ازقلم: محمد عامر راہ
پتہ: گُنڈی نوروز بجبہاڈہ
متعلم: شعبہ اُردو کشمیر یونیورسٹی
موبایل نمبر: 9622744854
شورش سے ایسا سماں بننے لگا ہے
انسان،انسان سے ہی ڈرنے لگا ہے ۔
میں نے یہ بات بچپن سے اُستادوں سے سُنی ہے کہ جنگلی جانور جو بہت زیادہ نقصان دہ اور بے رحم ہوتا ہے اُسے ٰوحشی درندہ ٰ کہتے ہے۔کیا یہ نام خالی جانوروں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے ؟ نہیں بالکل نہیں یہ خصلت تو انسانوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔وہ انسان جو ہمیشہ دوسرے انسان کو تکلیف دے گا وہ بھی وحشی درندے سے کم نہیں ہے ۔حاکم اپنی سلطنت پر فخر کر کے عوام کو بے رحمی کے ساتھ تکلیف دیتا ہے تو وہ بھی اِس زُمرے میں آئے گا۔
پڑوسی ، پڑوسی کو یا سسرال والے بُہو کو تنگ کرے گے تو وہ بھی اس زُمرے میں آتے ہیں۔ اگر ہم نظر دوڈائیں گے ہمارے معاشرے میں جنگلوں کے بجائے گھروں میں وحشی درندے رہتے ہیں۔
الله تعالیٰ نے انسان کو اشرفُ المخلوقات بنایا تھا۔ مگر آجکل کا انسان بہت ہی بے رحم اور سنگ دل بن گیا ہے۔کچھ دن پہلے ہندوستان کی ریاست آحمد آباد میں جو واقعہ پیش آیا اُس نے سماج کے ہر ایک ذی حس انسان کو جنجوڈ دیا ہے۔عائیشہ نامی لڑکی جو عارف نامی لڑکے کی بیوی تھی ۔اُس نے بہت وقت سے ظلم و تشّدُد سہنے کے بعد آخرکار خودکشی کرلی ۔سُسرال والوں سے سب کچھ سہنے کے بعد کسی کو الزام نہ دیا ۔ خودکشی کرنے کے وقت جو الفاظ اُس کے مُنہ سے نکلیں (کہ خدا سے دُعا ہے کہ وہ مجھے انسانوں کی شکل دوبارہ نہ دِکھائے )۔
معاشرے میں رہنے والے ہر ایک فرد کے لئے سوال ہے۔ معاشرے کا ہر وہ فرد جو رسم و روآج پھیلانے میں مگن ہے ۔ اُس کو قیامت کے دن وہ سامنے کھڑا ہونگے جن کو اُس نے دُنیا میں دیکھا نہیں ہوگا۔کہنے کا مطلب ہے ہر غریب گھرانے سے تعلُق رکھنے والی وہ لڑکی جو اِن رسم و روآج کی وجہ سے اپنی زندگی کا خاتمہ شادی سے پہلی ہی کرتی ہے۔
سماج میں آجکل جہیز کی یہ لت بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔اسے رُوکنا ہر سنجیدہ انسان کی زمہ داری ہے۔جوان لڑکوں کو باغیرت بننا چاہئے۔ اپنے گھروالوں کو اس سماجی بیماری کے سخت انجام سے واقف کرنا چاہیے ۔انہیں باخبر کرنا چاہیے کہ یہ آخرت کو تباہ کرنے والی رسم(جہیز) ہے۔
جو شخص اپنے سُسرال والوں سے بہت زر و زیور ،الیکٹرانک سامان اور گاڑی وغیرہ جہیز کے نام پہ لیتا ہے اور پھر اپنے آپ کو سماج کے امیر الزمان لوگوں میں شریک کرتا ہے ۔ اُس جیسا بے غیرت دنیا میں کوئی نہیں ہے۔
اصل مرد کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کی کمائی سے نہیں بلکہ بیوی کو اپنی کمائی سے کھلاتا ہے اور خوش رکھتا ہے۔
لہزا اِس آلودگی سے اپنے گِردونواح کو بچانا ہم سب کی زمہ داری ہیں۔ خطیبوں ، اُستادوں ، سماجی کارکُنوں اور نوجوانوں کو یکجا کھڑا ہوکر اس کے خلاف جنگ لڑنی چاہیں۔ تاکہ آگے سماج میں کبھی بھی ایسا واقعہ دیکھنے کو نہ ملے جو پھر سے عائشہ کی یاد تازہ کرے۔