از قلم: منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر
رابط:6006952656
اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کرکے اسے ایک دوسرے کا ہمدرد بنایا. اس ہمدردی کے حوالے سے لوگوں میں کئی انسانوں کو ایک مقام عطا کرکے انہیں لوگوں کا حامی کہا. ان حامیوں میں ڈاکٹر یا حکیم حضرات بھی ایک عظیم نام ہیں. یہ نام سنتے ہی ہمدردی اور شفایابی کا احساس اندر سے جنم لیتا ہے. بدقسمتی سے وادی کشمیر میں جہاں ہر شعبے میں الٹی گنگا بہتی ہے وہی پر محکمہ صحت بھی ناتوانی کے دن کاٹ رہا ہے. اگرچہ اس شعبے میں کئی افراد جو کہ بحثیت ڈاکٹر کام نبھاتے ہیں یا جن کا تعلق نیم طبی عملے سے ہیں وہ فرشتہ صفت کہلاتے ہیں لیکن چند کمزور مزاجوں نے اس شعبے کی تصویر اس قدر بگاڈ کے رکھ دی ہے کہ اب ہر ایک آسمانی فضل کا منتظر رہتا ہے اور ان شفاخانوں سے بھروسہ اٹھ گیا ہے. اب نجی اسپتالوں کا کاروبار اسقدر اپنے شباب پر ہے کہ ان کے چلانے والی انتظامیہ کو انسانی درد یا پریشانی کا ذرا بھی احساس نہیں.
دو دو ہاتھوں سے لوٹنے کی عمل جاری ہے اور غریبوں لاچاروں کا پرواہ کیے بغیر یہ لوگ انسانوں کی تباہی کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے. اب وادی کی میڈیکل ایسوسیشن نے انکشاف کیا کہ پرائیوٹ اسپتال میں کام کررہے ڈاکٹر حاملہ خواتین کا آپریشن وقت سے پہلے کرتے ہیں جو دونوں زچہ بچہ کےلیےخطرناک ثابت ہوسکتا ہیں. ڈاکٹر نثارالحسن کے مطابق وادی کے پرائیویٹ اسپتالوں میں پیسوں کے لیے حاملہ خواتین کو سرجری کے ذریعے ڈیلوری دینے پر مجبور کرتے ہیں.
یہ ایک شرم ناک بات ہے کیونکہ قوم کے ان باشعور انسانوں کے ساتھ ایسی امیدنہیں تھی. اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو شعبہ صحت کے حوالے سے ایسے بے شمار مسائل ہمارے سامنے درپیش ہیں. کئی ڈاکٹر دوا فروشوں کے ساتھ رابطے میں رہ کر ان کا نقلی دوا غریبوں اور بے سہاروں تک پہنچانے میں معاون ثابت ہوئے. کیا اتنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی ایک انسان انسانیت کی حقیقی خدمت کرنے کے سبق سے محروم ہے یہ بدقسمتی کی بات ہے. لیکن اس برائی کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام ڈاکٹر حضرات میڈیکل کی تعلیم حاصل کرتے کرتے اخلاقی اور انسانی سبق بھی حاصل کرتے رہے تاکہ یہ قوم کی خدمت کرنے کا صیح فہم خود میں بیدار کریں. کیا چند پیسوں اور عارضی زندگی کے لیے آپ لوگ ہماری ماووں بہنوں کی زندگی کو ایک تماشا سمجھ کر ایک غیر ذمہ دارانہ حرکت کرتے رہتےہیں. اس برائی میں ہم عام انسانوں کا بھی کردار ہیں کیونکہ ہم لوگوں نے پرائیوٹ اسپتالوں میں جانا ایک رواج بنا رکھا ہے. ان اسپتالوں میں جانا اب لوگوں کی اکثریت نے اب فرض سمجھا ہے.
یہی وجہ ہے کہ یہ فضول کاروبار اور ان مردہ ضمیر ڈاکٹروں کی کام فروغ پارہی ہے. یہ عمل اب اس قدر مضبوط نظر آرہی ہے کہ اب کوئی بھی اسپتال کھول کر چند لمحوں میں سرکاری رجسٹریشن حاصل کرتا ہے. سماج کے باشعور انسانوں کو اس حوالے سے سنجیدہ ہونا چاہیے اور گورنمنٹ اسپتالوں میں موجود ڈاکٹر حضراتوں کو قابل اعتماد بنانا چاہیے اس سے اس شعبے میں موجود مسائل کم ہوجائیں گے.سرکار کو بھی اس معملے میں سنجیدہ ہونا چاہیے اور ان کی کام کو محاسبہ ہونا چاہیے کہ ان سے کتنی ڈیلوریاں نارمل اور کتنی سرجری سے ہوتی ہیں ورنہ یہ اس سماج میں بے خوف و خطر تماشہ سمجھ کر انسانوں سے کھیلیں گے.
اس معملے میں کسی بھی کوتاہی سے اتفاق نہ کرتے ہوئے ان کے خلاف کاروائی کی جائے اس سے یہ پریشانی کم ہوجائے گی. لوگوں خاصکر عورتوں کو بھی پرائیوٹ اسپتالوں میں جانے کے اس رواج سے پرہیز کرناچاہیے تاکہ عورتوں کے صحت کے حوالے سے یہ کاروباری حضرات سنجیدہ ہوجائیں.