تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس :سلفیہ مسلم ہائرسکینڈری پرے پورہ
رابطہ نمبر :6005465614
سدا بہارِ گلستاں کی آرزو نہ کرو
خزاں بھی ایک حقیقت ہے جستجو نہ کرو
کسی کے دل کو نہ چھیڑو زباں کے نشتر سے
جُدا کرے جو دلوں کو وہ گفتگو نہ کرو
دینی مدارس سے فارغ ہونے والے اکثر طلباء خود کو فقط مسجد کے ساتھ مقید رکھتے ہیں۔ یعنی پانچ نمازوں کی امامت کرانا ان کا مقصد حیات بن جاتا ہے۔ جو کہ ایک منفی سوچ ہے۔ وقت کی تیزرفتاری کے ساتھ ساتھ علماء کرام و طلباء عظام پر ذمہ داریاں بڑھتی چلی جارہی ہیں لیکن اکثر طلباء، واعظین، مبلغین انہیں پرانے رسوم کے پیچھے پیچھے باگ رہے ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل فکر ہے کہ منبر و محراب پر ایسے لوگوں کا بھی قبضہ ہے جنہیں علم سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔
شعر و شاعری، ترنم و نغمات، اناشید و مناجات ان کا پورا سرمایہ ہے۔لوگ بھی ایسے ہی مجہول و اصاغر اصحاب کو علم سے جوڑ کا عالم بنا رہے ہوتے ہیں۔اس کا بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ راسخین فی العلم، علماء محققین کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔اور یہ مصیبت اس وقت پروان چڑھتی یے جب ان اصاغر و نعت خوانوں کے اسماء کے ساتھ "فضیلتہ الشیخ” جیسا خطاب لگاکر انہیں کبار علماء و مشائخ کی صف میں داخل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے کہ "ہر عالم خطیب تو ہوسکتا ہے پر ہر خطیب عالم نہیں ہوتا”.امت مسلمہ میں موجودہ فتنے انہیں "علم سے محروم” خطباء کی وجہ سے اپنے عروج کو پہنچ رہے ہیں۔
انسان اس وقت دنگ رہ جاتا ہے جب یہ خطیب علماء کے سامنے تقاریر کر رہے ہوتے ہیں بلکہ بعض دفعہ علماء ہی سامعین ہوتے ہیں، یہ علم کی تذلیل ہے۔ یہ علم کی تنقیص ہے۔راقم نے بڑی باریک بینی سے اس بات کا ادراک کیا ہے کہ "مرثیہ خوان خطباء” صرف و نحو کے بنیادی قواعد سے بھی جاہل ہوتے ہیں۔ قرآن پڑھنے اور عربی عبارات پڑھنے میں بڑی بڑی خطائیں کرجاتے ہیں۔لحن جلی ان کے لئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔منبر مسجد، جو کہ علم و فنون کا ماخذ سمجھا جاتا تھا، اب مرثیہ خوانی اور موسیقی کے نغمات سنانے کے لئے استعمال کئے جارہے ہیں۔ نعت خوانی اگر شرعی حدود میں ہو تو عبادت ہے، حمد و مناجات اگر شرعی حدود میں ہو تو عبادت ہے لیکن ہر عبادت کا ایک وقت، ہر عبادت کی ایک جگہ ہوتی ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
جس طرح حج کشمیر میں ادا نہیں ہوسکتا، اعتکاف بازاروں میں ادا نہیں ہوسکتا، نماز ناپاک جگہ پر ادا نہیں ہوسکتی، اسی طرح دیگر عبادات بھی اپنے شروط و آداب کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔ اور یہ بات واضح ہے کہ شریعت میں خطبہ دینا فقط ایک فن نہیں بلکہ ایک عبادت بھی ہے اور عبادات توقیفی ہوتی ہیں یعنی عبادت کی قبولیت کے لئے عبادت کا ہر ہر رکن اور ہر کیفیت کا قرآن و سنت سے ثابت ہونا لازمی ہے۔ شخص پرستی ایک مرض ہے بلکہ مرض ہلاکت جس میں مبتلا ہوکر انسان اپنے آخرت کو تباہ کر رہا ہوتا ہے۔سلف و صالحین کی طرف دیکھا جائے تو طلاب العلم اپنے مشائخ کے سامنے کتاب کی ورق گردانی سے بھی اجتناب کرتے تھے لیکن یہاں YouTube channels کو promote کرنے کے لئے انہیں ضمیر فروش خطباء کو استعمال کیا جارہا ہے۔ ایسے واعظین اکثر طلب مال، طلب شہرت اور حسد کی آگ جیسے روحانی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔یہ اشخاص ایک دھوکا دیتے پھرتے ہیں کہ "ہم طلاب العلم” ہیں۔ یہ کائنات کا بدترین جھوٹ ہے۔ان کی اکثر تعداد علماء کے سامنے بیٹھنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتی۔ راقم نے یہ بھی اچھی طرح محسوس کیا ہے کہ ایسے افراد کی "اردو لغت”بھی صحیح نہیں ہوتی جبکہ انکی کل دنیا کچھ اردو کتابیں ہی ہوتی ہیں۔ عوام کو اپنے مکرو فریب میں پھنسانے کے لئے ایسے افراد عربی کی کچھ مخصوص عبارات کو حفظ کرکے اپنی جہالت کو علم کا نام دے رہے ہوتے ہیں۔شرعی علوم سے ناواقف حضرات ایسے "شیرین بیان، مرثیہ خوان” مبلغین کو "استاد” کے لقب سے بھی یاد کرتے ہیں۔ دینی اجتماعات کے اشتہارات میں علماء کا نام چھوٹے حروف سے لکھا جاتا ہے جبکہ ان "شیریں بیان” خطیبوں کو "مہمان خصوصی” بناکر پورے حلقے پر ان کا رعب و تسلط نافذ کردیا جاتا ہے۔
امام ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ، "ان ھذا العلم دین فانظروا عمن تأخذون دینکم” یعنی، "یہ علم دین ہے لہذا دیکھا کرو تم کس سے اپنا دین لے رہے ہو”.پوری زندگی علم پر قربان کرنے والے معزز علماء گمنامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ یہ ” نعت خواں ” حضرات خود کو ہرفن مولی بناکر مساجد استعمال کرکے عوام کے دین و ایمان کو لوٹ رہے ہیں۔ نہ ان کے پاس علوم القرآن والتفسیر، نہ ان کے پاس علوم الحدیث، بعض تو ایسے بھی نمونے مارکیٹ میں ملیں گے جو وضوء اور غسل کے فقہی احکامات سے بھی واقف نہیں۔اصول الفقہ کے نام سے بھی یہ ڈرتے ہیں ، انکی جہالت کا عالم یہ ہے کہ "فقہ” جیسے عظیم باب کو بھی یہ کھولنے سے کتراتے ہیں۔اعراب و حرکات کے بغیر یہ عربی میں ایک جملہ تو دور کی بات ایک لفظ بھی نہیں پڑھ سکتے۔ صرف و نحو اور بلاغت کی باریکیاں انکے مقدر میں کہاں۔
ایک چیز ان میں common ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال یہ بڑے شاطر طریقے سے کرتے ہیں۔ ایک ایک بندہ دو دو چار چار accounts چلا رہا ہوتا ہے۔ اپنے خطبات کے اشتہار یہ خود بناتے ہیں یا انکے بعض خریدے ہوۓ غلام یہ کام کرنے پر رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک طرف سے ان کا قول ہوتا ہے کہ، "ہم عالم نہیں”، لیکن دوسری طرف یہی مجہول افراد ” افتاء کی کرسی پر بیٹھ کر محدثین، مفسرین، فقہاء کی آراء پر تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں ".یہ واضح نفاق ہے۔یہ افراد دینی خدمات کے نام پر اپنی دنیا آباد کر رہے ہیں لیکن درحقیقت یہ جہنم کی آگ اپنے پیٹوں میں بھر رہے ہیں۔فرمان ربانی ہے کہ، "اے ایمان والو! بہت سے احبار اور درویش لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں، اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیے۔” (سورہ توبہ) ایک اور بات ان میں common ہے اور وہ ہے، "علماء کی نفرت”. چونکہ یہ خود کو ” شیخ الکل فی الکل” سمجھ رہے ہوتے ہیں اسی لئے علماء کی عزت، علماء کے ساتھ رشتہ، طلب علم جیسے اوصاف انکے نصیب میں نہیں۔علماء محققین پر واجب ہے کہ وہ عوام کو ان جیسے لٹیروں سے خبردار کردے۔
قرآن کے معاملے میں یہ "تفسیر بالراے” سے کام لیتے ہیں جو کہ حرام اور صریح کفر ہے۔ احادیث کی تشریح بھی یہ اپنی عقل سے کرتے ہیں کیونکہ شروحات یہ پڑھ نہیں سکتے۔ فتح الباری، عمدۃ القاری، فیض الباری، شرح النووی، تحفۃ الاحوذی، عون المعبود، حاشیہ سندی جیسی شروحات یہ دیکھ بھی نہیں پاتے پڑھیں گے کہاں سے؟ تزکیہ نفس پر بھی یہ سلف کا کلام نقل نہیں کرسکتے کیونکہ ابن قیم رحمہ اللہ، ابن رجب رحمہ اللہ، ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ، ابن الجوزی رحمہ اللہ،حسن بصری رحمہ اللہ کی تعلیمات عربی لغت میں موجود ہے۔ انکی ایک اور پہچان بن چکی ہے کہ Facebook پر انکے نام کے ساتھ official لکھا ہوتا ہے۔
علماء تواضع اور عاجزی کے نمونے ہوتے ہیں جبکہ یہ افراد فخر و غرور کی آگ میں جل رہے ہوتے ہیں۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "یقیناً آج یہ دور ہے جس میں علماء زیادہ اور خطباء کم ہیں۔۔۔ ایسی صورت حال میں جس شخص کو جوعلم و معرفت ہے اس میں سے دس فی صد بهی چهوڑ دے گا تو گمراہ ہوگا۔ مگر ایک زمانہ اس کے بعد بهی آنا ہے جس میں خطباء زیادہ اور علماء برائے نام ہوں گے۔ اس دورمیں جو شخص اپنے علم کے مطابق دس فی صد کو بهی تهام لے گا تو نجات پا جائے گا۔”(علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو الصحیحہ ، رقم الحدیث 2510 کے تحت نقل کیا ہے) قرون اولیٰ میں علم ناقص نہیں تها خالص تها اس میں زمانہ کے نام نہاد علماء کی مو شگافیاں نہ تهیں۔ آج ہم اپنے ارد گرد ایسے وسائل و ذرائع ابلاغ پاتے ہیں جس میں ہر شخص کچھ نہ کچھ خطاب کر رہا ہوتا ہے۔ خطیب،مخاطب کو کیا کہنا چاہ رہا ہے شاید اس کو خود بهی علم نہیں۔
رسول کریمﷺ کا فرمان ہے کہ، "اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے لوگوں (کے سینوں) سے کھینچ لے لیکن وہ علم کو اہل علم کی وفات کے ذریعے سے اٹھائے گا حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے۔ جب ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘(صحیح بخاری: 100، صحیح مسلم: 6800) فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "مکر و فریب والے سال آئیں گے، ان میں جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا، خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن، اور اس زمانہ میں «رويبضة» بات کرے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: «رويبضة» کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حقیر اور کمینہ آدمی، وہ لوگوں کے عام انتظام میں مداخلت کرے گا“۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، حدیث صحیح) ایک اور حدیث ذکر کرنا یہاں مناسب رہے گا کہ رسول رحمتﷺ نے فرمایا کہ، "قیامت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اصاغر یعنی نالائق افراد سے علم حاصل کیا جائے گا”.(صحیح الجامع)
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے اَبلہِ مسجد ہُوں، نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہَلاہِل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
مذکورہ حالات میں اب علماء پر بعض ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کا بیان مختصراً آرہا ہے۔
(۱) سوشل میڈیا کا استعمال—————–
باطل کا ابطال کرنے کے لئے ہمارے پاس alternatives موجود ہیں۔ جو ہتھیار وہ باطل کی ترویج اور اپنی تشہیر کے لئے استعمال کررہے ہیں انہیں ذرائع ابلاغ کو استعمال کرکے انکے مکر و فریب کا پردہ چاک کیا جاسکتا ہے۔ ہم سوشل میڈیا سے ایسی بری طرح جڑ گئے ہیں کی اب دن کا فارغ حصہ بھی اسی سرگرمیوں میں گزار دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا سے جہاں ہم اچھے مقاصد سرانجم دے سکتے ہیں وہاں اس کے نقصانات بھی موجود ہیں۔ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال عصر حاضر میں علماء کے لئے لازمی بن گیا ہے۔ قرآن و سنت کی ترویج کے لئے سوشل میڈیا موجود تمام وسائل میں بہترین تصور کیا جاتا ہے۔ Facebook، whatsApp, twitter, YouTube, telegram جیسے سافٹوئیر کے مثبت استعمال سے قرآن و سنت کی خدمت کی جاسکتی ہے۔
(۲) مساجد میں علمی دروس و حلقات———–
وقت کا تقاضا ہے کہ اجتماعات کے ساتھ ساتھ علمی دروس منعقد کئے جائیں جن میں مختلف عناوین پر سامعین کو باخبر کیا جائے۔ عقائد، عبادات، معاملات، اخلاقیات، سیاست، معشیت، شرعی قانون کے متعلق عوام کو باخبر کیا جائے۔ workshops کا انعقاد کیا جائے۔ حرمین کی طرح اپنے اپنے علاقاجات میں علم کی فضا قائم کریں۔علماء کے ساتھ ساتھ طلباء پر بھی لازم ہے کہ اپنے مشائخ کی رہنمائی میں ان programs میں حصہ لیں۔مسجد اہل ایمان کے لئے parliament اور supreme Court کی حیثیت رکھتی ہے۔
(۳) آن لائن دروس کا انعقاد————
مساجد کے ساتھ ساتھ آن لائن دروس کا انعقاد کیا جائے تاکہ ہم بھی کسی حد تک اپنے فرائض ادا کرلیں۔covid-19 لاک ڈاؤن کے بعد کسی حد تک علماء کا دھیان اس طرف گیا ہے لیکن اس field کو وسعت دینے کہ ضرورت ہے۔ آج مختلف سافٹوئیر (softwares) کے ذریعے اس فریضہ کو ادا کیا جاسکتا ہے جیسے zoom, wise وغیرہ۔
(۴) مساجد معتبر فارغین کے حوالے کردئیے جائیں————–
مساجد کسی نہ کسی دینی تنظیم اور جماعت کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں۔ دینی جماعتوں پر واجب ہے کہ مساجد میں ایسے افراد کو امامت اور خطابت کے لئے انتخاب کیا جائے جو دینی علوم اور کسی حد تک عصری علوم پر نظر رکھتے ہوں، معیار قرآنی تعلیم اور سنن کی تعلیم ہو جیسا کہ احادیث سے یہ بات ثابت ہے۔ آج علماء کو مساجد میں ٹکنے نہیں دیا جاتا جبکہ نامعلوم افراد منبروں پر راج کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ مساجد اور مدارس کسی کی ذاتی property نہیں ہوتی بلکہ یہ عوام کے پیسوں پر چلتے ہیں کسی کے ذاتی خرچہ پر نہیں۔ مساجد کے منتظمین بھی اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ حق والوں کو ان کا حق دیا جائے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "جب حکمرانی اور سرپرستی نالائق لوگوں کو سونپ دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر۔” (صحیح بخاری)
(۵) دینی جماعتوں کا اپنا press ہو———–
یہ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔عصر حاضر میں تصنیف و تالیف اپنے عروج پر ہے۔ مستشرقین و منھجی خرابیوں میں مبتلا افراد اپنے افکار کو print media اور electronic media کے ذریعے پھیلا رہے ہیں۔ اب ان کا تعاقب کرنے کے لئے دینی جماعتوں کے پاس press اور print media کا ہونا لازمی ہے۔کتابوں کی نشر و اشاعت کے لئے printing press کا ہونا بھی ضروری ہے۔
(۶)اصاغر پر نظر رکھیں————–
یہ مرکزی قیادت کے ساتھ ساتھ ضلعی قیادت پر بھی واجب ہے کہ انکی نگرانی میں جو دینی programs منعقد ہورہے ہیں، ان میں مخاطب کیسے ہیں اور خطیب کون ہے۔دس پندرہ سال یاد کم سے کم سات آٹھ سال دینی مدارس میں گزارنے والے طلباء پر ذہنی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔کیونکہ انہیں اپنی صلاحتیوں کو بروۓ کار لانے کا موقع نہیں ملتا۔ یہاں یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ رزق دینے والا تو اللہ کہ ذات ہے۔۔۔۔۔ لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی ہے کہ توکل میں اسباب اختیار کرنا لازمی امر ہے اور اسباب پہلے سے ہی ظالموں نے مٹا کے رکھے ہیں۔ دوسری جانب جو افراد شرعی علوم سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتے وہ غم روزگار میں مبتلا ہوکر اپنی چرب زبانی سے اور اپنی شاطر چالوں سے منبر کی زینت بننے میں ذرا بھرا بھر بھی اللہ سے نہیں ڈرتے۔
(۷) ائمہ اور مدرسین کی تنخواہ پر نظرثانی———-–
ائمہ کرام اور مدرسین کا مرتبہ اللہ کے ہاں سب سے بلند ہے۔ کیونکہ یہ انبیاء کے وارث، دین کے representatives ہوتے ہیں۔فرشتے انکے لئے اپنے پر بچھا کے رکھتے ہیں۔ سمندر کی مچھلیاں بھی انکے لئے دعاء مغفرت کرتی رہتی ہیں ، اللہ تبارک وتعالیٰ انکا ذکر اپنے دربار میں کرتا ہے۔ لیکن بنی آدم ابھی تک علماء کا مرتبہ نہیں پہچان سکے۔ امام صاحب، مدرس صاحب کی قلیل تنخواہ پر سب کی نظریں ہوتی ہیں۔یہ ہمارے لئے باعث شرم ہے۔قابل صلاحیت ائمہ اور مدرسین اسی لئے دینی مدارس سے کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں کیونکہ معاشی طور پر ان کا استحصال بری طرح ہورہا ہے۔ جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے تنخواہ میں اضافہ کرکے انکی بے بسی کا ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے۔
(۸) تنفیر سے بچیں———————
ایک دوسرے پر تبراء کرنے سے بچیں۔اختلافی مسائل میں وسعت قلبی کا اظہار کریں۔ فقہی مسائل پر ایک دوسرے پر فتویٰ بازی کرنے سے بچیں۔ حسن اخلاق اور دیگر اخلاق ممدوحہ اپنے اندر پیدا کریں۔اجتھادی اختلاف کو برداشت کرنے کی قوت پیدا کریں۔ اسی طرح اپنا اخلاق مزین کریں، اپنا لباس شریعت کے حدود میں پہنے،آپکی ہر ادا قرآن و سنت کی عین تفسیر ہو۔ عالم اور غیر عالم کے لباس میں اگرچہ شریعت نے کوئی تفریق نہیں کی ہے ،بلکہ لباس میں نیک اور صلحاء کی مشابہت اختیار کرنا اسلاف سے منقول ہے۔ خلوت کی پاکی اور جلوت کی صفائی کا خصوصی خیال رکھیں۔
(۹) جدید فتنوں کا تعاقب کیا جائے———–
توحید و سنت کی خدمات میں یہ بھی شامل ہے کہ عصر حاضر میں جو فتنے اہل ایمان پر حاوی ہورہے ہیں ان کا تعاقب کیا جائے تاکہ امت مسلمہ اپنی شناخت کو برقرار رکھ سکیں۔ اگر دنیا میں انسان مذہبی اور دینی اعتبار سے صحیح سمت پر ہو تو یہ اس کے دنیاوی طور پر خوش حال اور آخرت میں کامیاب ہونے کی علامت ہے، ایک مسلمان کا سب کچھ اس کا دین ہوتا ہے، لہذا اگر کوئی سستی اور کوتاہی کرتے ہوئے اپنے دین کو فتنوں سے نہ بچائے تو وہ خسارے میں ہے، دوسری طرف اگر اپنے دین کو فتنوں سے محفوظ رکھے تو وہ کامیاب و کامران ہے۔ شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ، "مسلمانوں کے ہاں سر اٹھانے والے فتنوں کے حالات کا اچھی طرح سے مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ: کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جسے ان امور میں دخل اندازی کا فائدہ ہوا ہو؛ کیونکہ ایسے امور میں دخل اندازی کا دینی اور دنیاوی ہر اعتبار سے نقصان ہوتا ہے، اسی لیے اسے شریعت میں منع قرار دیا گیا ہے”.امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ، "تم صرف اسی کو اپنا دوست بناؤ جس کا دین اور امانت تمہیں پسند ہو؛ کیونکہ اگر تم ایسے شخص سے دوستی کرو گے تو وہ تمہیں اپنے دین اور مذہب کی جانب لے جائے گا، اس لیے کسی ایسے شخص سے دوستی کر کے اپنے دین کو خطرے میں مت ڈالوجس کا دین اور مذہب تمہیں پسند نہیں ہے”. جدید فتنوں میں خارجیت، مرجئت، الحاد، دھریت (Atheism) ، اسلام دشمنی (Islamophobia) ، تحریک نسواں (feminism) وغیرہ بڑی تیزرفتاری سے بڑ رہے ہیں انکا رد کرنا علماء پر لازمی امر ہے۔
(۱۰) پردہ پوشی کرنے والا بنیں—————
جب کسی عالم، مبلغ، واعظ، خطیب سے کوئی مسئلہ پوچھا جائے تو وہ شریعت کی حدود میں رہ کر اس سؤال کا جواب دے۔ کسی کے ذاتی مسئلے کو یا کسی کے ذاتی راز کو منبر پر اپنے خطبے میں موضوع سخن نہ بناۓ۔ نکاح کی محفل ہو، جمعہ کا بیان ہو، یا کوئی عام خطاب ہو کبھی بھی کسی کے ذاتی مسئلہ کو نہ تو اشارۃً بیان کریں اور نہ ہی کنایۃً۔
"Give me 100 preachers who fear nothing but sin and desire nothing but God; such alone will shake the gates of hell”.
اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ قوم کے واعظین کی اصلاح کرے تاکہ امت مزید فتنوں میں مبتلا نہ ہو جائے۔ آمین یا رب العالمین۔