تحریر: حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس:سلفیہ مسلم انسٹیٹیوٹ پرے پورہ
رابطہ :6005465614
وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا
رسول اللہﷺکا فرمان ہے،” لم تُر المتحابین مثل النکاح”. ترجمہ
’’دو فریقین میں نکاح سے زیادہ محبت پیدا کرنے والی کوئی چیز نہیں دکھی”.(مشکاۃ شریف)
نکاح کی عظمت کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ ،”جب بندہ مومن نکاح کرتا ہے تو اس کا آدھا دین مکمل ہوجاتا ہے پس اسے چاہیے کہ باقی نصف کے متعلق اللہ سے ڈرے”.تکمیل دین ایک اعلی عظمت ہے جو نکاح کے فریضے سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔اسی لئے سیدنا ابن مسعود فرمایا کرتے تھے کہ ،”اگر میری زندگی کے صرف دس روز رہ جائیں، تب بھی میں شادی کرلینا پسند کروں گا، تاکہ غیر شادی شدہ حالت میں خدا کو منہ نہ دکھاؤں‘‘۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ،”’نکاح کرلو، کیونکہ ازدواجی زندگی کا ایک دن غیر شادی شدہ زندگی کے اتنے اتنے برسوں کی عبادت سے بہتر ہوتا ہے”.تکمیل دین کے ساتھ ساتھ بندہ مومن بدنگاہی اور فعل حرام سے بچ جاتا ہے ،نفسانی خواہشات کی تکمیل حلال طریقے سے کی جاتی ہے جیسا کہ فرمان نبوی صلی علیہ وسلم ہے کہ ،”اے جوانو!تمہیں نکاح کرلیناچاہیے، کیونکہ یہ نگاہ کو زیادہ جھکانے والا اور شرمگاہ کی زیادہ حفاظت کرنے والا ہے،اور جو اس کی طاقت نہ رکھے وہ روزے رکھے”.سلف صالحین کے ہاں ایسا شخص مسکین ہوتا جو صاحب استطاعت ہونے کے باوجود بانکاح نہ ہوتا ۔انبیاء کرام کی مشترکہ سنتوں میں نکاح بھی شامل ہے۔نکاح کرنا حصول تقوی کی عظیم چابی ہے ۔شریعت اسلامیہ نے رہبانیت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے ۔شرم و حیا اور کردار کی حفاظت کے لئے نکاح ایک لازمی عنصر ہے ۔یاد رہے رب العالمین نے بدنگاہی ،بدفعلی ،فحش گوئی ودیگر ناشائستہ اخلاق سے بچنے کے لئے نکاح کو بطور علاج نازل کیا ہے جو مراد دوسری عبادات سے حاصل نہیں ہوسکتی ۔ علامہ شاطبیؒ اپنی مشہور زمانہ کتاب الموافقات میں شریعت کے پانچ مقاصد ذکر فرمائے ہیں ۔حفاظتِ دین ، حفاظتِ عقل، حفاظتِ جان،حفاظتِ نسب، حفاظتِ مال. ان میں دین کا ایک بہت بڑا مقصد نسب کی حفاظت ہے ،جو کہ نکاح کے ذریعے محفوظ کیا جاتا ہے، اگر نکاح کا عمل مفقود ہوجائے تو دین کا ایک بہت بڑا مقصد ادھورا رہ جائے گا ۔ نسب کی حفاظت شریعت کا ایک مستقل اور تفصیلی موضوع ہے جس پر قرآن کریم ،احادیث مقدسہ اور فقہائے کرام نے تفصیلی کلام فرمایا ہے اور بہت سے باریک مسائل کا تعلق اس مقصد سے ہے ، جن میں تبدیلی شریعت کی رو سے گوارہ نہیں ۔ نکاح ایک ایسا عمل ہے جو دو ایسے خاندانوں کو بھی آپس میں جوڑ دیتا ہے جو ایک دوسرے سے ناواقف ہوتے ہیں ؛لیکن نکاح ہوتے ہی وہ آپس میں رشتہ دار کہلاتے ہیں ۔ ان کی اجنبیت کا تعلق محبت اور ہمدردی کے تعلق میں بدل جاتا ہے۔ آگے جاکر یہ خاندان بہت سے مسائل کا ایک ہوکر سامنا کرتے ہیں ۔
عصر حاضر کے نکاح مسلسل ناکامی کا سامنا کررہے ہیں اور طلاق و خلع کی شرح حد سے تجاوز کر گئی ہے ۔جسکی کچھ بنیادی وجوہات ہیں جن کی طرف اختصاراً اشارہ کیا جارہا ہے ۔
(1) نکاح بغرض تجارت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتابی دنیا سے نکل کر زمینی حقائق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح اب تجارت کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔فریقین کی طرف سے بڑھتی ہوئی مانگوں نے نکاح کو فقط سودی کاروبار کی شکل میں مقید کردیا۔جبکہ نکاح کو حصول سکون کا موجب قرار دیا گیا تھا لیکن جب بنیاد ہی بغرض حصول مال و متاع ہو تو عدم سکون لازمی نتیجہ ہے ۔نوجوان ملت قرض لے کر ،بینکوں سے سود پر قرضہ لے کر اس فعل کو انجام دیتے ہیں جو کہ قابل مذمّت ہے ۔فرمان ربانی ہے کہ ،”اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تم میں سے جوڑے بنائے، تاکہ تم ان سے آرام پکڑو اور تم میں محبت اورنرمی رکھ دی”.(سورہ روم)
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
(2)مہر کے نام پر ڈکیتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ مہر کی ادائیگی نکاح کے بنیادی ارکان میں شامل ہے لیکن اپنی من مانیوں سے مہر کو بھی لوٹ مار کی شکل دی گئی ۔جہیز پر بات کرنے والے یہاں خاموش کیوں ہوجاتے ہیں ؟ جہیز کی طرح مہر میں استحصال بھی باطل ہے ۔کتنے ہی باکردار نوجوان ایسے ہیں جن کے پاس روزگار بھی ہے ،صلاحیت بھی ہے ،اپنے ہم سفر کی ضروریات پصصتصصتصصتوری کرنے کی قدرت بھی ہے لیکن مہر کے نام پر لڑکے سے دس دس ،پچاس پچاس لاکھ کی مانگ کرنا کون سا دین ہے ؟ اگرچہ حسب استطاعت مہر کی ادائیگی کی جاسکتی ہے لیکن یہاں اس طبقے کی بات ہورہی ہے جن کے پاس ایسے وسائل موجود نہیں کہ کروڑوں روپے مہر کی رقم ادا کرسکے ۔نتیجہ لازمی طور پر اخلاقی گراوٹ کی شکل میں سامنے آئے گا۔۔۔۔۔۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ،”جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کاپیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہوتو اس سے شادی کردو۔ اگر ایسا نہیں کروگے توزمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپاہوگا”.(سنن ترمذی)
(3)عدم افہام وتفہیم (misunderstanding)
نکاح کرنے سے پہلے فریقین پر واجب ہے کہ ایسی بنیادی چیزوں کی وضاحت کی جائے جو بعد میں تشویش کا باعث نہ بن سکے ۔لڑکے میں کوئی عیب ہو،کوئی عادت ہو اسی طرح لڑکی میں ایسا کوئی معاملہ ہو ۔۔۔ان چیزوں کو صفائی کے ساتھ نکاح سے پہلے بیان کردینا چاہئے تاکہ نکاح کے بعد دو زندگیاں تباہ نہ ہو جائیں ۔عصر حاضر میں نکاح کے چند دن بعد ہی طلاق کے مطالبے کئے جاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ دھوکہ ہوتا ہے یعنی ایسا سچ جو چھپایا گیا ہو۔کتنے ہی اہل ثروت گھروں کی خوشیاں ختم ہوگئی ،کتنے ہی باعزت خاندان رسوا ہوگئے ۔۔۔وجہ بس یہ ہے کہ نکاح سے پہلے بنیادی چیزوں کو نظر انداز کردیا گیا ۔نکاح میں کروڑوں روپے خرچ کرکے ،رقص و سرور کی محفلیں منعقد کرکے ،اختلاط کی لعنت کو رونق بخش کر نکاح کامیاب نہیں ہوتے۔کامیابی اسی میں ہے کہ تمام عیوب و محاسن سامنے رکھے جائیں ۔
(4)علم نکاح کا فقدان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح کرنے سے پہلے لازم ہے کہ شریعت کی مبارک تعلیمات کی روشنی میں زوجین کے حقوق کی معرفت حاصل کی جائے ۔یہاں معاملات اس کے برعکس ہیں۔یہاں نکاح خواں کو دو ہزار روپے دے کر اپنی لادینی پر پردہ کیا جاتا ہے ۔لیکن فریقین نکاح کے اصل مقصد سے غافل ہوتے ہیں ۔راقم نے ایسے کئی گھر دیکھے جنہوں نے نکاح پر اپنی عمر بھی کی کمائی خرچ کردی بلکہ قرضے میں ڈوب گئے لیکن حال یہ ہے کہ نکاح کے عظیم بندھن میں بندھنے والے غسل کرنا بھی نہیں جانتے۔یہ تو بنیادی مسئلہ ہے دیگر معاملات کا کیا حال ہوگا۔حجتہ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے سامنے یہ وصیت رکھی کہ،”وَاسْتَوْصُوْا بِالنِّسَآءِ خَیْرًا، فَاِنَّهُنَّ عَوَانٍ لَکُمْ لَا یَمْلِکْنَ لِاَنْفُسِهِنَّ شَیْئًا، فَاتَّقُوا ﷲَ فِی النِّسَآءِ، فَاِنَّکُمْ اَخذْ تُمُوْهُنَّ بِاَمَانِ ﷲِ، وَاسْتَخْلَلْتُمْ فُرُوْجَهُنَّ بِکَلِمَاتِ ﷲِ.”. ترجمہ ،”عورتوں سے بہتر سلوک کرو کیونکہ وہ تو تمہاری پابند ہیں اور خود اپنے لئے وہ کچھ نہیں کر سکتیں۔ چنانچہ ان کے بارے میں خدا کا لحاظ رکھو کہ تم نے انہیں خدا کے نام پر حاصل کیا اور اسی کے نام پر وہ تمہارے لئے حلال ہوئیں۔ لوگو! میری بات سمجھ لو، میں نے حقِ تبلیغ ادا کر دیا”.
(5) جہالت بھری رسمیں………..
معاشرے کی بگڑتی صورتحال ہمارے سامنے ہے ۔جرائم کی کثرت آئے روز تیز رفتاری سے بڑ رہی ہے ۔لیکن جب بات نکاح کی آتی ہے جو کہ اس دور میں عفت و پاکدامنی کے تحفظ کے لئے اللہ کی رحمت ہے ،تب ہمیں وہی جہالت بھری رسمیں یاد آجاتی ہیں ۔جیسے خاندانی اور قبائیلی اختلاف ۔۔۔تعلیمی معیار ،زمینی دنیا سے بالاتر خصوصیات کی تلاش ۔۔۔۔شریعت میں ان سب چیزوں کی کوئی وقعت نہیں ۔گھر کے سرپرست بھول جاتے ہیں کہ ہمیں اپنی بیٹی ،بہن کے لئے انسان ہی تلاش کرنا ہے کوئی فرشتہ نہیں ۔ہاں یہ بات واضح ہے کہ دین و اخلاق کی بنیادی چیزوں کی تحقیق سرپرستوں پر واجب ہے۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ،”تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ”. ترجمہ ،”عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کرکے کامیابی حاصل کر ، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کومٹی لگے گی ( یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہوگی)”.(صحیح بخاری)
(6) گھر والوں کی مداخلت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بات ہمیں سمجھنی ہوگی کہ نکاح کے بعد شوہر پر اپنی دلہن کے حقوق کی ادائیگی لازمی ہوجاتی ہے ۔یہ خوشی کی بات ہے اگر آپ کا بیٹا اپنی دلہن کے حقوق ادا کررہا ہے ۔گھروالوں کو چاہئے کہ میاں بیوی کے خصوصی لمحات میں کسی طرح کی مداخلت نہ کریں۔میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ کھیل سکتے ہیں ،ایک دوسرے کے کام میں ہاتھ بھٹا سکتے ہیں ،ایک دوسرے کی بے انتہا خدمت کرسکتے ہیں ،محبت و الفت کا بے تحاشا اظہار کرسکتے ہیں ۔۔۔یہی تو نکاح کا اصل مقصد ہے۔لیکن گھر گھر کی کہانی اس کے مختلف نظر آتی ہے ۔گھر کے بزرگ سرپرستوں کو یہ چیزیں برداشت نہیں ہوتی اور حسد کی آگ میں جل کر منفی کردار ادا کرتے ہیں ۔اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی گردن شریعت کے سامنے جھکانا نہیں چاہتے۔چوری چھپے کسی کی بات سننا انتہائی برا اور ناپسندیدہ ترین عمل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا ہے کہ کل قیامت کے دن اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالاجائے گا ؛ لہذاجب پہلے سے معلوم نہیں ہے کہ کیا بات ہورہی ہے تو کان لگاکر سننا جائز نہیں۔ایسی بد عادات سے پرہیز کرنا چاہئے ۔
(7)غیر ازدواجی تعلقات (extra marital affairs)
نکاح کا بنیادی مقصد شرم و حیا کی حفاظت ہے۔جب مقصد ہی واضح نہ ہو ،منزل بھی حاصل نہیں ہوتی۔عصر حاضر میں نکاح کے بعد شخص اپنی حدود میں نہیں رہتا بلکہ وحشی جانور کی طرح آزادی کی زندگی گزارنا چاہتا ہے ۔ایسے افراد کو مشورہ ہے کہ نکاح نہ کرے کیونکہ کسی کی زندگی تباہ کرنے ،کسی کے جذبات سے کھیلنے کا آپ کو کوئی حق نہیں ۔ایسے کئی معاملات بھی دیکھے گئے ہیں کہ دونوں اطراف سے شادی شدہ بندے ہی اس گندگی میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ایسے ہی رشتے پھر کسی کے لئے جہنم بن جاتے ہیں ۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ،”ثَلَاثَةٌ حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَوْنُهُمْ: الْمُكَاتَبُ الَّذِي يُرِيدُ الْأَدَاءَ وَالنَّاكِحُ الَّذِي يُرِيدُ الْعَفَافَ وَالْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ”. ترجمہ ،”’ تین قسم کے لوگوں ، مکاتب جو کہ ادائیگی چاہتا ہو ، عفت و پاک دامنی کی خاطر نکاح کرنے والے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی اللہ ضرور مدد کرتا ہے ".(سنن ابن ماجہ)
(8)ہوس نہیں محبت ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں نکاح انسان کی جنسی خواہشات کی تکمیل کا حلال اور جائز طریقہ ہے وہیں اللہ تعالیٰ اسے روح کی غذا بھی قرار دے رہا ہے ۔یہ تبھی ہوگا جب ہوس نہیں بلکہ اس رشتے میں محبت و الفت ہو۔یہ مقدس رشتہ ہر طرح کے جھوٹ اور دھوکے سے پاک ہو۔نکاح کے رشتے میں گالیاں ،طعن و تشنیع نہ ہو۔زبان کی کڑواہٹ نہ ہو۔بلکہ یہ رشتہ حسن اخلاق سے مزین ہو۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ،”سب سے زیادہ کامل ایمان والا مومن وہ ہے جو ان میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والا ہو، اور جو اپنے بال بچوں پر سب سے زیادہ مہربان ہو”.(سنن ترمذی)
(9)فحش ویڈیوز کی قباحتیں…………..
اللہ تعالیٰ اس قوم پر اپنا عذاب حلال کردیتا ہے جس قوم میں فحاشی علانیہ پھیل جاتی ہے ۔عصر حاضر میں سب سے بڑی مصیبت جس سے گھروں کے گھر تباہ ہوگئے فحش انڈسٹری یعنی pornography ہے۔اس فتنے سے ہر اس انسان کی شادی شدہ زندگی بری طرح متاثر ہوگئی جو اس فنتے کا شکار ہوگیا۔طلاق کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیچھے pornography یقیناً سب سے بڑی وجہ ہے۔اس فتنے سے انسان بے لگام ہوجاتا ہے اور انسان کی عقل زائل ہوجاتی ہے ۔آنکھوں سے حیا نکل جاتی ہے اور دل سے ایمان کا نور ختم ہوجاتا ہے ۔انسان کے اعصاب کمزور پڑ جاتے ہیں اور عزائم میں پختگی نہیں رہتی۔نوجوان طبقہ بری طرح اس لعنت کا شکار ہے۔جس کا واحد علاج اللہ کا خوف اور اعلی تربیت ہے۔
(10) دوستی کے نام پر خیانت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بات مسلمہ ہے کہ عورت کا پورا وجود قابل پردہ ہے۔مرد پر یہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ نکاح کے بعد اپنی شریک حیات کو غیروں کی نظروں سے بچائے رکھے۔آپکی دوستی اپنی جگہ لیکن آپ اپنی بیوی کی خوبیاں بھی ان کے سامنے اس طرح بیان نہیں کرسکتے کہ وہ فتنے میں مبتلا ہوجائیں۔اسی طرح نامحرم دوستوں کا بار بار گھر آجانا ایک شریف اور عزت دار بندے کی نشانی نہیں ہے ۔بعض میری بات سے اختلاف کریں گے لیکن مشاہدہ کرچکا ہوں کہ نامحرموں کی مسلسل گھر آمد سے کرنی برائیاں جنم لیتی ہیں ۔اسی طرح اپنے ہم سفر کے راز اپنے دوستوں میں نشر کرنا انتہائی قبیح خیانت ہے۔امام نووی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ،”میاں بیوی کے درمیان لطف اندوزی کے متعلق امور کی تفصیلات کو افشا کرنے کی حرمت حدیث میں بیان ہوئی ہے، یا بیوی کی طرف سے اس دوران ہونی والی باتیں یا افعال وغیرہ کو بیان کیا جائے یہ بھی حرام ہے”.(شرح مسلم) حدیث پر نظر ڈالئے ۔۔۔۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،”روزِ قیامت اللہ تعالی کے ہاں بد ترین مقام اس شخص کا ہو گا جو اپنی بیوی کے پاس خلوت اختیار کرے اور بیوی اپنے خاوند کے ساتھ خلوت اپنائے اور پھر وہ شخص بیوی کے راز افشا کر دے”.(صحیح مسلم) شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ،”
"اس حدیث میں بستر کی باتیں بیان کرنے کی حرمت ہے، کہ انسان اپنے اور اپنی بیوی کے راز دوسروں کو بیان کرے۔۔۔ بلکہ اس میں یہ بھی ہے کہ یہ کبیرہ گناہ ہے؛ کیونکہ اس عمل پر وعید سنائی گئی ہے”.
(11)گھریلو تشدد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ عرصہ تک گھریلو تشدد کا شکار خواتین تھی لیکن اب ایسے حالات و واقعات سامنے آرہے ہیں کہ اب مرد بھی گھریلو تشدد کا شکار ہورہے ہیں بلکہ بات خون ریزی تک پہنچ جاتی ہے ۔گھریلو تشدد جس صنف کی طرف سے کیا جائے غیر انسانی ہے لیکن یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آخر ایسی کون سی شیء ہے جس نے عورت کو درندگی کی حد پار کرنے پر آمادہ کیا۔یقینا رشتوں کی حقیقت نہ سمجھنا ،دین سے دوری اور کئی ایک وجوہات اس کے اسباب میں شامل ہیں۔جن کی کیفیت گھر گھر جدا ہے۔یہاں ہمیشہ مردوں کو کہا گیا کہ آپکو نرمی اختیار کرنی ہے اور یقیناً اختیار کرنی ہے لیکن ان واقعات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ عورت کو بھی نصیحت کی ضرورت ہے ۔domestic violance صرف مرد نہیں کرتا بلکہ عورت بھی کرسکتی ہے۔اسی لئے ہمیں اپنی سوچ کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے ۔
Research shows that men as well are the victims of such violence and not only women.Some men do not suffer from violence but suffer terrible psychological and emotional abuse.
ویب ایم ڈی (web MD) کے مطابق
More than 830,000 men fall victim to domestic violence every year, which means every 37.8 seconds, somewhere in America a man is battered, according to the National Violence Against Women Survey. While more than 1.5 million women are also victims, everyone — no matter their sex –deserves help.
بات بھارت یا بالخصوص ہماری وادی کی ،کی جائے تو یہاں بھی ایک بڑی تعداد میں مرد حضرات گھریلو تشدد کے شکار ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ قانونی اعتبار سے اس مسئلے پر غور و فکر کی جائے تاکہ مرد حضرات بھی بلا جھجک قانون کی مدد لے سکیں ۔seep Gupta اپنے ایک مقالے میں رقمطراز ہیں کہ ،
In a study of 1000 married men among the various age groups from 21-49 years of age in the rural villages of Haryana, 52.4% of males experience gender-based violence in India. 51.5% of males have experienced some sort of torture or violence at the hands of their wives or their intimate partners in their lifetime. 10.5% of males have experienced gender-based violence at the hands of their wives or intimate partners in the last 12 months. The most common spousal or domestic violence against men is emotional and physical is the second most common domestic violence against men.
ضرورت اس بات کی ہے کہ گھریلو سطح سے شروع کرکے تعلیم نسواں و تربیت نسواں پر زور دیا جائے ۔شرعی علم سے انہیں منور کیا جائے ۔درسگاہوں اور دینی مدارس کے نصاب کو پختہ کیا جائے ۔عصری تعلیمی دانشگاہوں میں اخلاق پر مثبت کام کیا جائے ۔فرمان ربانی ہے کہ ،”وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ”. ترجمہ ،”اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کی طرف آرام پاؤ اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھی۔ بے شک ا س میں غوروفکر کرنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں ".(القرآن).
ہم سے ہمدردیاں کی جائیں گی دن بھر آزرؔ
اور پھر ہم پہ ہی شب خون اچانک ہوگا
علامہ ابن باز رحمہ اللہ طلاب العلم کو بار بار نکاح کی تاکید کرتے تھے ۔شیخ شنقیطی رحمہ اللہ بیان کرتے تھے کہ اللہ کا وعدہ یقیناً سچا ہے ۔اللہ تعالیٰ نکاح کے ذریعے انسان کی فقیری دور کردیتا ہے جیسا کہ فرمان ربانی ہے کہ ،”إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ”.امام حاتم الاعصم فرماتے ہیں کہ جن کاموں میں انسان کو جلد بازی کرنی چاہیے ان میں یہ بھی ہے کہ جب بیٹی بلوغت کو پہنچ جائے اور نکاح کی ضرورت ہو تو فوراً اس کا نکاح کیا جائے۔نکاح میں خیر ہی خیر ہے۔یقینا صالح عورت اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے ۔ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا سب سے بہترین عورت کون ہے تو ارشاد فرمایا "جو شوہر کو خوش کرے جب اسے دیکھے جو اطاعت کرے جب اسے شوہر حکم دے اور اپنے نفس و مال میں شوہر کی ناپسندیدہ تصرف سے مخالفت نہ کرے”.(سنن ابوداؤد) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے بارے میں آتا ہے کہ انھوں نے اپنی اہلیہ کی وفات کے دوسرے ہی روز نکاح کرلیا تھا، یقینا امام صاحب دل دماغ کی غیر معمولی کیفیات کے حامل تھے؛ لیکن شیطانی وساوس سے بچاؤ کا سامان کرنا بہرحال ایک مسنون عمل ہے ، جس کے نتیجے میں عبادات اور کمالات میں یکسوئی آجاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے گھروں کو سکون سے بھردے اور ہمارے رشتوں میں مٹھاس عطا کرے ۔۔۔۔۔آمین یا رب العالمین ۔