وادی کشمیر کے بیشتر علاقوں میں میوہ صنعت کو منفرد حیثیت حاصل ہے اور اقتصادی بہتری وبحالی کیلئے ریڈ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے تاہم چند برسوں سے مسلسل یہ صنعت روبہ زوال ہے جس سے نہ صرف اس صنعت سے وابستہ افراد نقصان سے دو چار ہیں بلکہ میوہ صنعت میں کام کرنے والے مزدور یا دیگر فرائض انجام دینے وافراد کا روز گار بھی متاثر ہوا ہے اتنا ہی نہیں بلکہ اس صنعت کی تباہی سے پیسوں کی گردش محدود ہوچکی ہے جس کے نتیجے میں یہاں کی تجارت اور کاروبار بْری طرح متاثر ہے۔
قیمتوں میں بے اعتدالی،موسمی خرابی،شاہراہیں بند رہنا،ناقص اور غیر معیاری جراثیم کش ادویات اس صنعت کے زوال پذیر ہونے کے بنیادی محرکات ہیں۔صنعت سے وابستہ افراد و باغ مالکان یا بیوپاری قرضوں تلے دب چکے ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہاں کی میوہ صنعت کی تباہی کیلئے غیرمعیاری جراثیم کش ادویات بنیادی وجہ ہے۔ بنک صنعت سے وابستہ افراد کے ساتھ قابل اعتماد رویہ اختیار نہیں کرتا ہے اور قرضوں کے حوالے سے کسی قسم کی رعایت میں کوئی تعاون فراہم نہیں کرتا ہے۔محکمہ زراعت کارول بالکل منفی ہے کیونکہ جدیت اورجدید ٹیکنالوجی جس سے میوہ پیدوار میں اضافہ ہوتا سے متعلق جانکاری فراہم کرنے کیلئے کوئی پروگرام عمل نہیں لاتے ہیں۔
جس کے نتیجے میں ہمارا میوہ دوسری جگہوں کے میوہ جات سے مقابلہ نہیں کرسکتا ہے۔اس کے علاوہ درآمدی اور برآمدی کیلئے جو مخصوص راستے اور شاہرائیں ہیں وہ بیشتر اوقات بند رہتی ہیں اور یہی بنیادی وجوہات ہیں جس سے یہ صنعت زوال پذیر ہورہی ہے۔یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ غیرمعیاری ادویات نے ہمارے میوہ جات کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا ہے اورسال رفتہ کی برفباری اور خشک سالی سے بھی میوہ جات کو کافی نقصان پہنچا ہے اگر چہ یہ معاملہ دست قدرت میں ہے تاہم حکومتی سطح پر ان حالات سے نمٹنے کیلئے ایسے وسائل موجود ہوتے ہیں جن کو تو جہ کے ساتھ بروئے کار لانے میں لیت ولعل سے کام لیا جاتا ہے۔ غیر معیاری ادویات سے اس صنعت کو کافی دھچکہ پہنچاہے۔جس کابراہ راست اثر کاشتکاروں کی محنت پر پڑتا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جہاں میوہ صنعت کی تباہی کے یہ وجوہات ہیں۔وہیں اس میں ہمارے زمیندار بھی قصوروار ہیں کیونکہ میوہ ڈبہ کی اوپری تہہ خوبصورت اور دلکش ہوتی ہے جبکہ درمیانی تہہ اس سے بالکل نرم اور غیرمعیاری ہوتا ہے اور ڈبہ کا آخری تہہ ناقص ترین ہوتا ہے اور اس بددیانتی سے ہمارے میوہ جات کی قیمتوں میں گراوٹ آجاتی ہے۔اگر وادی کے گروور حضرات دیانتداری کا مظاہرہ کرکے میوہ کی بھرائی کریں گے تو عین ممکن ہے کہ ہمارے میوہ جات کی قیمتیں آسمان کو چھوئیں گے۔ اس طرح سے میوہ صنعت کے زوال پذیر ہونے کے متعدد وجوہات ہیں۔جس میں سرکار کے ساتھ ساتھ عام گروور بھی ذمہ دار ہیں۔ جراثیم کش ادویات کی مقامی کمپنیوں کی جانچ پڑتال کرنا حکومت کیلئے ضروری ہے۔
غیر معیاری ادویات کی خرید وفروخت کرنی والی کمپنیوں یا ایجنسیوں کو سربہمر کرنے کی عمل شروع کرنا ناگزیر بن گیا ہے او ر شاہراؤں کے بند ہونے کے سلسلے میں بھی سرکار کو غور کرنے کی ضرورت ہے جبکہ محکمہ زراعت کے متعلقہ افسران کو احساس ذمہ داری کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ عام گرورس کے لئے ضروری ہے کہ وہ دیانتداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یک رنگ اور یک وزن میوہ جات ڈبے میں بھریں تاکہ ان کی قیمتیں بہتر سامنے آجائیں گے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری سطح پر میوہ صنعت کو بچانے کیلئے ہر طرح ٹھوس اور مثبت اقدام اٹھائے جائیں اور عوامی سطح پر دیانتداری کا مظاہرہ کرنے کیلئے ہر ذمیندار کو توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔تب عین ممکن ہے کہ ہمارا میوہ صنعت محفوظ رہ سکے۔