الف عاجز اعجاز
کلسٹر یونیورسٹی سرینگر
عورت اس دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم مخلوق تھی، جس سے سماج نے ٹھکرادیا تھا، تاریخ نے گمنام بنایا، تھا ہوس پرستوں نے نشانہ بنایا تھا، مذاہب کے ٹھیکیداروں نے اس کو فطری حقوق سے محروم رکھا تھا۔ لیکن اسلام نے عورت کو دنیا کی سب سے خوبصورت اور حسین چیز بتایا۔ اُس کو ایک اعلیٰ مقام عطا کیا دُکھ اور تکلیف کے گہرے گھڑے سے نکال کر سرپرستی کا تاج پہنا دیا۔ اُس کو مرد کے برابر حقوق عطا کئے۔ اُس کو مرد کی غیرت قرار دیا، اُس کو جنت کی دلیل بتایا۔ اسلام نے عورت کو اُس کا صحیح مقام عطا کیا اور اُس کی شرم و حیا کو ہی اُس کی سب سے بڑی زینت قرار دیا۔
آج کل جگہ جگہ عورت مارچ نکالا جاتا ہے، عورتیں آزادی کے نعرے لگاتی پھر رہی ہے، اپنے حقوق مانگ مانگ رہی ہے۔ میرا جسم میری مرضی کے گیت گا رہی ہے اور سرِ راہ ناچتی پھر رہی ہے۔ میرا جسم میری مرضی کے نام پر بیہودگی کو فروغ دینا چاہتی ہیں۔ یہ عورت ہے یقین نہیں آرہا۔ وہ عورت جو اپنی عزت کی حفاظت کے لیے کسی کو قتل تک کر سکتی تھی، آج سرِ راہ اپنے ہاتھوں سے اپنی عزت، اپنی چارد اچھال رہی ہے یقین نہیں آرہا۔ عورت جو شرم وحیاء کو اپنی زینت سمجھتی ہے آج سرِ راہ ناچ رہی ہے یقین نہیں آرہا۔
عورت مارچ نکالا کس کیخلاف جارہاہے۔ میراجسم میری مرضی کے نعرے لگانے والی مانگ کیا رہی ہیں۔کہ وہ اپنی مرضی سے جو چاہے کر سکے۔وہ اپنے بھائی کا مقابلہ کریں اُس کی مرضی، وہ اپنے باپ کے سامنے بیہودہ حرکتیں کریں اُس کی مرضی،وہ بازار میں نیم برہنہ ہو کر چلے اُس کی مرضی۔وہ اپنے جسم کی نمائش کرتی پھریں اور کوئی اُس کی طرف نظر نہ اُٹھائیں۔وہ راتوں کو گھر سے باہر رہے اُس کی مرضی، وہ بیشرمی کی حدیں پار کریں اُس کی مرضی۔ کیا مطالبے ہے یہ کہ سوچ کر شرم سے سر جُھک جاتا ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی نا گوشت کو کھلا بازار میں چھوڑا جائے اور کُتے اُس سے دور رہے۔ کیا یہ ہوسکتا ہے؟ یہ کون سے حقوق ہے جو یہ عورتیں مانگ رہی ہے۔ خود کو مسلمان کہہ کر اسلام کا نام بدنام کر رہی ہیں۔
یہ وہی عورت ہے جس کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کیا جاتا تھا۔ یہ وہی عورت ہے جس کو مرد کے پیروں کی جوتی سمجھا جاتا تھا۔ یہ وہی عورت ہے جس کی عزت کو مذاق سمجھا جاتا تھا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اسلام نے عورت کو کس قدر عزت بخشی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام نے عورت کو کتنا اونچا مقام عطا کیا ہے۔ اُس کے باوجود بھی یہ کہتی پھر رہی ہے ”میرا جسم میری مرضی“. ارے اللّٰہ کی بندی پہلے یہ جاننے کی کوشش تو کروں کہ جسم تجھے عطا کس نے کیا ہے۔ پہلے یہ سوچ تو لے کہ تُو اپنی مرضی سے سانس لینے کی قوت تک نہیں رکھتی جسم پر مرضی کیسے چلا سکتی ہے۔
آج کی عورت صرف یہ کہتی پھر رہی ہے کہ مجھے میرے حقوق چاہیں لیکن خدارا بتاؤ تو سہی اب کون سے حقوق باقی رہ گئے جس کا مطالبہ کرتی پھر رہی ہو۔ کیا تجھے تیرے حقوق اُسی وقت نہیں مل گئے تھے جب سورۃ النساء نازل ہوگئی تھی۔ کیا اِس کے باوجود بھی کوئی حق باقی رہ جاتا ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے تیرے نام پر ایک پوری سورۃ اُتاری ہیں۔ اس سے بڑھ کر تجھے کیا چاہیں کہ تجھے جنت کی دلیل بتایا گیا ہے یعنی جب ایک عورت جنم لیتی ہیں تو وہ اپنے والدین کے لئے جنت کی دلیل بن جاتی ہیں۔ جب بڑی ہوکر اپنے شوہر کے گھر چلی جاتی ہیں تو خود جنتی بن جاتی ہیں۔ جب وہ صاحب اولاد ہوتی ہیں تو اپنے بچوں کے لئے جنت کی دلیل بن جاتی ہیں اور حضورﷺ کا فرمان بھی ہیں کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہیں۔ اب بتا کہ پیدائش سے لے کر موت تک جو جنت ہی جنت ہیں اُس کے اور کون سے حقوق باقی رہ جاتے ہیں۔ تیرا پردہ تیری زینت ہیں۔ شرم و حیا تیرا زیور ہیں۔ اور حدیث مبارکہ بھی ہیں کہ باپردہ عورت کو شہیدوں کا درجہ مل جاتا ہے اِس سے بڑھ کر تجھے اور کیا چاہیے۔ تجھے شہادت کا درجہ پانے کے لئے مرد کی طرح جہاد پر جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تجھے وہ درجہ بھی گھر بیٹھے ہی مل جاتا ہے اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے۔
باپ، بھائی، شوہر تیرے محافظ ہیں ان کے سایے سے مکمل آزادی پا کر دیکھ لے تجھے درندوں کی دنیا ملے گی۔ آپ آزادی چاہتی کس سے ہیں اپنے محرموں سے جو ہر وقت تیرا بھلا چاہتے ہیں۔ آزادی کس کے لئے مانگ رہی ہو اُن لوگوں کے شانہ بہ شانہ چلنے کے لئے جو تجھے ہر وقت ہوس کی نظر سے دیکھتے رہتے ہیں۔ آزادی کا مطلب بھی پتہ ہے کیا ہے؟ تجھے تو حضورﷺ کے ظہور کے ساتھ ہی آزاد کر دیا گیا تھا جب تجھے پالنے پر تیرے والدین کو جنت کی بشارت دی گئی تھی۔ تجھے تو آزاد اُسی وقت کر دیا تھا جب تجھ سے صحیح برتاؤ کرنے پر تیرے شوہر کو جنت کی بشارت دی گئی تھی۔ تجھے تو آزادی اُسی وقت ملی تھی جب تیری اولاد کو تیری خدمت پر جنت کی بشارت دی گئی تھی۔ اِس سے بڑھ کر تجھے اور کیا چاہیے۔ ذرا غور تو کر اسلام نے عورت کو آزاد ہی آزاد رکھا ہے۔
جا جاکر مغرب کی گلی کوچوں میں دیکھ لیں جہاں عورت کا کوئی مقام نہیں۔ جہاں عورت کو گوشت کا لوتھڑا سمجھا جاتا ہے۔ جہاں عورت کی کوئی عزت نہیں کی جاتی۔ جانتی بھی ہوں کیوں کیونکہ وہ ہر وقت اپنے جسم کی نمائش کرتی پھر رہی ہیں۔ جاکر اُن کی حالت دیکھ لیں وہاں عورت کو صرف عورت سمجھا جاتا ہے۔ ماں بہن اور بیوی نہیں۔ وہاں عورت کے جزبات کی کوئی قدر نہیں کی جاتی۔ حُسن کی قدر کی جاتی ہیں اور حُسن کے خاتمے کے ساتھ ہی سب کچھ ختم۔ وہاں عورت کو محبت نہیں دی جاتی بلکہ عورت کے جزبات کو پیسوں سے تولا جاتا ہے۔ وہاں کی عورت کا کوئی مقام، کوئی رتبہ نہیں ہے۔ کیا تُو چاہتی ہے کہ تجھے اسلام نے ظلم و ستم کے جس گہرے گھڑے سے نکالا تھا تجھے پھر سے وہی پھینکا جائیں۔ تیری عزت، تیرا مقام سب کچھ ختم ہو جائے۔ نہیں نا، تو پھر خود کو اپنی ہی نظروں میں گرانے کے لئے کیوں کمر باندھ رکھی ہیں۔
مغرب نے عورت کو حقوق تو دیے لیکن حقوق دینے سے پہلے عورت سے نسوانیت کی پہچان ہی چھین لی۔ بلا پھر یہ مصنوعی حقوق کے زیور اور حقوق نسواں کے سنگار نے کس کے ماتھے کو روندھا، ایک عورت کے ماتھے کو ہی نا، جس کی کوئی پہچان ہی نہیں وہاں، یا ایسی زندہ جان کو جو اللہ کی قدرت نے انسان بنائی لیکن مغرب نے اس سے انسانیت کے لباس سے ہی محروم رکھا۔ مغرب نے عورت کی ذہین سازی اپنے حرص و ہوس کی لزتوں کے موافق کی اور تجارت بڑھانے کے لیے عورت کو محض ایک پروڈکٹ کی پہچان دے کر اپنے ہوس کے بازاروں اور کاروبار کو بھی گرم رکھا۔
اب اگر تجھے آواز اُٹھانی ہی ہے تو جہیز جیسے مسلئے پر کیوں نہیں اُٹھا رہی ہو۔ آواز اُٹھانی ہی ہے تو ظلم و ستم پر کیوں نہیں اُٹھا رہی ہو۔ آواز اُٹھانی ہی ہے تو اُن عورتوں کے خلاف کیوں نہیں اُٹھا رہی ہو جو اپنی بہوؤں پر ظلم و ستم کر رہی ہیں۔ وہ مرد جن کو اللّٰہ تعالیٰ نے تیرا محرم بنا کر رکھا ہے اُن کے خلاف کیوں کھڑی ہوئی ہو۔ میں نے باپ کو اپنی بیٹیوں کی خوشیوں کے لئے زمین آسمان ایک کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے باپ کو بیٹی کی تکلیف پر ٹوٹتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے شوہر کو بیوی کی خاطر دھکے کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے شوہر کو بیوی کی عزت کی خاطر دوسروں سے لڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے شوہر کو بیوی کی محبت میں خوار ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے بھائی کو بہن کی رکھوالی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ کیا تیرے باپ، تیرے شوہر اور تیرے بھائی سے بڑھ کر بھی تجھے کوئی عزت دے سکتا ہے، کیا تیرے محرموں سے بڑھ کر بھی تجھے کوئی محبت کر سکتا ہے۔ افسوس صد افسوس آواز اُٹھا بھی رہی ہو تو کس کے خلاف، مطالبہ کر بھی رہی ہو تو کیا؟ آزادی مانگ بھی رہی ہو تو کس کی، اپنے جسم کی… حقوق مانگ بھی رہی ہو کیا بازاروں میں دن رات سرِ عام آوارہ گردوں کی طرح پھرنے کا…کیا تجھے آواز اُٹھانے کے لئے تیرا جسم ہی ملا تھا۔ جو سرِ عام کہتی پھر رہی ہو ”میرا جسم، میری مرضی“. یہ جسم تو اللّٰہ تعالیٰ کی امانت ہے تُو اِس پر اپنی مرضی کیسے چلا سکتی ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ کی امانت میں خیانت کیسے کر سکتی ہیں۔ اگر یہ جسم سچ میں انسانوں کی اپنی ملکیت ہوتا تو کیا خودکشی کرنا حرام ہوتا۔ اگر جسم واقعی انسانوں کی اپنی ملکیت ہوتا تو کیا خود کو خروش پہنچانا بھی گُناہ ہوتا۔ نہیں نا، پھر کس جسم کو اپنا کہنے کی بات کر رہی ہو وہ جسم جس کو زندہ رکھنے کے لئے بھی تیرے پاس اپنی مرضی سے سانس لینے کی قوت تک نہیں۔ وہ جسم جس کو جانا آخر خاک میں ہی ہے، وہ جسم جس کو بلآخر کیڑوں مکوڑوں کی خوراک بننا ہے اُس جسم پر اپنی مرضی چلانے چلی ہو۔ارے اللّٰہ کی بندی تُو تو سانس لینے کے لئے بھی اللّٰہ تعالٰی کی محتاج ہیں پھر اُس اللّٰہ تعالٰی سے بغاوت کیسے کر سکتی ہو۔ اُس کے عطا کئے ہوئے جسم پر اپنی مرضی کیسے چلا سکتی ہو۔ خدا کی بندی ابھی بھی وقت ہیں سدھر جا کہیں ایسا نہ ہو کہ تیری حالت مغرب کی عورتوں سے بھی برتر ہو جائیں۔ سدھر جا اور اپنی عزت کی حفاظت کر کیونکہ عزت ہیں تو سب کچھ ہیں۔