تحرير : سلمہ رسول
طالبہ (IEC batamaloo)
فرمان ربانی ہے کہ
قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى الَّذِيۡنَ يَعۡلَمُوۡنَ وَالَّذِيۡنَ لَا يَعۡلَمُوۡنَؕ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ــــ [ الزمر:٩ ]
تمام تعریف حمد و ثنا اس رب کائنات کےلیے جس نے ہمیں اس دنیا میں اپنی عبادت کرنے کےلیے بھیجا۔جو معبود برحق،وحدہ لاشریک ہے۔ اسکے بعد بے شمار درود و سلام پیغمبرِ آخرالزمان نبی اکرم ﷺ پر جن کو الله رب العزت نے ہماری رہنمائی کےلیے مبعوث کیا۔جنہوں نے ہمیں سچی اور اچھی راہ کے متعلق واقف کیا۔جنہوں نے ہماری رہنمائی کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑ دی۔جن کی تربیت سے ہم زندگی سکون سے بسر کر سکتے ہیں۔
موضوع کے ابتداء میں ہم نے قرآن کریم( الزمر:٩) کی آیت تحریر کی جس میں الله تعالی ارشاد فرماتا ہے:” بتاؤ تو علم والے اور بےعلم کیا برابر ہیں ؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔ (اپنے رب کی طرف سے) ”
اس آیت میں الله نے علم رکھنے والوں کی فضیلت بیان کی ہے۔ علم کے ذریعے ہم ایمان و یقین کی دنیا آباد کرسکتے ہیں۔بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھا سکتے ہیں۔اگر ہم غور کریں،جب رسول الله ﷺ پہ پہلی دفع وحی نازل ہوئی ( اقرا) ـــ پڑھئے۔اس وقت دنیا میں ہر طرف جہالت اور گمراہی کی ظلمات تھی۔جب رسول الله ﷺ کو حکم ملا،پڑھئے۔تو رحمت عالم ﷺ نے تعلیم و تربیت کے جواہر سے دنیا کو جہالت و گمراہی کے اندھیرے سے آزادی دلائی۔الله تعالی علم والے بندوں کے درجات بلند فرماتا ہے۔ان کے راستے میں آنے والی مشکلات کو دور فرماتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:اور اللہ تعالی تم میں ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جو علم دیے گئے ہیں درجے بلند کردے گا اور اللہ تعالی(ہر اس کام سے) جو تم کر رہے ہو (خوب)باخبر ہے ـــ[ المجادلة: ١١ ]
آج ہمارے معاشرے میں بہت ساری خرابیاں پائی جاتی ہیں،بہت زیادہ اخلاقی بگاڑ پایا جاتا ہے۔اس قدر فتنہ و فساد نمودار ہوا ہے کہ ہمارا معاشرہ تباہی و بربادی کے کنارے پر جا پہنچا ہے۔ہم سب واقف ہیں ہمارے معاشرے کو شرک و بدعت،بےحیائی و بےپردگی،جہالت و کم علمی،فتنہ و فساد نے گھیر رکھا ہے۔ہم خود کو ایک ترقی یافتہ Developed سماج میں شمار کرتے ہیں۔اگرچہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم بہت آگے جاچکے ہیں لیکن ہمارے سماج میں جہالت و گمراہی ابھی بھی موجود ہے بلکہ دن بدن اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ہمارے دل و دماغ میں زنگ آلودہ ہوچکا ہے جو صرف اور صرف حصول علم دین سے ختم ہوسکتی ہے۔دین کو ہم نے صرف یہ سمجھا ہے کہ نماز پڑھنی ہے،زکوة دینی ہے،روزہ رکھنا اور حج کرنا ہے۔جو شخص یہ کام انجام دیتا ہے وہ خود کو دیندار سمجھتا ہے۔ہم نہیں کہتے کہ یہ سب کام آپ انجام مت دوں۔انکو انجام دینا بہت ضروری ہے لیکن جب ہم کو آخرت میں ہمارے معاشرے کے متعلق سوال کیا جائے گا تب ہم کیا بولیں گے۔تب ہم کونسا کام الله کے سامنے رکھیں گے جو ہم نے اپنے معاشرے کی بھلائی کےلیے کبھی کیا ہی نہیں۔۔۔!
ہم سب پر یہ ذمہ داری عائد ہے کہ ہم اپنے معاشرے کی اصلاح کے بارے غوروتدبر کریں۔ اس کےلیے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ امت کا اولین معاشرہ جو کہ نبی ﷺ نے مدینہ منورہ میں تشکیل دیا تھا۔اسکی کیا خصوصیات تھیں جسکی بنا پر وہ ایک مثالی معاشرہ بن گیا۔ایک بہترین معاشرہ قائم کرنے کےلیے ہمیں اپنا رُخ علم دین کی طرف پھیرنا چاہئے۔ہمیں نبی اکرم ﷺ کے تشکیل کردہ معاشرہ کے بارے میں مطالعہ کرنا چاہئے۔ہمیں نئی نسل کو اسکی طرف مائل کرنا چاہئے۔ہمیں اپنے بچوں کو علم دین کی تربیت دینی ہوگی۔دنیاوی علوم انکو صرف دنیا میں کام آئے گا مگر علم دین کی تعلیم انکو ہر وقت،ہر بار کام آئے گی۔یہ وہ علم ہے جس کی وجہ سے ہم معاشرے کی ہر برائی کو جڑ سے ختم کر سکتے ہیں۔ایک مثالی معاشرے کی پہلی خصوصیت جو سب سے زیادہ ضروری ہے وہ یہ ہے توحید باری کا سچے دل سے اقرار کرنا اور شرک سے براءت اور لاتعلقی کا اعلان کرنا۔یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم کتاب الله اور سنت رسول الله ﷺ کا مطالعہ کریں گے اور ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ ایک اسلامی اور مثالی معاشرے کی بنیاد رسول الله ﷺ نے توحید باری تعالی کے اقرار پر رکھی ہے۔الله اور اسکے رسول الله ﷺ کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنی ہے۔الله کا ارشاد ہے:
اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو ــــ [ محمد:٣٣]
یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہےکہ ہمیں الله اور اسکے رسول ﷺ کا جو بھی حکم ہے اسکو عمل جامہ پہنانا چاہئے اور جس بات سے وہ منع کرے اسے چھوڑ دینا چاہئے۔
اصلاح معاشرہ کےلیے ضروری ہے کہ آپس میں اتفاق و اتحاد ہونا چاہئے۔الله تعالی کا فرمان ہے ــــ واعتصموا بحبل الله جميعاـــ [ آل عمران : ١٠٣ ]
ترجمہ : تم سب الله کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو۔
معاشرے کی اصلاح کےلیے ہمیں عورتوں کو علم دین کی تعلیم و تربیت سے نوازنا چاہئے۔ایک عورت معاشرے کی اصلاح کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے اگر اسے صحیح تعلیم و تربیت سے روشناس کیا جائے۔آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس قدر ایک عورت کی عزت کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔معمولی حثیت رکھنے والے اشیاء کو بیچنے کےلیے ایک عورت کو اسطرح استعمال کیا جارہا ہے کہ اسے صحیح و غلط میں فرق کرنا بھی نہیں آتا۔ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ اپنے عزت کی حفاظت کرو مگر ہم نے اس تہزیب کی راہ اختیار کی جو فتنوں سے بھرا پڑا ہے۔کاش ہم سب کو اس بات کا احساس ہوتا۔کاش ہم دنیا میں آنے کا مقصد سمجھتے۔ہم اگر ایک کامیاب معاشرے کی تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔تو معاشرے میں رہنے والی عورتوں کو علم دین کی تربیت دینی چاہئے۔جب ایک ماں باحیا،باوقار،باپردہ اور باعلم ہوگی تب ہی ایک بیٹی۔اسی طرح ہماری نسلیں بھی فرمانبردار ثابت ہونگیں۔اسکولوں،کالیجوں میں ہفتے میں دو دن دینی تربیت کا آغاز کرنا چاہیے جن کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لڑکیاں راه راست پر آجائیں گے إن شاء الله ۔ایسے پروگرام ہونے چاہئے جن کی دجہ سے جہالت و گمراہی اپنا دم توڑ دے۔ ہم سب کو مل کر اس تباہ و برباد معاشرے کی اصلاح کرنی چاہئے۔اگر یہ معاشرہ بگاڑنے میں ٩٩٪ ہم ذمہ دار ہے تو اسکی اصلاح کرنے میں ١٠٠٪ کوشش ہمیں ہی کرنی چاہئے۔درسگاہ قائم کرنے ہونگیں۔دینی علم کو تڑپ اور چاہت کے ساتھ سیکھنا ہوگا۔علم دین ایک ایسا ہتھیار بنے گا إن شاء الله جو ہمارے بگڑے ہوئے سماج کو پھر سے ایک مثالی سماج بنائے گا۔بس نیتوں میں اخلاص ہونا چاہئے۔
بارك الله لي ولكم