بھر ہے وہ چلتی رہتی
کام اڑانیں بھرنا اس کا
شاخ، شجر ہے مسکن جس کا
ماں کی گود بچوں کے لئے سب سے زیادہ سکون کی جگہ ہے۔ ماں کے آنچل تلے بچوں کو جو سکون ملتا ہے وہ بڑے بڑے محلوں میں بھی نہیں ملتا۔ اس لئے ایک بچہ اپنی ماں سے نہایت پیار کرتا ہے اور کہتا ہے:
فضل خدا سے پیاری ماں
رب کی عطا ہے پیاری ماں
دور کرے ہر رنج و غم
ایسی دوا ہے پیاری ماں
بچوں کے لئے پروفیسر طرزی کی دوسری کتاب ”میٹھی میٹھی نظمیں“ ہے۔اس کتاب میں ۸۴ صفحات اور کل ۳۳ نظمیں ہیں۔اس کتاب کے بیک کور پر عالمی شہرت یافتہ کثیر الجہات فنکار پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی نے پروفیسر طرزی کی شاعری سے متعلق چند اہم باتیں پیش کی ہیں۔ چند جملے ملاحظہ کریں:
”پروفیسر عبدالمنان طرزی اردو کے ایسے شاعر ہیں جن کے یہاں اپنا نگارشی کلچر اور تہذیبِ اظہار ہے۔ اپنا طرزِ سخن ہے اور اپنے اسلوب کے سانچے ہیں۔ اسی لیے امکانات کا روشن عمل دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ انہوں نے شاعری کی طویل مسافت طے کی ہے جس میں بچوں کے لیے بھی نظمیں ہیں۔ ان کی ایسی نظموں میں سچائی کی دھار ہے۔ اخلاقی اور جمالیاتی قدریں ہیں۔“
اس کتاب کی ابتدا بھی انہوں نے حمدیہ کلام سے کی ہے۔ بچے کی آواز میں شاعر لکھتے ہیں:
اچھے بھائی بہن
اچھے باپ اور ماں
اچھے استاد بھی
رہتے جو مہرباں
ہم کو تجھ سے ملا
اے ہمارے خدا
اے ہمارے خدا
چڑیا ایک خوبصورت مخلوق ہے جسے بچے بیحد پسند کرتے ہیں۔ اس کے مختلف رنگوں اور خوبصورت چہچہاہٹوں سے بچوں کا دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ بچوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے پروفیسر طرزی نے ”چڑیا“ کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کریں:
چریا رانی گھر آئی ہے
چونچ میں اپنی کچھ لائی ہے
ممی! میں اک بات بتاؤں
میرے من کو وہ بھائی ہے
آسمان میں جب گھنے بادل منڈراتے ہیں تب بچوں کا دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ وہ بارش کی تمنا کرتا ہے۔ بارش میں بھیگنا اور کھیلنا ہر بچے کو پسند ہے۔ اس لئے شاعر نے یہ نظم تخلیق کی ہے۔ چند اشعار دیکھیں:
آج ہے بادل جھوم کے برسا
بھر گیا ہر اک ندی نالا
بادل گرجے بجلی چمکی
تیز ہوا ہے طوفاں جیسی
ہر جانب تاریکی چھائی
رات اندھیری جیسے آئی
گڑیا اور گڈے کا کھیل کافی مشہور ہے۔ بچے اور بچیاں مل کر گڑیے اور گڈے سے کھیلتے ہیں۔ اس کی شادی کرواتے ہیں۔ وہ ایسا محسوس کرتے ہیں گویا ان میں جان ہو۔ اس کے لئے طرح طرح کے کپڑے بنواتے ہیں، پھر اپنے اپنے گڑیے اور گڈے کی تعریف کرتے ہیں:
گڑیا جو ہے ہماری
اب ہوگئی سیانی
کر دوں گی شادی اس کی
سسرال بھیج دوں گی
گریا ہماری پیاری
گڈا کے ساتھ ہوگی
بچے بارش سے خوش بھی ہوتے ہیں۔ بارش کے پانی سے کھیل کر محظوظ ہوتے ہیں لیکن اس کے دل میں پھسلنے اور گرنے کا خوف بھی بنا رہتا ہے۔ اسکول آنے جانے میں کتاب، کاپی بھیگنے کا ڈر اسے ستاتا ہے۔ اسے پروفیسر طرزیؔ اس انداز میں بیان کرتے ہیں:
بارش کا ہے زمانہ
مشکل ہے چلنا پھرنا
ڈرتا ہوں گر نہ جاؤں
پھسلن بھرا ہے رستہ
رہتا ہے دل میں ڈر کچھ
کپڑے کے بھیگنے کا
لال، ہرے، پیلے، نیلے پتنگ اڑانا بچوں کو کافی پسند ہے۔ وہ رنگ برنگے پتنگ خریدتے ہیں۔ اسے ہوا میں اڑاتے ہیں، ایک دوسرے سے لڑاتے ہیں۔ دوسرے کی پتنگ کٹ جانے پر وہ کافی خوش ہوتے ہیں۔ پتنگ بازی کے اس سین کو پروفیسر طرزی نے اس انداز میں پیش کیا ہے:
آؤ پتنگ اڑائیں
راشد کو ہم چھکائیں
اپنی پتنگ کو ہم
کٹنے سے ہی بچائیں
عید بچوں کے لئے خوشیوں بھرا تہوار ہے۔ اس دن کا انتظار بچے بڑی بے صبری سے کرتے ہیں۔ اس موقع پر نئے نئے کپڑے پہنتے ہیں۔ سوئیاں کھاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے گھر جاتے ہیں۔ چاند دیکھنے کے بعد سے دوسرے دن کے شام تک وہ کافی خوشی مناتے ہیں۔ بڑوں سے عیدی ملنے کی خوشی بھی ان کے دل میں رہتی ہے۔ شاعر نے اس گھڑی کے منظر کے اس طرح پیش کیا ہے:
کل عید ایسی ہوگی
ہم سب سے لیں گے عیدی
پہنیں گے اچھے کپڑے
سب سے گلے ملیں گے
لچھے، سیوئی، مٹھائی
کھائیں گے سارے ساتھی
ہندوستان میں جاڑا، گرمی اور برسات کا موسم ہوا کرتا ہے۔ سردی کے موسم کی اپنی اہمیت ہے۔ بچے اس موسم میں کیسا محسوس کرتے ہیں اس کی منظر کشی پروفیسر طرزی نے اس طرح کی ہے: سردی ہے بھی کیسی آئی
سوٹر، مفلر، ٹوپی اونی
گرمی، سورج نے بھی کھودی
دھوپ بہت ہی دیر سے آتی
جب ہے ستاتی رات میں سردی
کام رضائی ہم کو آتی
رات کے وقت آسمان میں تارے ٹمٹماتے ہیں۔ بچے اسے بہت ہی تجسس کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ کبھی اسے گننے کی تمنا کرتے ہیں تو کبھی یہ خواہش رکھتے ہیں کہ تارا ٹوٹ کر اس کے ہاتھوں میں آجائے۔ بچوں کا سادہ ذہن یہ کہاں جانتا ہے کہ چھوٹے دکھنے والا یہ تارا زمین اور سورج سے بھی بڑا ہے۔ تب ہی تو شاعر نے بچوں کے ذہن میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کی ہے:
یہ بلب چھوٹے چھوٹے
جو آسماں پہ جلتے
اللہ نے بنایا
پاپا ہیں ایسا کہتے
ان کو ہیں آسماں پر
اللہ نے سجائے
جو بچے کتابوں کو اپنا دوست بناتے ہیں وہ زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اچھی کتابیں بچوں کو کافی بلندی پر لے جاتی ہیں۔ اس لئے شاعر پروفیسر طرزی نے بچوں کو اچھی کتابیں پڑھنے کا درس منظوم پیرائے میں دیا ہے:
دولت کتاب اپنی
ہے سب سے قیمتی بھی
دنیا میں اس سے بڑھ کر
دولت نہیں ہے کوئی
اچھی کتابیں پڑھ کر
اچھا بنوں گا میں بھی
اس طرح پروفیسر عبدالمنان طرزی نے بچوں کے لئے دونوں کتابیں ”میٹھی میٹھی نظمیں“ اور ”پیاری پیاری نظمیں“لکھ کر بچوں کو ایک بہترین پیغام، درس اور نصیحت دینے کی کوشش کی ہے۔ویسے تو ان کی کئی کتابوں نے اردو زبان ادب کے لئے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، ساتھ ہی ان دونوں کتابوں کے لئے پروفیسر طرزی لمبے عرصے تک یاد کئے جائیں گے۔