آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سوبرس کا پل کی خبر نہیں
اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ہر جاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے ۔ موت اور زندگی دونوں اللہ کی مخلوق ہیں کیونکہ ان کو اللہ نے خلق فرمایا۔ موت برحق ہے یہ ہر ایک کو آنی ہیں۔ دنیا میں اگر دیکھا جاۓ تو لوگ اللہ کے بھی منکر ہوگۓ نبوت اور رسالت کے بھی منکر ہوگۓ ۔لیکن آج تک کوئی بھی موت کا منکر نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی ایسا طبیب ہے جو اسکا علاج کرکے زندگی دلاسکے ۔ موت کے بعد ہی انسان کو اصلی اور ابدی زندگی کا سفر شروع ہوجاتا ہے ۔ جب کوئی اس دنیا سے چلا جاۓ تو انتقال کر جاتا ہے جسکا معنی ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا۔ دنیا میں ما سواۓ اللہ کوئی چیز باقی رہنے . والا نہیں اسکے علاوہ سب کچھ فنا ہونے والا ہے ۔
اگر ہم دیکھے تو دنیا میں ایک انسان ترتیب سے آتا ہے پہلے دادا پھر باپ پھر بیٹا لیکن دنیا میں جانے کے وقت مالک الموت ترتیب نہیں دیکھتا بلکہ ہر ایک کا وقت متعین کیا ہوا ہے ۔موت چھوٹے اور بڑے کو نہیں دیکھتی ہے ۔وہ بے رحم ہے جو دود پیتے ہوۓ بچے کو اسکی ماں چھین لیتی ہے ۔ موت نہ ہی رنگ و نسل کو دیکھتی ہے اور نہ ہی ذات اور مرتبے کو ۔ نہ ہی موت نیک و صالح لوگوں پر رحم کرتی ہے اور نہ ہی ظالموں کو بخش دیتی ہے ۔یہ ہر ایک کو اپنے گلے سے لگا کر ہی رہتی ہے ۔ پھر چاہے کوئی غار میں ہو یا سفر پہ ۔خود کو اللہ کہنے والا فرعون بھی موت سے نہیں بچ پایا ۔ ہر انسان کو قیامت کے دن اسی حالت میں اٹھایا جاۓ گا جس حالت میں اسکی موت واقع ہوئی ہوگی ۔ نہ دولت کام آتی ہے نہ شہرت۔ سکندالعظم نے تو مرتے وقت خواہش کی کہ اگر مجھے کچھ وقت کی مہلت دی جاۓ لیکن کوئی نہیں دلا سکا جبکہ وہ اپنا مال ودولت سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار تھا ۔
انسان کو ہر حال میں ہوشیاری سے کام لینا چاہے اور اس بات پہ کامل یقین رکھنا ہے کہ یہ دنیا رہنے والی نہیں ہے ۔ یہ مومن کیلۓ قید خانہ ہے اور کافر کی جنت ۔ جسطرح ایک قیدی کو قید خانے میں ماتحت رہنا پڑتا ہے اسی طرح زندگی اس دنیا میں ہوتی ہے اور جسطرح قیدی کا دل قید خانے میں نہیں لگتااور وہ اسکو اپنا گھر نہیں سمجھتا بلکہ اسکو پتاہوتا ہے کہ یہ قیدخانہ میری لیے ایک عارضی گھر ہے اور جو میرا اپنا اصلی اور ابدی گھر ہے وہ ہے آخرت ۔ہر انسان کو آخرکاراپنے مالک کے دربار میں حاضر ہوناہی ہونا ہے جہاں اسکو اپنے کیۓ کا حساب دینا ہوگا کہ اگر آپکو زندگی عطا کی گئ تو آپنے اسکو کن کاموں میں صرف کیا ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہے کہ ابن آدم کے قدم تب تک آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک کہ نہ انکو پانچ چیزوں کے بارے میں سوال کیا جاۓ گا پہلا1- عمر کہاں گزاری
2_-جوانی کہاں گزاری 3-مال کہاں سے کمایا
4مال جو کمایا کہاں پہ صرف کیا 5-اور علم جو حاصل کیا اس پر عمل کتنا کیا۔
لہذا ایک انسان کو پہلے سے ہی ان سوالات کی تیاری کرنی چاہے تاکہ وہ اسوقت مجرم نہ ٹھہرایا جاۓ۔وہ کوئی بھی نفس دنیا میں نہیں ہیں جسکو کوئی نہ کوئی مصیبت آئی نہ ہوگی اور جو بھی آزمائش ڈال دی جاتی ہے ان پر ایک انسان کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہۓ ۔کیونکہ اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتے ہے کہ میں نے موت اور زندگی کو اسلیے پیدا کیا تاکہ ہم تمکو آزماۓ کہ تم میں سے کون اچھا اور کون برا ہیں۔ چونکہ اللہ کی طرف سے سب کچھ ہوتا ہے اسکی اجازت کے بغیر مچھر کا پر بھی نہیں کٹ سکتا۔لہذا شکوے شکایتوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ زندگی اور موت سب اسی کے ہاتھ میں ہے اسکے بغیر کوئی ہمکو زندگی یا موت نہیں دے سکتا۔ اللہ تعالی نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی تو پہلے انکو چیزوں کا نام سکھایا گیا اور اللہ نے انسان کے اندر یہ صلاحیت بھی رکھی کہ وہ نیکی اور برائی میں تمیز کر سکے ۔انسان کی زندگی بامقصد ہے نہ کہ بے مقصد اور اسکی موت بھی یقینی اور بامقصد ہے ۔ایک انسان کو زندگی اسلیے دی گئ تاکہ اسکا امتحان لیا جاۓ اور موت اس لیے آتی ہے کیونکہ امتحان میں پرچے کا وقت ختم ہوا ہوتاہے اور پھر موت کے فرشتے کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اس بندے کو اپنا پرچے سمیت اللہ کے دربار میں لے آۓ تاکہ اسکی ابدی اور اصلی زندگی کا فیصلہ طے کرۓکہ کیا یہ جنت کا حقدار ہے یا جہنم کا ۔اللہ تعالی کسی کے ساتھ بھی ظلم نہیں کرتا بلکہ جسنے جیسا کیا ہوگا اسکو اسکے مطابق جزا و سزا دی جاۓ گی۔ وہ عادل ہے اور عدل کو پسند فرماتے ہے ۔چونکہ اللہ نے انسان کو اختیار دے رکھا ہے وہ چاہے تو سیدھے راستے کو اختیار کرۓ چاہے تو غلط راستے کو چن لے ۔ایک انسان کو غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ میرے لیے کیا بہتر ہے ۔انسان کو پہلے ہی یہ دیکھنا چاہے کہ مجھے کس لیے پیدا کیا گیا اور میری آخری منزل کیا ہے ۔اگر انسان کو یہ حقیقت زندگی سمجھ میں آجاۓ تو اسکے لیے کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ اپنی کتاب زندگی کو اپنے نیک کاموں سے سجا کراپنے اعمال نامے کو دائیں ہاتھ میں تحفے کی طرح لے لے۔ ۔انسان کا اعمال نامہ جیسا ہوگا اسی کے مطابق اسکو جزا و سزا دی جاۓ گی ۔کیونکہ جزا و سزا ضروری ہے اگر یہ نہ ہوتا تو پھر نہ ہی اس زندگی کا فائدہ ہوتا اور نہ ہی امتحان کا ۔اللہ تعالیٰ جسکو بھی زندگی دیتا ہے اسکو امتحان ضرور رکھتا ہے تاکہ انسان کی اصلیت پتا چل جاۓ خواہ وہ نیک ہے یا بد ۔اور اگر بندہ اللہ کی پسند کے مطابق زندگی گزار رہا ہو تو فرمانبردار بندوں میں سے ہیں اور اگر اللہ کو چھوڈ کر اپنے نفس کا غلام بن کے اسکی پیروی کرنے لگا تو بے شک اللہ کا باغی ، سرکش اور نافرمان بندوں میں شمار کیا جاۓ گا ۔انسان کو ہر وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس زندگی کے بعد اللہ تعالیٰ ایک ایسے دن کو بھی لاۓ گا جس دن ہم سب کو ازسرے نو زندہ کیا جاۓ گا اور ہمارا اعمال نامہ دیکھ کر ہمارے ٹھکانے کا فیصلہ کیا جاۓ گا کہ اسکی جاے پناہ کہاں ہے ۔ وہ دن ایسا ہے جہاں کوئی بچ نہیں سکتا اللہ نے تو اس دن اپنا نام واحد القھار رکھا ہوا ہے نہ کہ غفور الرحیم ۔ نفسی نفسی کا عالم ہوگا کوئی کسی کا نہیں ہوگا ۔موت سب سے بڑی حقیقت ہے جس سے ہر شخص بھلا بیٹھا ہے اور زندگی سب سے بڑا دھوکا ہے جس کے پیجھے ہر کوئی بھاگ رہا ہے۔
موت یقینی اور اکیلا سفر ہے جو ہر انسان کو اکیلے طے کرنا ہے اسکے ساتھ نامہ اعمال کے سوا کچھ نہیں جاۓ گا نہ ہی اسکے ماں باپ نہ ہی احباب و اقارب ۔ موت انسان کی محافظ اور وفادار دوست ہے جو اپنے مقررہ وقت پر آکر اسکی روح قبض کر لیتی ہے ۔ لہذا موت کی تیاری لازمی ہے ۔ انسان کو ہر سانس لیتے وقت یہ دل میں رکھنا چاہے کہ ابھی موت آۓ گی تب جاکے انسان دنیا کی لذتوں کو چھوڈ کر آخرت کا فکر مند رہے گا ۔ حضرت ابو ہریرہ سے روا ت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لذتوں کو توڑنے والی چیز (موت) کو کثرت سے یاد کرؤ ،یعنی موت یاد کرنے سے دنیا کی ان لذتوں کو بدمزہ کردو تاکہ انکی طرف طبیعت مائل نہ ہو اور تم صرف اللہ کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔ اللہ اپنے بندوں کو مختلف مرحلوں اور حالات سے گزاتا ہے کبھی غم اور خوشی دے کر کبھی بڑھاپا اور کبھی جوانی دے کر تاکہ وہ دیکھے کہ میرا شاکر بندہ کون ہے اور ناشکرہ کون ہے اور کون مجھے یاد کرتا ہے اور کون بھلا بیٹھا ہے ۔ کون مصیبتوں پر صبر کرۓ کون نہیں اور وہ لوگ نادان اور احمق ہے جو مصیبتوں کے آنے پر ہی اللہ کو یاد کرتے ہے اور عقلمند انسان کبھی ایسا احمقانہ کام نہیں کرۓ گا کہ اسبر مصیبت آۓ تو وہ خود کو اللہ کے سامنے رگڑنا شروع کر دے اور جب مصیبت ٹل جاۓ تو اللہ کو باکل ہی بھول جاۓ۔ ایک انسان کی زندگی چاہے کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو آخرکار ختم ہوہی جاتی ہے اور جو ابدی زندگی ہے وہ آخرت ہے ۔ لہذا انسان کو اس زندگی کیلۓ سامان تیار کرنا چاہیے جو اصلی ہے ۔ کسی بھی انسان کو یہ نہیں معلوم کہ اسکی موت کب اور کہاں واقع ہوگی یہ صرف اللہ کو معلوم ہے ۔ انسان کی روح جب نکلا جاتی ہے تو اسپر اسی وقت قیامت آتی ہے اور اصلی گھر کا سفر شروع ہوتا ہے ۔ کسی کے بس میں بھی نہیں ہے کہ وہ اس میں تبدیلی لاۓ ۔لہذا انسان کےلیے ضروری ہے کہ وہ زندگی کے ہر لمحے کو بھلائی اور نیک کاموں میں گزارے تاکہ جنت اسکو حاصل ہوجاۓ اور عذاب الہی سے بچ نکلے ۔
حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :قیامت کے دن موت ایک چت کپڑے میندے کی صورت میں لائی جاۓ گی۔ پھر ایک پکارنے والا فرشتہ پکارے گا کہ الے اہل جنت والو ! (پکار سن لو ) اہل جنت گردنیں اٹھائیں گے اور ادھر ادھر دیکھیں گے ۔ وہ فرشتہ ان سے پوچھے گا ۔ "کیا تم اسکو پہچانتے ہو ؟وہ سب کہے گے ہاں یہ تو موت ہے "۔ چونکہ ان سب نے مرتے وقت دیکھا تھا ۔ پھر وہ فرشتہ دوبارہ پکارے گا !الے اہل دوزخ والو !”اہل دوزخ بھی گردنیں اٹھا کر دیکھیں گے تو فرشتہ ان سے بھی پوچھے گا :”کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟وہ کہیں گے ہاں یہ موت ہے ان سب نے بھی اسے دیکھا تھا ۔ پھر اسی وقت موت ذبح کر دی جاۓ گی اور وہ فرشتہ کہے گا اہل جنت تم ہمیشہ جنت میں رہوگے تمہیں موت نہیں آۓ گی اور الے اہل دوذخ! اب تم ہمیشہ دوذخ میں رہو گے۔ تم میں سے کسی کو اب موت نہیں آۓ گی ۔ اس سے پتا چلا کہ جومالکالموت ہے اسکی بھی موت ہوگی سواۓ اللہ کے باقی رہنے والا کچھ بھی نہیں ۔ رابعہ بصری کی زندگی دیکھتے ہے کیسی تھی وہ بھی اللہ کی نیک بندگی تھی . حسب و نسب کے لہذا سے کوئی مشہور نہیں تھی نہ ہی خوبصورتی کی وجہ سے نہ ہی امیر تھی بس وہ ایک اللہ سے ڈرنے والی تھی اسکو زندگی کی حقیقت سمجھ آئی تھی تو اسلیۓ جب اسکو حسن بصری شادی کا پیغام دیتے ہے تو وہ انکار کرتی ہے اور کہتی ہی کہ اگر آپ ان چار سوالوں کا جواب مجھے دے گے تو میں شادی کروں گی پہلا1- کیا میں جنتی ہوں یا جہنمی ۔
2.کیا میرا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جاۓ گا یا بائیں ہاتھ میں ۔
3. کیا میں پل صراط سے پار ہوجاؤ یا نہیں ۔
4. کیا جب اعمال نامہ وزن کیا جاۓ گا مری نیکیاں زیادہ ہونگی یا گناہ تو ان سب سوالات کے موقعے پر جن بصری نے فرمایا مجھے نہیں معلوم تو رابعہ بصری نے فرمایا کہ اچھا اب جاؤ مجھے ان چار باتوں کی تیاری کرنے دو مجھے شادی کیلۓ کوئی وقت نہیں ہے ۔اور جب انکو موت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنی خامہ کو بلایا اور کہاں کہ چار آدمیوں کو میرے جنازے کیلۓ بلانا اور صبح تک میری موت کی خبر کسی کو نہیں دینا اور میرا کفن مجھے وہ چارد لگانا جو میں تہجد میں لگاتی تھی تو دوسرے دن وہ اپنی خامہ کو خواب میں آئی جس میں اسکو سبز کپڑے لگا کے تھے اور چہرا چمکتا ہوا نظر آتا تھا تو اس خامہ نے انکو سوال کیا کہ آپکی وہ چادر کہاں ہے جو آپکو لگا کے تھی تو رابعہ بصری نے جواب دیا وہ اللہ نے اپنے پاس رکھی اور مجھے جنت کا جوڈا پہنا دیا اور قیامت کے دن جب اللہ میری نیکیوں کو تولے گا تو اس چادر کو بھی تولا جاۓ گا ۔اور جب انکو نکیر و منکر سوال پوچھنے آتے ہے کہ من ربک تو وہ بڑا بہترین جواب دیتا ہے کہ میں اس رب کو کیسے بھول جاؤں جس کو میں نے چالیس سال تک نہ بھلایا اور اب چارگز زمین کے نیچے آکر اس ذات کو کیسے بھول جاؤں تو نکیر و منکر بھی یہ جواب سن کر واپس چلے گۓ ۔لہذا آخرت کی تیاری ایسی ہی کرنی چاہے جیسے ہمارے سلف صالحین اور صحابہ کرام نے کی اور رابعہ بصری جیسی تیاری تاکہ کل کو قیامت کے روز ہمیں اپنے اعمال نامہ کو دیکھ کر پشتانہ نہ پڑھے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہماری موت کو آسان بناۓ اور آخر پہ کلمے حق نصیب ہو جاۓ تاکہ ہم اللہ کے محبوب بندے اور جنت کے حقدار بن جاۓ (آمین یا رب العالمین)
تحریر :حمیرا فاروق، آونیرہ شوپیان
طالب علم :جامعت البنات سرینگر
[email protected]