تحریر: حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس
بارہمولہ کشمیر
رابطہ نمبر:6005465614
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ "اے نوجوانو کی جماعت! تم سے ہر صاحب استطاعت نکاح کرے کیونکہ نکاح کرنے کی بدولت اللہ تمہارے نفس کو پاک رکھیں گے اور تمہاری نظروں کو جھکاؤ حاصل ہوگا، جو استطاعت نہیں رکھتا اسے چاہیے کہ روزہ رکھ لے، کیونکہ روزہ گناہوں کے مقابلے میں ڈھال ہے”.(صحیح بخاری) شریعت مطہرہ نے متعدد مقامات پر شرم و حیا کا درس دیا کے۔ شرم و حیا کا موضوع لڑکیوں سے ساتھ مقید نہیں بلکہ ہر مسلم شرم و حیا کا پیکر ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نور کے اندر یہی ارشاد فرمایا کہ "جو لوگ نکاح کا مقدور نہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ ضبط نفس کریں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی کردے”.(آیت33) خواہشات نفس کی تکمیل کے لئے رب کائنات نے نکاح جیسی عظیم راہ میسر رکھی تاکہ مسلم معاشرہ بدکاری کی نحوست سے محفوظ رہ سکیں۔شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ و دیگر مفسرین نے اس آیت کی شرح میں لکھا ہے کہ حرام کاموں سے بچنے، ایسے راستوں کو اختیار کرنے جو حرام کاموں کے قریب لے جائیں، ان سے بچنے کا حکم رب کائنات نے فرمایا ہے نیز ایسے اوصاف خود میں پیدا کرنے کا حکم رب تعالیٰ نے دیا ہے جن سے انسان کی پاکدامنی محفوظ رہ سکے۔اوصاف مذمومہ سے تحذیر اور اوصاف ممدوحہ کے قریب جانا بندہ مومن کا طریقہ کار ہے۔ سورہ نور کے اندر ہی رب تعالیٰ نے مرد و زن کو غض بصر کا حکم دے کر بدکاری کے راستوں پر تالا لگا دیا۔ کیونکہ بدکاری کی ابتداء بدنگاہی سے ہی ہوتی ہے۔عفت و عصمت کی حفاظت کرنے والوں کی تعریف رب تعالیٰ نے مختلف مقامات پر بیان کی ہے۔ فرمان ربانی ہے کہ "کامیاب ہوگئے وہ ایمان لانے والے جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں”.(سورہ مومنوں) مذکورہ بحث سے ثابت ہوا کہ مسلم معاشرے کو پاک بنانے کی خاطر رب نے نکاح کا راستہ فراہم کیا ہے اور اسے چھوڑ کر دیگر راہوں پر چلے جانا قوم و ملت کے خسارے کی وجہ ہے۔
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
خواہشات نفس کے خلاف جہاد کرنے والا رب تعالیٰ کی عظیم برکتوں کا وارث بن جاتا ہے۔ فرمان ربانی ہے کہ "اور جو بندہ اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا تھا اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکتا رہا تو یقیناً جنت اس کا ٹھکانہ ہوگی”.(النازعات) بڑے بڑے عابد اور زاہد بھی اس جنگ میں شکست کھا جاتے ہیں جس جنگ میں مقابلہ اپنے نفس سے ہو۔ عصر حاضر میں نفس کو قابو میں رکھنا مشکل تو ہے لیکن عظمت والا عمل بھی۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ "جو بندہ مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دیتا ہے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں”.(صحیح بخاری) ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "آدمی پر دنیا میں سب سے بڑی آزمائش اس کی زبان اور شرمگاہ ہے ".فرمان نبوی ﷺ ہے کہ "جب عورت پانچ وقت کی نماز ادا کرتی ہے، رمضان کے روزے رکھتی ہے، اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کرتی ہے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہے تب وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوسکتی ہے ".(مسند احمد، صحیح ابن حبان) جب عزیز مصر کی بیوی نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو برائی کی طرف دعوت دی، یہاں تک کہ دروازے بند کئے، تب یوسف علیہ السلام نے عظمت کردار دکھا کر اسے جواب دیا کہ، "تمہارا شوہر میرا آقا ہے۔۔۔۔۔ اگر میں یہ کام کروں تو میرا شمار بھی ایسے ظالموں میں ہوگا جو کبھی فلاح نہیں پائیں گے”.(مفہوما) یوسف نے قید و بند کہ مشکلات برداشت کی لیکن اپنے کردار کا سودا نہ کیا۔ عصر حاضر میں ہمارے کردار بازاروں میں بکتے ہوئے نظر آرہے ہیں، کبھی اسکولوں اور کالجوں میں تو کبھی tuition centres میں، کبھی ہوٹلوں اور پارکوں میں تو کبھی صحت افزا مقامات پر۔ ہر طرف عصمت فروشی کے دکان چل رہے ہیں۔ ناجائز تعلقات کی لعنت ہمارے معاشرے میں پنپ رہی ہے۔ موبائل فون، انٹرنیٹ کا غلط استعمال بڑی تیز رفتاری سے ہورہا ہے اور نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ صبح کا غازی شام کا شرابی بن کے آتا ہے، صبح کی ہور شام کی طوائف بن کے آتی ہے۔ لیکن والدین خواب خرگوش میں عیش و عشرت کی نیند سوئے ہوئے ہیں۔ مذکورہ دلائل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کردار کی حفاظت آپ کو جنت کا وارث بنا دے گی اور کردار کا سودا آپکو درندہ بناکر چھوڑے گا۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ روضتہ المحبین کے اندر رقمطراز ہیں کہ، "سیدنا یوسف علیہ السلام ایسے امتحان میں تھے کہ برائی پر آمادہ کرنے والے تمام اسباب موجود تھے۔ دونوں جوان تھے، دونوں خلوت میں تھے، یوسف اپنے گھر سے دور تھے، مالک ہی غلام کے سامنے پیش کش کر رہا تھا، یوسف تو خوبصورت تھے ہی، عورت بھی عمدہ حسب و نسب والی اور خوبصورت تھی، عورت خود یوسف کو بہکانے کی کوشش کررہی تھی، دروازے بھی بند تھے۔ ایسی صورتحال میں بھی یوسف نے اپنی عفت کو داغدار نہ ہونے دیا۔ "قوم لوط پر جو عبرت ناک عذاب مسلط ہوا اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ پاک دامن نہ تھے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ،”میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم اپنے پیٹوں میں حرام داخل کرنے لگو، شرمگاہوں کا غلط استعمال کرنے لگو اور گمراہی کے کاموں کا ارتکاب کرنے لگو”.(مسند احمد)اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ، "میں نے جہنم میں داخل ہونے کے بنیادی اسباب کو دیکھا تو وہ گناہ تھے پھر جب میں نے گناہوں کے اسباب کو دیکھا تو ان کا سبب انسانی خواہشات تھیں”.بدکاری گناہوں کی زندگی کی ایک لذت ہے جس کی وجہ سے بندے کا ایمان کمزور ہوجاتا ہے، مردانگی اور عقلمندی زائل ہوجاتی ہے۔ ذلت و رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے، چہرے کی چمک دل کا نور، جسم کی قوت، رزق کی برکت، مخلوق کی نفرت اس کے حصے میں آجاتی ہیں۔ بدکار عورت اور بدکار مرد دونوں گندے اور خبیث ہوتے ہیں اور انکی زندگی میں کبھی کوئی پاک دامن نہیں آتا الا اگر توبہ کرلیں۔ شریعت مطہرہ نے اس جرم کو اتنا سنگین جانا کہ شادی شدہ بدکار مرد و عورت پر رجم کا حکم صادر کیا اور غیرشادی شدہ بدکار مردوزن پر سو کوڑے اور وطن بدری کی حد نافذ کی۔ عصر حاضر میں بدکاری کی ابتداء بدنگاہی سے ہوتی ہے، پھر محبت کے نام پر ناجائز رشتہ جنم لیتا ہے جس کا اختتام بدکاری پر ہوتا ہے۔ بعض بے غیرت تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو رب کے کلام کو جھٹلانے کے لئے اس غلیظ اور ناپاک رشتے کو "پاک محبت” کا نام دیتے ہیں۔والدین کی پوری عمر بیٹی کے تن پر لباس میسر رکھنے میں صرف ہوتی ہے اور یہی بیٹی شیطانی دھوکا کھا کر کسی غیر کے لئے ایک منٹ میں اپنے تن سے باپ کی عزت اتار کر درندگی کی شکار ہوجاتی ہے۔غیر نصبی لڑکا لڑکی آپس میں بھائی بہن نہیں بن سکتے، اپنی بری نیت کو عملاً پورا کرنے کے لئے بعض وحشی درندے بھائی بن کر کسی معصوم کلی کے معصوم جذباتوں کو کچل کر یہ کام انجام دیتے ہیں۔مذکورہ نقاط سے واضح ہوگیا کہ بیٹی بہن کا محافظ فقط اس کا باپ اور بھائی ہی ہوسکتا ہے، کوئی اور نہیں۔
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
اب کہاں سے آئے صدا لا الہ الااللہ
جو لوگ حرام راہوں پہ چل کر لذت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، رب کائنات انہیں حلال اور پاکیزہ لذت سے محروم رکھتے ہیں۔ کسی لڑکی کے ہاتھ میں گلاب دینا، کسی لڑکی کے ساتھ ہوٹل میں جاکر گپ شپ کرنا، کسی غیر محرم لڑکی کے ساتھ موبائل فون پر بات چیت یا chat کرنا، یہ سارے کام بدکاری کے زمرے میں آتے ہیں۔جدیدیت اور مغربیت کے نام پر یہ گناہ مختلف صورتوں میں موجود ہے۔ بدکار مردوزن کی شادی شدہ زندگی ناکام ہوجاتی ہے۔ اس برے فعل کا اثر انسانی جسم پر بھی پڑتا ہے۔ مختلف امراض جنم لیتے ہیں۔ تعلیمی اداروں، ہوسٹلوں (Hostels) ، میں یہ فتنہ سب سے زیادہ پھیل رہا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جب تک انسان شرعی تعلیم سے منور نہ ہو تب تک وہ مسلمان تو کیا انسان بھی نہیں بن سکتا۔ شرم و حیا کا درس نہ تو اسکولوں میں ملے گا اور نہ ہی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں، بلکہ یہ نورانی پیغام آپ کو فقط محلہ کے درسگاہ میں ہی ملے گا لیکن وہاں اپنے بچوں کو پڑھنے کے لئے بھیجنا ہم حقارت سمجھتے ہیں۔ (نعوذ باللہ) بدفعلی کے ساتھ ساتھ لواطت بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہے۔ black websites کے استعمال سے ایک انسان کمرے میں رہ کر ہی، اپنی چار دیواری کے اندر ہی بدکار اور قوم لوط کا مطیع بن جاتا ہے۔جس کام سے ہماری اسلاف بھی واقف نہ تھے اس کام کی مکمل جانکاری آج آپ کو چھوٹے بچے سے ہی مل سکتی ہے۔حرام کمائی انہیں راہوں میں خرچ ہوتی ہے۔جب انسان کا اوڑھنا اور بچھونا حرام پر مبنی ہو تو ثمرات کیسے طیب اور پاک حاصل کئے جاسکتے ہیں۔black websites نے نہ صرف نوجوان ملت کو تباہ کیا بلکہ شادی شدہ افراد بھی ایسے شرمسار افعال میں مبتلا ہوگئے جن کا تذکرہ کرنا بھی اہل شعور گوارا نہیں کرتے۔ہمارے گھر جل رہے ہیں، ہماری عزتوں کا جنازہ صبح وشام ہماری آنکھوں کے سامنے نکل رہا ہے لیکن ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔طلاب العلم کا مستقبل، ذہانت، وقت، صحت سب کچھ ان چیزوں کی وجہ سے زوال پزیر ہوجاتی ہے۔
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
کرٹ کوبین نے لکھا ہے کہ
"Rape is one of the most terrible crimes on earth and it happens every few minutes. The problem with groups who deal with rape is that they try to educate women about how to defend themselves. What really needs to be done is teaching men not to rape. Go to the source and start there.”
امت مسلمہ جدید دور میں فتنہ نسواں کا سامنا کر رہی ہے یعنی "میرا جسم میری مرضی” کا نعرہ لگا کر دختران اسلام بھی اب جانوروں کی زندگی گزارنے پر مطمئن ہیں۔دین اسلام نے خواتین کو وہ مقام و مرتبہ عطا کیا جو لاثانی ہے۔ملت کی بیٹی کو پیغمبر رحمت ﷺ نے جو قدر و منزلت عطا کی وہ بے مثال ہے لیکن دس منٹ کی مٹھاس کے آگے ملت کی بیٹی کو یہ سب کچھ حقیر لگتا ہے کیونکہ اس کا دماغ پہلے ہی اغیار نے اپنے قبضہ میں کر رکھا ہے۔اللہ کی مہلت بھی ایک وقت تک رہتی ہے، جب کشتی پانی سے بھر جاتی ہے پھر بچنے کا کوئی راستہ میسر نہیں ہوتا۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ”تین بندے ایسے ہیں جن سے روز قیامت اللہ عزوجل کلام نہیں فرمائیں گے اور انہیں پاک و صاف بھی نہیں کرینگے ، نہ ہی انکی طرف نظر رحمت سے دیکھیں گے ، وہ تین بندے بدکار بوڑھا، جھوٹا بادشاہ اور تکبر کرنے والا فقیر ہیں۔ "(صحیح مسلم، کتاب الایمان) معلوم ہوا کہ اگر ایک بار انسان اس راہ پر چل پڑے تو موت کے نزول تک یہ خود کو اس راستے سے نہیں ہٹا پاتا۔ جو لوگ اپنی خواہشات کی لگام کو آزادانہ چھوڑ دیتے ہیں ان کو رب کائنات نے کتے سے مشابہت دی ہے۔ (سورہ اعراف آیت 176) فرمان نبوی ﷺ ہے کہ ”
جب شرم ہی نہ رہے تو پھر جو چاہے وہ کرو”.(الصحیحہ) حیا ایسے اخلاق کا نام کے جو قبیح اور برے کاموں کو چھوڑنے پر آمادہ کرتا ہے اور اللہ کے حق میں کوتاہی سے بچاتا اور منع کرتا ہے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ "جب میری امت میں گناہوں کی کثرت ہوجاۓ گی تو کھلم کھلا گناہوں کا ارتکاب کرنے لگیں گے تب اللہ تعالیٰ ان پر مختلف قسم کے عذابوں کی بارش کردے گا”.(الصحیحہ) نیز فرمایا کہ "جب کسی قوم میں علانیہ فحاشی پھیل جاتی ہے تو ان میں طاعون آتا ہے اور ایسی بیماریوں کا نزول ہوتا ہے جن سے اسلاف بے خبر تھے”.(الصحیحہ) معلوم یہ ہوا کہ امت مسلمہ کی ذلت و رسوائی کے پیچھے بڑی وجہ عظمت کردار کا فقدان ہے۔ حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "دانا مومن پر حق و باطل کا معاملہ ڈھکا چھپا نہیں رہتا، مومن بندہ اللہ عزوجل کی طرف سے عطا کئے گئے نور کے ساتھ حق کو پہچان لیتا ہے اور اس کا دل اسے قبول کرتا ہے اور وہ باطل سے نفرت کرتا ہے ، اس کو برا سمجھتا ہے اور اس سے دور بھاگتا ہے۔ ” (جامع العلوم والحکم) شیخ وحید عبدالسلام بالی حفظہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "شیطان ہر اس بندے کو اپنے کنٹرول میں لے لیتا ہے جس کا دل ذکر الہی، پرہیزگاری، خلوص نیت اور یقین سے خالی ہو”.فرمان ربانی ہے کہ "یقیناً جو لوگ ڈرتے ہیں جب انہیں شیطان کی طرف سے کوئی برا خیال چھو جاۓ تو یوشیار ہوجاتے ہیں پھر اچانک وہ بصیرت والے ہوجاتے ہیں”.(سورہ اعراف) معلوم یہ ہوا کہ رب سے دوری شیطان کی قربت کی اصل وجہ کے اور رب سے قربت شیطان سے دور لے جا سکتی ہے۔
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
میزان کے دوسرے پلڑے پر نظر ڈالی جائے تو بے حیائی و عریانی کو پھیلانے میں سب سے بڑا رول والدین ادا کر رہے ہیں۔ مناسب وقت پر اپنے بچے کا نکاح نہ کرنا، والدین کی حماقت ہے۔ والدین کا مرتبہ اسی لئے رب تعالیٰ نے بلند کیا ہے تاکہ وہ سمجھیں کہ ان کے اولاد کو کس وقت پر کیا چیز درکار ہے۔ بلوغت کو پہنچتے ہی اولاد پر ایسے مراحل آجاتے ہیں جن سے بچاؤ صرف نکاح کرکے ہی ممکن ہے۔ لیکن والدین نے نکاح کو کافی دشوار بنا دیا ہے۔ جہیز کی قباحت، مہر میں استحصال، حسب و نسب کی شرط وغیرہ ایسے شروط قائم کئے گئے ہیں جن کی وجہ سے عصمت فروشی کو فروغ مل رہا ہے۔ بیٹا بیٹی تمہیں منہ سے تو نہیں کہیں گے کہ ہمارا نکاح کروادو لیکن تمہاری ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کے حرکات و سکنات سے آگاہ رہو۔اگر اولاد دیندار بھی ہو، نمازی بھی ہو، اسے بھی اس مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے، اگر وہ اس وقت گناہ کر بیٹھے تو تمہاری عبادات تمہیں کسی کام آنے والی نہیں کیونکہ دیوث پر جنت حرام ہے۔ذہنی امراض کے پیچھے بھی بڑی وجہ نکاح میں تاخیر ہے۔ دوسری بات والدین اپنے بچوں پر نگرانی نہیں رکھتے۔ معصوم بچے کے ہاتھ میں سمارٹ فون (smart phone) تھما کر خود حاجی بن بیٹھے ہو۔ یہ بھی تو سوچ کہ اس زہریلے ہتھیار پر جب فحش اور عریان تصاویر ظاہر ہونگی تو یہ معصوم بچہ اپنے جذبات کو کیسے قابو میں رکھے گا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سمارٹ فون تو اب لازمی ہے کیونکہ online classes جو دینے ہیں، اس بات کو تسلیم بھی کرلیا جاۓ تو والدین اپنے فرائض سے خود کو آزاد نہیں کرسکتے۔اولاد کی نگرانی میں کوتاہی کسی بھی صورت میں شریعت نے قبول نہیں کی ہے کیونکہ یہی بچے آگے چل کر قوم و ملت کا مستقبل بننے والے ہوتے ہیں۔والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی اپنے فرائض سے غافل ہیں۔ استاد کی ذمہ داری فقط پڑھانا نہیں ہوتا بلکہ تعمیر کردار کی اصل ذمہ داری استاد کو ہی ادا کرنی ہے۔ ہم ایسے معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں دیندار طبقے کو "backward” اور "narrow minded” جیسے القابات اور خطابات دئیے جاتے ہیں لیکن جب Liberalism سے متاثر بچہ اپنے والدین کی بے حرمتی کرتا ہے اس وقت والدین کو یاد آتا ہے حکم ربانی۔
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں ایک روایت نقل کی ہے کہ، "اللہ تعالیٰ ایسے نوجوان کو قیامت کے دن اپنے ساۓ میں جگہ دے گا جس نے اپنی جوانی رب تعالیٰ کی عبادت میں صرف کی ہوگی”.رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ، "نوجوانی کو بڑھاپے سے پہلے غنیمت جان لو”.(مستدرک حاکم) جامع ترمذی کی روایت میں ہے کہ "اللہ عزوجل بندے سے جوانی کے متعلق ضرور سوال کرے گا کہ کن کاموں میں فنا کی”.(الصحیحہ) نوجوان مے خانوں کی نہیں بلکہ منبروں کی زینت ہیں۔ نوجوان فحش گو نہیں بلکہ غازی و زاھد ہوتے ہیں۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
ان روایات کی روشنی میں نوجوان ملت پر لازم ہے کہ وہ عریانی کے اس دلدل سے نکل کر علم و عرفان کی دنیا میں قدم رکھیں۔ علمی فکری اور نظری جہاد کرے،تجدید واحیاء دین کا خواب تبھی شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔آج ہر طرف بے دینی والحاد پرستی کا دور دورہ ہے۔لیکن آہ! کوئی ایسا نوجوان نہیں جو اسوہ نبی وصدیقی کو اپنا کر اس طوفان کے خلاف اٹھ کھڑا ہو۔ نوجوانان عصر کی یہ سب سے بڑی اجتماعی ذمہ داری ہے۔موجودہ دور کے مسلم نوجوان کے پاس سب کچھ ہے، نہیں ہے تو صحیح اسلام نہیں ہے، صحیح ایمان نہیں ہے اور اسے اپنے لٹنے پٹنے کا کوئی افسوس بھی نہیںنہیں۔ بلکہ وہ ”کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا“ کا مصداق ہے۔ لیکن جان لو! نوجوان نسل ملک وملت کے مستقبل کا ایک بیش قیمت سرمایہ ہے، جس پر ملک وملت کی ترقی وتنزل موقوف ہے، یہی اپنی قوم اور اپنے دین وملت کے لیے ناقابلِ فراموش کارنامے انجام دے سکتے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ نوجوان کی تباہی، قوم کی تباہی ہے، اگر نوجوان بے راہ روی کا شکار ہوجائے تو قوم سے راہِ راست پر رہنے کی توقع بے سود ہے، جوانی کی عبادت کو پیغمبروں کا شیوہ بتایا گیا ہے۔اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں شرم و حیا سے آراستہ کرکے دین و دنیا کی آبادی عطا کرے۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔
"The world is a dangerous place. Not because of the people who are evil; but because of the people who don’t do anything about it.”
اگر ہم اپنی روش بدل کر رہ ہدایت پہ ہوں روانہ خدائی نصرت بھی ساتھ ہوگی مٹے گا یہ دور جابرانہ.