- فہم و ادراک
عمران بن رشید
سیر جاگیر سوپور‘کشمیر۔
8825090545
امام مالک ؒ نے المَوطامیں اور احمد بن حنبلؒ نے اپنی مسند میں صحیح سند کے ساتھ ایک حدیث نقل کی ہے‘جس کا متن دعائیہ ہے۔اللہ کے رسولؐفرماتاتے ہیں۔
”اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِی وَثَنًایُّعْبَدُاِشْتَدِّغَضَبُ اللّٰہِ عَلیٰ قَوْمٍ اِتَّخَذُاقَبُوْرَاَنْبِیَاءِھِمْ مَسَاجِد“
”اے اللہ!میری قبر کو وثن نہ بنادیناکہ جس کی لوگ عبادت کرنے لگیں اُن قوموں پر اللہ کا شدید غضب اترا جنہوں
نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنالیا“
وثن کیاہے:۔مولانا عبدالحفیظ بلیاوی ندویؔ نے مصباح اللُغات میں ”اَلوَثَنِ“کے معنی بُت اور ”اَلوَثَنِیُّ“کے معنی بُت پرست رقم کئے ہیں۔ یعنی ہر طرح کا بُت جس کی رَب کو چھوڑکرعبادت کی جائے’وثن‘کہلائے گا۔ البتہ عبداللہ ناصر رحمانی کی رائے قدرے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں:۔
”اوثان وہ معبود کہلاتے ہیں جن کی کوئی شکل و صورت نہ ہو‘جیسے قبریں‘درحت‘ستون‘دیواریں اور پتھر
وغیرہ۔ اوثان‘وثن کی جمع ہے۔“
(شرح کتاب التوحید۔۔۔ صفحہ نمبر۔298)
مذکورہ بالا تشریحات کے بعد یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ ”وثن“ سے مراد بُت ہے۔البتہ غور طلب امر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا کس بنا پر کی‘ اس کے پیچھے کیا محرکات اور وجوہات تھے۔دوسری بات یہ کہ ایک قبرکیونکر بُت بن سکتی ہے؟
حضورؐ خاتم النّبیین ہی نہیں تھے بلکہ آپؐ سابقہ شریعتوں کے صدیق (تصدیق کرنے والا)بھی تھے۔آپؐ کو وحی کے ذریعے سے سابقہ قوموں کے حالات سے آگاہ کیا گیا تھا۔جیسا کہ مذکورہ حدیث کے دوسرے حصے سے بھی مترشح ہوجاتاہے۔آپؐ سے قبل کئی قومیں شرک کی بنا پر روبزوال ہوچکی تھیں۔کئی قوموں نے انبیاء اور اکابر کے تیئن شرکیہ عقائدپال رکھے تھے۔چنانچہ قرآن میں حضرت نوح ؑ کے بارے میں ذکر آیا ہے کہ وہ جب اپنی قوم کی طرف توحید کا پیغام لے کر گئے اُس وقت اُن کی قوم ودّ‘سواع‘یٰغعوث‘ یٰعو ق اور نسر نامی بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے۔ انہوں نے نوح ؑکی ایک نہ سنی‘بلکہ اپنے لیڈروں کے دامِ فریب میں آکربُت پرستی‘جو اصل میں اکابر پرستی تھی پر قائم رہے۔ حضرت نوحؑ کی عاجزی اور انکساری کا عالم یہ تھا وہ پکار اٹھے۔
”رَبِّ اِنَّھُم عَصَوْنِی وَاتَّبَعُوا مَنْ لَّمْ یَذِدْہُ مَالُہ‘ وَوَلَدَہ‘ اَلِّا خَسَارًا وَمَکَرُوْامَکْرًا کُبَّارًا وَقَالُوْا
لَاتَذَّرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ وَلَاتَذَّرُنَّ وَدًاوَّلَاسُوَ اعًا وَّلَایَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا“
”اے میرے رب!بے شک انہوں نے میری بات نہیں مانی اور اُس کے پیچھے چل پڑے جس کے مال اور اولاد
نے خسارے کے سوا اس کو کسی چیز میں زیادہ نہیں کیا۔اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی‘بہت بڑی خفیہ تدبیر۔اور انہوں
نے کہا تم ہر گز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ کبھی ودکوچھوڑنا اور نہ سواع کو اور نہ یعغوث کو اور نہ یعوق اور نسر کو“
سورۃ نوح۔23
ودّ‘سواع‘یٰغوث‘یٰعوق اور نسرمحض بُت ہی نہیں تھے۔بلکہ صحیح بخاری میں سیدناعبداللہ ابنِ عباس ؓ کی ایک مرفوع روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ پانچوں بُت حضرت نوح ؑ کی قوم کے نیک لوگوں (رجالِ صالحین)کے نام تھے۔جب اِن کی موت ہوگئی تو شیطان نے لوگوں کے دلوں میں ڈالا کہ اپنی مجلسوں میں جہاں وہ بیٹھتے تھے بُت قائم کرلیں اور اِن بتوں کے نام اپنے نیگ لوگوں کے نام پر رکھ لیں۔چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا۔اُس وقت ان بتوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی‘لیکن جب وہ لوگ بھی مر گئے جنہوں نے یہ بُت قائم کئے تھے اور علم لوگوں میں نہ رہا تو ان بتوں کی پوجا ہونے لگی(بخاری۔4920)۔ محمد بن قیسؒ رقمطراز ہیں:۔
”یہ بزرگ عابد‘اللہ والے‘اولیاء اللہ‘حضرت آدمؑ اور حضرت نوحؑ کے سچے تابع فرمان صالح لوگ تھے جن کی پیروی اور
لوگ بھی کرتے تھے۔جب یہ مر گئے تو ان کے مقتدیوں نے کہا کہ اگر ہم ان کی تصویریں بنالیں تو ہمیں عبادت میں
خوب دلچسپی رہے گی اور ان بزرگوں کو دیکھ کر شوقِ عبادت بڑھتا رہے گا چنانچہ ایسا ہی کیا۔جب یہ لوگ بھی مر کھپ گئے
اور ان کی نسلیں آئیں تو شیطان نے یہ گھٹی پلائی کہ تمہارے بڑے ان کی پوجا پاٹ کرتے تھے اور ان سے بارشیں وغیرہ
مانگتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اب باقاعدہ ان بزرگوں کی تصویروں کی پرستش شروع کردی۔“
تفسیر ابن کثیر
جلد۔6 ‘صفحہ۔434
فوت شدہ لوگوں کی قبروں یا تصاویر کو وسیلۂ نجات سمجھنا‘خواں ان کی عبادت کی جائے یا ان کی وساطت سے اللہ کا قرب تلاش کیا جائے‘ اسلام میں قطعًا جائز نہیں۔بلکہ ایسی ہی چیزوں پر وثن کا اطلاق ہوتا ہے‘جو شکل و صورت میں بُت تو نہیں ہوتیں مگر ان کے سامنے وہ امور بجا لائے جاتے ہیں جو حقیقی شکل و صورت والے بُتوں کے سامنے بجا لائے جاتے ہیں۔اور یہ چیز اس وقت امتِ مسلمہ میں عام ہوچکی ہے۔ بزرگوں کی قبروں پر جاکر وہاں چڑہاوے چڑھانا‘اُن سے امیدیں وابستہ رکھنااور ان کو وسیلے کے طور پر استعمال کرنا سب غیرشرعی اور شرکیہ اعمال ہیں جن سے رسول اللہ ﷺنے رب کی پناہ مانگی ہے۔
لاتجعل قبری عیدًا:۔ سنن ابی داؤد میں ایک حدیث آئی ہے جس کو سیدنا ابو ہریرہؓ نے روایت کیا ہے۔اور امام نویؒ نے ”الاذکار“میں اسے صحیح ٹھرایاہے۔حدیث کا متن اور منطوق اگرچہ ’وثن‘ والی حدیث سے قدرے مختلف ہے تاہم مفہوم دو نوں حدیثوں کا قدرے مشترک بھی ہے۔رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔
لَاتَجْعَلُوا بُیُوتَکُمْقُبُرًا‘وَلَا تَجْعَلُوْاقَبْرِی عِیْدًا
یعنی اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤاور نہ ہی میری قبر کو میلہ گاہ بناؤ۔لفظ ”عید“سے مراد عُرس یا میلہ ہے۔چنانچہ حافظ ابن القیم ؒ اس حوالے سے گویا ہیں کہ:۔
”اس کا اطلاق زماں و مکاں دونوں پر ہوتا ہے۔اسلام سے پہلے مشرکین زمانی ومکانی دونوں قسم کی عیدیں
منایا کرتے تھے‘اسلام نے آکر ان سب کو باطل قرار دیااور ان کے بدلے عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کی صورت
میں زمانی عیدیں دیں اوربیت اللہ میں منیٰ‘مزدلفہ اور عرفہ کی صورت میں مکانی عیدیں دیں“
شرح کتاب التوحید
صفحہ نمبر۔309
لائے نفی جنس:۔ اس حدیث میں عموم پر تاکید ملتی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے پوری امت سے نفی کے لہجے میں تاکید کی ہے کہ آپ ؐ کی قبر کومیلہ گاہ نہ بنایا جائے۔ حدیث کے متن پرغورکریں ”ولا تجعل قبری عیدًا“۔عربی زبان میں ’’ لَا “ نفی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اسے ”لائے نفئی جنس“کہا جاتاہے۔یعنی ہرجنس کی نفی کرنے والا۔ اس اعتبار سے اگر حدیث کے متن پر غور کیا جائے تو گویامفہوم کچھ اس طرح ہوگا کہ ”میری قبر پر کسی بھی طرح کا کوئی میلہ نہ منایاجائے“۔اور حدیث کا اصل مفہوم بھی یہی ہے۔قبر پر کسی بھی طرح کا کوئی میلہ قائم کرنا قبر والے کے تئین ایک قسم کا غلو ہے۔اور سابقہ امتیں اسی غلو کے ذریعے شرک اور بدعات کے دلدل میں جاگریں اور میں اللہ کے غضب کا شکار ہوئیں۔