دنیا میں ہر انسان کو پیدا ہونے کے بعد شعبہ صحت اور تعلیم کے ساتھ اپنا وابستگی بنانے کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ یہ دونوں انسانی زندگی کے ساتھ فطری طور جڑے ہوئے ہیں۔تعلیم کے بغیر انسان کی زندگی حیوانوں سے مختلف نہیں ہے جبکہ صحت کی خرابی یا اچھائی انسان کی فطرت کا اہم جُز ہے۔
جسمانی صحت کو ٹھیک کرنے کیلئے شعبہ صحت یعنی اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے ساتھ رابط جوڑنا ضروری بن جاتا ہے جبکہ شعوری اور روحانی صحت کو مقوی بنانے کیلئے شعبہ تعلیم یعنی اسکولوں اور اساتذہ کے ساتھ منسلک ہونا پڑتا ہے۔الغرض زندہ سماج میں انسان کو زندہ رہنے کیلئے دونوں شعبوں کے ساتھ میل ملاپ رکھنا ناگزیر ہے۔لیکن بدقسمتی کی وجہ سے دونوں شعبہ جات اتنی بڑی اہمیت کے حامل ہونے کے باجود بھی سرکاری طور وعدوں و اعلانات کے بعد بھی نظر انداز کئے گئے ہیں کیونکہ اس وقت ہمارے یہاں کے قائم شدہ اسپتالوں اور اسکولوں کی حالت اور اساتذہ و ڈاکٹروں کے سلوک سے حصول تعلیم اور طبی مشوروں میں رکاوٹیں اور دشواریاں پیش آتی ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے صحت میں بگاڑ کے بعد مذکورہ شعبہ کے قائم شدہ اسپتالوں کی طرف مریض کو رُخ کرنا پڑتا ہے اور اسپتالوں میں تعینات ڈاکٹر صاحبان مریض کے مرض کی تشخیص کرکے اِس کا علاج ومعالجہ کرتا ہے اور موافق ادویات لینے کا مشورہ دیتا ہے۔لیکن اُف! ہمارے ڈاکٹر صاحبان کا سلوک،خداہی حافظ ہے۔اب چونکہ ایسی خطرناک اور مہلک بیماریوں نے انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔جس کیلئے جن بیماریوں کی تشخیص جدید ٹیکنالوجی سے لیس مشینریوں سے ہی ممکن ہوسکتے ہیں۔ لیکن سرکاری اسپتالوں میں قائم مشنریاں یا تو بے کار پڑی ہوئی ہیں یا منظور نظر افراد کوہی ان کا فائدہ پہنچتا ہے اور سرکاری قائم شدہ اسپتالوں میں اب بھی روایتی ٹسٹ کئے جاتے ہیں جبکہ بڑے اور ضروری ٹیسٹ اسپتال سے باہر کرانے پڑتے ہیں۔
غریب مریض جواِن ٹسٹوں کی سکت نہیں رکھتے ہیں،کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور اِن کے لواحقین اپنی غربت کا روناروتے ہیں اور سرکاری اسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ ایک بیڈپر دو یا تین مریض بیک وقت ایڈمٹ کئے جاتے ہیں حیرانگی کی بات یہ ہے داخل مریضوں کے متعدد ٹسٹ اور سرجری کیلئے ضروری سامان اسپتال سے باہر کرانے اور لانے پڑتے ہیں ۔سرکار کے دعوے اِن حالات سے بالکل کھوکھلے اور سراب ثابت ہوجاتے ہیں۔
تعلیم جو انسان کے روحانی صحت اور اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتی ہے اس طرح سے تعلیم ہر انسان کیلئے اہم اور لازمی ہے۔ سرکار نے ”تعلیم کو عام کرنے“کے مشن کے حوالے سے سروا شکھشا ابھیان کے تحت گھر گھر اسکول کھولے اور اسکولی ڈھانچوں کو تعمیر کرنے کے بجائے زیر تعلیم بچوں کو کرایہ کی بلڈنگوں میں پڑھایا جارہا ہے۔ اور اگر غور سے دیکھا جائے تو ان گھر گھر اسکولوں سے کوئی خاصا فائدہ سامنے نہیں آرہا ہے بلکہ یہ کہنا بیجا نہیں ہوگا کہ ان اسکولوں کے لامحدود تعداد سے تعلیمی معیار اونچا ہونے کے بجائے گرجاتا ہے اور اعلیٰ سطحی تعلیمی معیار کی طرف نظر دوڑائی جائے تو وہاں پر نظم و ضبط کے فقدان کی وجہ سے بچوں کا معیار تعلیم اور ان کی اخلاقی تربیت نہیں ہوپاتی ہے۔جبکہ اساتذہ بھی احساس ذمہ داریوں فرار ہوکر عشرت کی زندگی پر ہی متفق ہیں۔ اس لحاظ سے شعبہ تعلیم اور شعبہ صحت عروج پانے کے بجائے زوال پذیر ہورہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکار دعوے کرنے کے بجائے زمینی سطح پر شعبہ صحت سے وابستہ اداروں واسپتالوں اور شعبہ تعلیم سے منسلک اعلیٰ و سطحی اسکولوں کی طرف اپنی توجہ مرکوز کریں تو اسی میں بہتری ہوگی اور انسان کا جسمانی اور روحانی صحت مستحکم ہوسکے۔