الف عاجز اعجاز
کلسٹر یونیورسٹی سرینگر
مبینہ گھر کے کاموں میں مصروف تھی کہ نبیل باہر سے ہی اس کو آواز لگاتا چلا آیا اور خوشی خوشی اس کو بچہ تھماتے ہوئے کہنے لگا کہ دیکھو میں بچہ لے کر آیا ہوں اب ہمارے گھر میں بھی بچے کے کلکاریاں گونجے گی۔ اب بچے کی آمد سے ہمارا گھر بھی جنت بن جائے گا۔
بچہ! اس کو کہاں سے لے آئیں ہیں اور کیوں لے کر آئیں ہیں۔ مبینہ بچے کو دیکھ کر نبیل سے مخاطب ہوئی۔
ہسپتال سے لے کر آیا ہوں اور کیا مطلب کیوں لے کر آیا ہوں۔ گود لیا ہے اس کو، اب یہ ہمارا بیٹا ہے، ہمارا لاڈلا۔ نبیل نے خوشی خوشی جواب دیا۔
لیکن آپ کو بچہ گود لینے کی کیا ضرورت تھی نبیل۔ وہ بھی ایسے ہی نہ اس کا حسب و نسب پتہ ہے اور نہ خاندان کا۔
ایسے ہی نہیں لایا ہوں اس کے باپ کو ساتھ لے آیا ہوں وہ باہر کھڑا ہے جاکر اس کو کچھ کھلا پلا دو۔
نبیل آپ کا دماغ خراب تو نہیں ایک تو بنا سوچے سمجھے بچہ لے آئیں اور اوپر سے اس کے باپ کو بھی ساتھ لے کر آگئے۔ کل کو وہ اس پر حق جمانے آگئے تو کیا کریں گے تب۔
کچھ نہیں ہوگا تم خوامخواہ گھبرا رہی ہو۔ میں نے جو کچھ بھی کیا ہے بلکل سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ ڈاکٹر نے ہی تو کہا تھا نا کہ تم ماں نہیں بن سکتی ہو کبھی تو تمہارے اسی غم کو کم کرنے کے لئے یہ بچہ لایا ہوں تاکہ تم خود کو بچے کے بنا نامکمل محسوس نہ کرو۔
آپ کی پروا جائز ہے نبیل لیکن کسی پرائے کے بچے کو گود لینا مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا اور اوپر سے آپ نے اس کے باپ کو اپنا ٹھکانہ بھی دکھا دیا۔
کچھ نہیں ہوگا تم لو جاکر اس کو نہلاؤ میں اس کے باپ کو کچھ چائے وغیرہ دے کر آتا ہوں۔
مبینہ اور نبیل گھر میں بچہ آنے کی وجہ سے کافی خوش تھے اور ہر وقت دونوں اپنے بیٹے عاطف کے ساتھ کھیلتے رہتے، اُس کو ہنستا دیکھ کر دونوں خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ وقت گزرتا گیا اور عاطف بھی بڑا ہوتا گیا اور نبیل اور مبینہ اُس کی ہر جائز ناجائز خواہش پوری کرنے میں کوئی کثر باقی نہیں چھوڑتے۔ اب اُن کا بیٹا اٹھارہ سال کا ہوچکا تھا اور وہ دونوں خوش تھے کہ بیٹا جوان ہوگیا ہے وہ اب اُن کا سہارا بنے گا، اُن کے بڑھاپے کی لاٹھی۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ڈر بھی رہے تھے کہ کہیں وہ اُنہیں چھوڑ کر چلا نہ جائے کیونکہ جوان ہونے کے ساتھ ساتھ وہ دونوں سے بیزار رہنے لگا تھا اور اگر دونوں اُس کی کوئی خواہش پوری کرنے میں تاخیر کرتے تو ہنگامہ کھڑا کر دیتا تھا۔
عاطف نے بارہویں جماعت کا امتحان پاس کیا تو نبیل اور مبینہ نے اس کے سامنے اس کو ڈاکٹر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو وہ بھڑک اُٹھا۔
بیٹا دیکھو ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ تم ایک اچھا مقام حاصل کرو اسی لئے تمہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں اس میں ناراض ہونے والی کون سی بات ہے اور اگر تم کچھ اور بننا چاہتے ہو تو بتا دو ہم سوچتے ہیں۔ مبینہ نے پیار سے اس کو سمجھانے کی کوشش کی۔
ڈاکٹر! میں ڈاکٹر بن کر کیا کروں گا مجھے اب آگے نہیں پڑھنا میں کاروبار کرنا چاہتا ہوں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتا ہوں۔ عاطف نے اپنی ماں کو دو ٹوک جواب دیا
مبینہ: لیکن بیٹا تمہاری عمر پڑھائی کی ہے کاروبار کرنے کی نہیں۔ تم اپنی پڑھائی جاری رکھو۔
عاطف: پڑھ کر کیا کروں گا رہوں گا تو وہی نا جو ہوں، تو بہتر ہے نا جو پیسے آپ لوگ میری پڑھائی پر لگانا چاہتے ہیں وہ میرے کاروبار پر لگا دیجئے۔
مبینہ: لیکن بیٹا تمہیں کاروبار کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
عاطف: کیوں کیا چاہتی ہو ہمیشہ در بہ در پھرتا رہوں۔ میں آپ دونوں کا اپنا بیٹا ہوتا تو کبھی مجھے یوں روکتے نا، گود لیا ہوا ہوں نا اسی لئے میری ترقی آپ لوگوں سے برداشت نہیں ہوتی۔
مبینہ: کیا! یہ سب تم سے کس نے کہا کہ تم ہماری اپنی اولاد نہیں۔۔۔۔۔۔۔
عاطف: بند کرو اپنا یہ ڈرامہ، میں سب جانتا ہوں، میرے اصلی ماں باپ کون ہے اُن سے بھی ملا ہوں، انہیں تو میرے کاروبار کرنے سے کوئی مسلئہ نہیں ہے پھر آپ دونوں کیوں اعتراض کر رہے ہیں۔ اپنے اور پرائے میں یہی فرق ہوتا ہے۔
مبینہ: کیا پرایہ، تم اب ہمیں پرایہ سمجھتے ہو، وہ جس نے تمہیں بچپن سے لے کر آج تک سینے سے لگائے رکھا وہ تمہارے لئے ایک پل میں پرائی ہوگئی۔
عاطف: ہاں، یہی سچ ہے آپ لوگ میرے اپنے نہیں اگر آپ سچ میں میری اپنی ہیں تو مجھے ایک لاکھ دے دیجیے کاروبار کے لئے۔
مبینہ: کیا ایک لاکھ! لیکن ہم ایک لاکھ لائیں گے کہاں سے۔۔۔۔۔
عاطف: اُسی خزانے سے، جس میں سے خرچ کرکے مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتی تھی۔
مبینہ: نہیں بیٹا ہم اتنی بڑی رقم نہیں دے سکتے۔
عاطف: دینا تو پڑے گا ورنہ میں اپنے گھر واپس چلا جاتا ہوں۔
مبینہ اور نبیل نے بڑی مشکل سے رقم اکٹھی کرکے عاطف کو دے دی، یہ سوچ کر کہ اب کاروبار کرکے ہی خوش رہے گا تو یہی سہی۔ لیکن کچھ مہینوں بعد ہی وہ سب کچھ چھوڑ کے چلا آیا اور ۹۰ ہزار کا مطالبہ کرنے لگا یہ کہہ کر کہ اُس کو کرناٹکا میں جاب مل گئی ہے وہی جا کر رہے گا اور ایک بار پھر انہوں نے بڑی مشکل سے رقم جمع کرکے بیٹے کو کرناٹکا بھیج دیا۔ لیکن وہاں بھی وہ مستقل نہیں رہا اور دو مہینے بعد ہی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس چلا آیا یہ کہہ کر کہ وہاں میری جان کو خطرہ تھا بڑی مشکل سے جان بچا کر آیا ہوں۔ مبینہ اور نبیل نے اُس کی بات پر یقین کر لیا اور شکر ادا کرنے لگے کہ بیٹا صحیح سلامت ہے پیسے چلے گئے تو کوئی بات نہیں۔
لیکن اِس سب کے باوجود بھی اُس نے دونوں کو نہیں بخشا ہر دفعہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر دونوں کو لوٹتا رہتا تھا اور دونوں بھی اُس کی محبت میں سب کچھ نظر انداز کرتے رہے اور اُس کو معاف کر دیتے تھے۔ اگر کبھی دونوں اُس کو کسی بات پر روکتے یا پیسے دینے سے منع کرتے تو دونوں کی شدید مار پیٹ کرتا تھا لیکن پھر بھی دونوں بچہ سمجھ کر اُس کو معاف کر دیتے تھے۔
عاطف اب اتنا بےحس ہوچکا تھا کہ اب لوٹ مار کرنے لگا تھا۔ اور اس کے ماں باپ کو اب اس سے کچھ بھی کہنے سے ڈر لگتا تھا۔ ایک دن وہ نبیل کا بینک لوٹ کر چلا گیا تو تمام عزیزوں کی رائے پر مبینہ اور نبیل نے باضابطہ اعلانیہ طور اس کو اپنے آپ سے بے دخل کر دیا۔ اس کے بعد وہ دونوں ہر وقت بیٹے کی یاد میں تڑپتے رہتے تھے، اُس کو یاد کر کر کے روتے رہتے تھے۔۔۔ کہ ایک دن اچانک وہ لوٹ آیا اور مبینہ سے کہنے لگا میں نے سُنا ہے آپ دونوں نے مجھے برطرف کر دیا ہے۔ آپ لوگوں میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی۔ جس کسی نے بھی یہ سب کروایا ہے میں اس کو تو چھوڑوں گا نہیں لیکن آپ لوگ ایسا کیسے کر سکتے ہیں وہ بھی اپنے بیٹے کے ساتھ، میں تو آپ کا لاڈلا ہوں نا پھر یہ سب آپ نے کیوں کیا، مائیں ایسی تو نہیں کیا کرتی، پھر آپ نے ایسا کیوں کیا۔
کیونکہ تم نے ہمیں اپنی حرکتوں سے یہ سب کرنے پر مجبور کر دیا۔ ہم نے کیا کچھ نہیں کیا تمہارے لیے، کس چیز کی کمی تھی جو تم ہماری ساری جمع پونجی لوٹ کر چلے گئے۔ مبینہ اس سے شکوہ کرنے لگی۔
تو عاطف ہاتھ جوڑ کر اس سے کہنے لگا میں تو ناداں ہوں اور نادانی میں یہ سب کر گیا لیکن آپ تو ماں ہے نا کیا مجھے معاف نہیں کرسکتی، میں آپ لوگوں کے بنا نہیں رہنا چاہتا۔ مجھے معاف کر دیجیے اور رونے لگا۔
مبینہ نے محبت میں آکر اُس کو گلے سے لگا لیا اور نبیل سے اُس کو دوبارہ رکھنے کی سفارش کرنے لگی لیکن نبیل اب اُس کو رکھنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ مبینہ نے منتیں سماجتیں کر کے اُس کو منا لیا اور پھر سے اُس کو اپنے ساتھ رکھ لیا تو اُس کی اِس حرکت پر سب لوگ اُس سے ناراض ہوگئے لیکن اُس نے کسی کی پرواہ نہ کی۔ عاطف کچھ دنوں تک تو ٹھیک رہا لیکن پھر سے وہی حرکتیں کرنے لگا۔
اب کی بار اس نے آکر اپنی ماں سے کہا میں نے اپنی حقیقی ماں کے رشتے کی بیٹی روبی سے کورٹ میرج کر لی ہے اور جلد ہی اس کو لے کر یہاں آؤں گا پھر ہم سب ساتھ رہے گے اور بہو کے آنے سے آپ کو بھی آرام ملے گا۔
لیکن مبینہ نے اِس شادی کو ماننے سے انکار کر دیا تو اُس کو زخمی کر کے وہ وہاں سے چلا گیا اور کچھ وقت بعد اپنی بیوی کو لے کر چلا آیا اور رونے کا ڈھونگ مچا کر مبینہ اور نبیل کو اُس سے رکھنے کے لئے منا لیا۔
لیکن بیوی بچہ ہونے کے باوجود بھی اُس میں کوئی سدھار نہیں آیا وہ ویسے کا ویسے ہی رہا۔ وہ آتا رقم لیتا اور کئی کئی دنوں تک اپنی بیوی بچے کے ساتھ غائب ہو جاتا۔ مبینہ اُس کی زیادتیوں کو خاموشی سے سہہ کر اندر ہی اندر ختم ہوتی گئی اور بلآخر ہسپتال پہنچ گئی لیکن وہ اُس کو وہاں بھی اکیلا چھوڑ کر چلا آیا اور جب وہ ٹھیک ہوکر گھر آگئی تو پھر سے اپنے پن کا ناٹک کرنے چلا آیا۔
وہ بار بار اس کو مہینوں مہینوں کے لئے اکیلا چھوڑ کر چلا جاتا اور مبینہ محبت کی ماری اس کی ہر غلطی پر پردہ ڈالتی رہتی اور اس کو معاف کر دیتی تھی۔
بیٹے کی بار بار نافرمانیوں کی وجہ سے وہ اندر ہی اندر ختم ہوتی گئی اور آخر کار بسترِ مرگ پر پہنچ گئی۔ وہ بیمار اپنی آخری سانسیں گن رہی تھی اور اس کے لاڈلے کو اس وقت بھی پیسوں کی فکر تھی۔ آخری بار بیٹے سے ملنا چاہ رہی تھی اور اس کو فون کر کے بلانے لگی۔
مبینہ: ہیلو بیٹا میں بہت بیمار ہوں۔ تم گھر چلے آؤ تمہارے بچے کو دیکھنے کے لئے میری آنکھیں ترس گئی ہے۔
عاطف: میں نہیں آسکتا، میں کشمیر سے باہر ہوں اور گھر آنے کے لئے میرے پاس پیسے نہیں، دس ہزار بھجوا دو میں چلا آؤں گا۔
مبینہ: بیٹا میں بستر پر پڑی ہوں، اپنے آپ پانی تک نہیں پی سکتی تمہیں پیسے کہاں سے بجھواؤں۔ میرے پاس تو اب خود کے علاج کے لئے پیسے نہیں، تمہیں کیا بجھواؤں گی۔
عاطف: میں کچھ نہیں جانتا مجھے پیسے چاہیے اور اگر تم نے پیسے نہیں بھیجے تو چھوڑوں گا نہیں تمہیں رات کو آکر بتاتا ہوں۔
مبینہ کی حالت دن بہ دن بگھڑنے لگی تو اُس کو ہسپتال لے جایا گیا۔ اور وہاں ڈاکٹروں نے تیمارداروں کو بتایا کہ وہ لگ بھگ ختم ہوچکی ہے اُن کے دل نے کسی گہرے صدمے کی وجہ سے ٹھیک سے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اس کا بچنا محال ہے آپ دعا کیجیے ہم کوشش کریں گے اور بلآخر اگلے دن مبینہ بیٹے کا غم کو دل میں دفنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنی آنکھیں بند کر لی۔