فہم و ادراکََِ
عمران بن رشید
سیرجاگیر سوپور‘کشمیر
فون:8825090545
وضو کے لغوی معنی چمکنے کے ہے۔اصطلاحِ شریعت میں ایک مخصوص طریقہ پر پاکی حاصل کرنے کو وُضو کہا جاتا ہے۔اللہ تعلی کا ارشاد ہے:۔
یِاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنَوْاِذَاقُمْتُمْ اِلَی الصَّلَاۃِفَافْسِلُوْاوُجُوْھَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی المَرَفِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُ سِکُمْ وَاُرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ
”اے ایمان والو!جب تم نماز کے کئے اُٹھو تو اپنے چہروں کواور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھولو‘ اپنے سروں کا مسح کرلو اور
اپنے پاؤں کو ٹخنوں تک دھولو“ (سورۃالمائدہ۔06)
اِس آیت میں وضو سے متعلق خالص فرائض کا ذکر ہواہے۔جن کی ترتیب اس طرح سے ہے:۔
(1)۔کان کی ایک لوسے دوسری لو تک چہرا دھونا
(2)۔دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھولینا
(3)۔پورے سر کا مسح کرنا
(4)۔ٹخنوں تک دونوں پاؤں دھولینا
وَاُرْجُلََکُمْ کی تشریح:۔ لام (ل)پر زَبر کے ساتھ ”وَاُرْجُلَکُم“ میں پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھونے کا حکم ہوا ہے۔لیکن ہمارے یہاں اہلِ تشیع کا ایک طبقہ لام(ل)کے نیچے زیر کے ساتھ اِس لفظ کو یوں پڑھتے ہیں ”وَاَرْجُلِکُمْ“ جوپاؤں پر خالص مسح کرنے کا مطلب دیتا ہے۔ اور یہ لوگ ہر صورت میں پاؤں پر مسح ہی کرتے ہیں اِن کے یہاں مسح کے لئے جرابوں کی کوئی قید نہیں۔
وُضو کی فضیلت:۔وضوکی فضیلت سے متعلق صحیح بخاری کی وہ حدیث قدرے مشہور ہے جسے نعیم المجمرنے حضرت ابو ہریرہؓ کے واسطے سے روایت کیا ہے۔نعیم المجمر کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا کہ رسول اللہ ؐ کہا کرتے تھے کہ میری امت کے لوگ قیامت کے روز سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں والوں کی شکل میں بلائے جائیں گے‘ یہ سفیدی وضو کی ہوگی اور تم میں سے جو اپنی چمک بڑھانا چاہتا ہے بڑھالے(حدیث نمبر۔136)۔جسم کے جو اعضاء وضو میں دھوئے جاتے ہیں وہ اعضاء قیامت کے دن چمکتے ہونگے۔نماز قائم کرنے کے لئے اگرچہ وضو لازم ہے تاہم انسان کو کوشش کرنی چاہیئے کہ ہر وقت وضو میں رہے۔
وُضوکیسے کیا جائے:۔ دل میں وضو کی نیت رکھی جائے اور بِسْم اللہ پڑھ کر پہلے دونوں ہاتھوں کو ایک سے لے کر تین مرتبہ دھوکرداہنے ہاتھ سے پانی کا ایک چُلُو لے کر آدھا پانی مُنہ میں اور آدھا ناک میں ڈالا جائے(اس سے مُنہ اور ناک کی طہارت ہوگی)۔اس کے بعد دونوں ہاتھوں کو ملاکر اِن میں پانی اُٹھایا جائے اور کان کی ایک لو سے دوسری لو تک‘پیشانی کے اوپر جہاں سے بالوں کی ابتداء ہوتی ہے وہاں سے لیکر ٹھوڑی تک پورا چہرا دھویا جائے۔پھرپانی کے ایک چلو سے داڑھی کا خلال کیا جائے۔پھر دونوں بازؤں کو کہنیوں تک دھولو‘ اِس کے بعد پورے سر کا مسح کیا جائے(سر کومسح کرنے میں کانوں کا مسح بھی شامل ہے)۔ آخر پر پاؤں دھوئے جائے‘ پہلے داہنا پاؤں اور پھر بایاں پاؤں انگلیوں کا خلال بھی کریں۔ وضو کے مکمل ہونے پر کلمۂ شہادت پڑھیں۔ساتھ ہی یہ دعا بھی پڑھیں:۔
اَللَّھُمَّ اجْعَلْنِی مِنَ التَّوَّا بِینَ وَاجْعَلْنِی مِنَ الْمُتَطَھِّرِینِ
”اے اللہ مجھے توبہ کرنے والوں میں سے بنا اور پاک باز وں میں شامل کر“
حصن المسلم
وُضُوکے احکام ومسائل:۔
(1)۔ وُضو سے قبل دل میں وضو کی نیت کی جائے……….(فتح الباری۔14/1)
(2)۔بِسْمِ اللہ پڑھے بغیر وضو نہیں ہوتا……..(صحیح ابو داؤد۔92)
(3)۔ابتداء میں بِسْمِ اللہ پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آئے اس وقت پڑھیں………(صحیح الجامع الصغیر۔3010)
(4)بلا ضرورت وضو میں صابُن استعمال نہ کیا جائے………(فتاویٰ اسلامیہ۔223/1)
(5)۔وضو کے بغیر نماز درست نہیں…….(بخاری۔135)
(6)۔پاخانے کی جگہ سے ہوّا یا آواز خارج ہو تو وضو نیا کیا جائے……(بخاری۔135)
(7)۔محض شک کی بنا پر وضو نہیں ٹوٹتا…….(بخاری۔137)
(8)۔ جس پانی کا رنگ یا بُویا ذائقہ بدل جائے اُس پانی سے وضو نہیں ہوتا…….(سعودی مجلسِ افتاء)
(9)۔استنجاء کے وقت شرم گاہ کو بائیں ہاتھ سے صاف کرے…….(بخاری۔153)
(10)۔ہڈی اور گوبر سے استنجاء نہیں ہوتا…….(بخاری۔155)
(11)۔مٹی کے ڈھیلوں سے استنجاء ہوتا ہے۔البتہ طاق عدد میں استعمال کئے جائیں۔(بخاری۔161)
(12)۔وضو میں اعضاء کو ایک ایک بار دھونا درست ہے…….(بخاری۔157)
(13)وضو میں اعضاء کو دودو اور تین تین بار دھونا بھی درست ہے……..(بخاری۔158اور159)
(15)۔ایڈیاں خشک رہنے پر عذاب کی وعید ہے……(بخاری۔163)
(16)۔ پیشاب کی چھینٹوں سے بچاجائے ورنہ سخت عذاب کی وعید ہے……..(مسلم۔292)
(17)۔ٹشو پیپرtissue paper))‘کپڑا یا اوراق جیسی اشیاء سے استنجا جائز ہے……(سعودی مجلسِ افتاء)
(18)۔اگر کُتا برتن میں مُنہ ڈالے اسے سات مرتبہ دھولوپاک ہوجائے گا…..(بخاری۔172)
(19)۔نید لگنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے….(صحیح ابن ماجہ۔486)
(20)۔اپنی یادوسروں کی شرم گاہ کو بنا کپڑوں کے چھونے سے وضو ٹوٹ جاتاہے…..(تحفۃُ الاحوذی۔282/1)
(21)۔یہ حکم عورت کے لئے یکساں ہے…..( بہیقی۔132/1)
(22)۔البتہ شرم گاہ کو محض دیکھنے سے وضو نہیں ٹوٹتا……(سعودی مجلسِ افتاء)
(23)۔خون کے آنے سے وضو نہیں ٹوٹتا‘کم آئے یا زیادہ…..(صحیح ابو داؤد۔193)
(24)۔البتہ شرم گاہ سے خون آنے پر وضو ٹوٹ جاتاہے…….(سعودی مجلسِ افتاء)
(25)۔حالتِ جنابت میں محض وضو کرکے غذا کھانا جائز ہے…… (مسلم۔305)
(26)۔ جنابت کی حالت میں وضوکرکے سونا درست ہے……(بخاری۔287)
(27)۔وضوکی حالت میں دودھ پینے پر کلی ضرور کرے‘کہ اس میں چکنائی ہوتی ہے…..(بخاری۔211)
جسم کی پاکی کو چونکہ دینِ اسلام میں اونچا مقام حاصل ہے اس لئے وضو کی اہمیت بھی بڑھ جاتی ہے۔میں نے وضو سے متعلق جن مسائل کو زیرِ بحث لایا ہے یہ بہت تھوڑے ہیں‘ان پر ہی قناعت نہ کی جائے۔