مضمون نگار: ڈاکٹر اویس احمد
ترال، کشمیر
فون:9149958892
ای میل:[email protected]
اردو مشاعروں کے بے باک اور بلند آہنگ و بلند بانگ شاعر، گرج دار شعر خوانی کے مالک،لہجے میں حلاوت گویا قند و شکر،انداز بیاں میں بھلا کی شوخی رکھنے والے شیخ راحت اللہ قریشی جنھیں اردو دُنیا راحت اندوری کے نام سے جانتی ہے،ایک ایسا نام ہے کہ جب بھی اردو مشاعرے کی تاریخ رقم کی جائے گی؛راحت اندوری کا نام لیے بغیر وہ تاریخ ادھوری تصور کی جائے گی۔حسی پیکر کو بصری پیکر کا روپ دے کر اُس سے کس طرح کے شعری طلسم کدے و حیرت کدے تیار کیے جاتے ہیں، اُ س کا ہنر راحت صاحب کو خوب تھا۔اُن کی شعری جہات اور شعرخوانی پر گفتگو شروع کرنے سے قبل پہلے اُن کی سوانح پر ایک نظر دوڑاتے ہیں۔راحت صاحب کی ولادت یکم جنوری ۰۵۹۱ء کو اندور میں ہوئی۔اُن کے والد کا نام رفعت اللہ اور والدہ کا نام مقبول بی تھا۔راحت صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر پرہی اردو اور فارسی میں ہوئی۔ اُ س کے بعد اُن کا داخلہ نوتن ہائی اسکول اندور میں ہوا جہاں سے اُنھوں نے ہائی اسکول پاس کیا۔ اس کے بعد اُنھوں نے اندور کے آرٹ اینڈ کامرس کالج میں داخلہ لیا مگر معاشی تنگدستی کے بہ موجب گریجویشن کے سال اول تک ہی تعلیم جاری کر سکے اور تعلیم سے منقطع ہوگئے لیکن اُس کے بعد اُنھوں نے اسلامیہ کالج بھوپال سے اپنی گریجویشن مکمل کر لی۔راحت صاحب کی انتھک محنت اور لگن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو اُن کے گھریلو حالات اس قدر بھی ٹھیک نہیں تھے کہ وہ والد کے خرچے سے اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے تھے۔ اسی لیے اُنھوں نے سائن بورڈ بنانے کا کام شروع کیا۔
اُن کی محنت اور لگن سے دوکان پر کام بہت زیادہ بڑھ گیا تھا اور ہر کسی کو راحت کے ہاتھ سے ہی لکھا ہوا سائن بورڈ چاہیے ہوتا تھا۔ رمضان کے مہینے کا حال یہ ہوتا تھا کہ اکثر اُنھیں والدہ افطاری دوکان پر ہی پہنچا دیتی تھیں۔بہر صورت خدا خدا کرکے گریجویشن مکمل کر لینے کے بعد تعلیم کا سلسلہ پھر سے منقطع کرنا پڑا۔معاشی تنگ دستی نے اگر چہ اُن کے تعلیمی سفر میں رخنہ ضرور ڈالا لیکن اُن کے اندر تعلیم حاصل کرنے کے جذبے کو ختم نہیں کر سکی۔پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اُن کی مالی حالت جوں ہی کسی حد تک سدھر گئی تو اُنھوں نے ۵۸۹۱ء میں اودھ یونی ورسٹی فیض آباد سے ایم اے اردو کا امتحان پاس کر لیا۔ اس کے بعد برکت اللہ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر لی۔اُنھوں نے پروفیسر آفاق احمد صاحب کی نگرانی میں ”اردو کی تریج و اشاعت میں مشاعروں کا حصہ“ کے موضوع پر مقالہ لکھا ہے۔پی ایچ ڈی کے بعداُن کا پہلا تقرر اسلامیہ کریمیہ کالج اندور میں بہ حیثیت لیکچرار ہوا لیکن تقریباً ۲۱ سال کے بعد اُنھوں نے اس ملازمت کو ہی خیر باد کہہ دیا جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مشاعروں میں اس قدر مصروفیت بڑھ گئی تھی کہ وہ طلبا کو وقت نہیں دے پاررہے تھے۔ یہاں ایک بات ضمنی طور پر یہ کہنا چاہوں گا کہ راحت صاحب کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ اُن کی وجہ سے طلبا کو نقصان اُٹھانا پڑتا ہے اور۔لہذا اُنھیں یہی ایک صورت نظر آئی کہ وہ مستعفی ہو جائیں۔ راحت صاحب کی شعر گوئی کا آغاز جیسا کہ اُنھوں نے خود ایک انٹر ویو میں کہا ہے کہ تیرہ چودہ برس کی عمر میں اُنھوں نے پہلی غزل کہی تھی۔شاید اسی لیے اُن کا اپنی شاعری کے حوالے سے یہ خیال ہے کہ اُنھیں شاعری ودیعت ہوئی تھی کیوں کہ وہ کم عمری میں ہی اشعار موزوں کرنے لگے تھے۔ اُن کی پہلی غزل کا مطلع کچھ یوں تھا:
مقابل آئینہ ہے اور تری گلکاریاں جیسے
سپاہی کر رہاہو جنگ کی تیاریاں جیسے
راحت صاحب کی شاعری نے اسٹیج سے ہی چلنا سیکھا اور اسٹیج پر ہی وہ جوان بھی ہوئی۔بہ ظاہر یہ ایک مشکل کام ہے کہ ایک شاعر اپنی کم عمری ہی میں شاعری کا آغاز مشاعروں سے کر رہا ہے کیوں کہ مشاعرے میں بڑے بڑے شعرا کے بیچ کلام سنانا اور داد حاصل کرنا بعض اوقات کئی اچھے شعرا کے بس کی بھی بات نہیں ہوتی ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ شاعر پہلے اخبار یا رسائل وجرائد میں چھپتا ہے اور جب اُس کی شاعری کو پڑھا جاتا ہے تب کہیں جا کر اُنھیں مشاعروں میں دعوت دی جاتی ہے لیکن راحت صاحب کا خود کہنا ہے کہ اُن کی غزل یا تو اُن کے لیے ہوتی ہے یا پھر سامعین کے لیے،نہ کہ قارئی کے لیے۔ اس ضمن میں اُنھوں نے ایک شعر بھی کہا ہے:
لوگ ہونٹوں پہ سجائے ہوئے پھرتے ہیں مجھے
میری شہرت کسی اخبار کی محتاج نہیں
کام جو کر نہ سکیں تحریر میں
مجھ سے کہیے تو زبانی کردوں
حالاں مشاعروں میں کنہ مشق شعرا کی موجودگی کے سبب اُن کی شہرت ذرا دبے پاؤں ہی آگے بڑھ رہی تھی لیکن بعد میں اُنھوں نے اپنی سحر انگیزی سے بڑے بڑے شعرا سے داد و تحسین حاصل کر لی اور یوں اُن کی شاعری اور شعر سنانے کے منفرد ڈھنگ نے اُن کی شہرت میں بہت حد تک اضافہ کر لیا۔ اس ضمن میں اُنھوں نے ایک خوب صورت شعر بھی کہا ہے کہ محض اپنے خیال کو کاغذ پر اتار دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اُس شعر کی کیفیت کو خود پر بھی طاری کر لینا چاہیے۔ شعر یوں ہے:
کاغذ کو سب سونپ دیا یہ ٹھیک نہیں
شعر کبھی خود پر بھی طاری کیا کرو
راحت صاحب ایک ایسے شاعر ثابت ہوئے جنھوں نے قومی و بین الاقوامی سطح کے بڑے بڑے مشاعروں میں نہ صرف حصہ لیا ہے بلکہ مشاعروں کو کامیاب بنانے والے شعرا میں اُن کا شمار ہوتا ہے۔ نیو یارک، واشنگٹن،دبئی، موریشس، بنگلہ دیش، لاس اینجلس، نیو جرسی نہ جانے کہاں کہاں اُنھوں نے مشاعروں میں کامیاب شاعر ہونے کا لوہا منوایا ہے۔ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، جگن ناتھ آزاد،آل احمد سرور، معین احسن جذبی، سردار جعفری، مجروح سلطان پوری، شہر یار اور بشیر بدر وغیرہ اُن کے شریک مشاعرہ رہے ہیں۔وہ ایک ایسے شاعر ثابت ہوئے جن کا سامعین کو بڑی بے صبری سے انتظار رہتا تھا۔اُن کے کلام سنانے تک بعض اوقات مشاعرے ٹھنڈے پڑے بھی دیکھے گئے ہیں لیکن جب وہ اپنا کلام پیش کرتے تھے تو اُس مشاعرے میں گویا جان میں جان آجاتی تھی۔شاید ہی اسٹیج پر آنے کے لیے کسی شاعر کا اس قدر بے صبری سے انتظار کیاگیا ہوگا جس قدر راحت صاحب کا ہوتا تھا۔ اسی لیے وہ اکثر کہتے تھے:
گلاب،خواب، دوا، زہر، جام کیا کیا ہے
میں آگیا ہوں بتا انتظام کیا کیا ہے
راحت صاحب ہندو مسلم اتحاد کے پاس دار تھے۔فر قہ وارانہ ہم آہنگی اورہندو مسلم کی مشترکہ روایت کے امین تھے۔ لیکن جب مسلمانوں کے کردار اور ملک کے تئیں اُن کی وفاداری پر سوالیہ نشان لگایا جاتا تھا تو اُنھیں سخت گراں گزرتا تھا۔ حالاں کہ یہ ظاہر سی بات ہے کہ ایک ایسا شاعر جو رنگ، نسل اور طبقے یا پھر مذہب کی بنیاد پر تفریق کو پسند نہیں کرتے تھے تو وہ کسی مخصوص طبقے کے کردار کشی کو کس طرح بر داشت کر لیتے۔یہی وجہ ہے کہ ہندو مسلم اتحادکے مخالف عناصر کو جواب دینے کے لیے ہر دم تیار رہتے تھے۔ جب مسلمانوں کے کردار پر انگلی اٹھائی گئی تو اُنھوں نے کہہ دیا:
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
اسی طرح جب وہ اپنے معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں اور اُنھیں طبقاتی تقسیم اورٖغریبوں کا استحصال دکھائی دیتا ہے تو اُن کے اندر بیٹھا شخص اُنھیں اس بات کے لیے اُکساتا ہے کہ تم ہر اُس ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کرو تو وہ کہہ اٹھتے ہیں:
بیٹھے ہوئے ہیں قیمتی صوفوں پہ بھیڑئیے
جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہو گئے
راحت صاحب کی شاعری کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اُس میں ہر دور اور ہر ماحول کی صدائیں گونجتی ہیں۔معاصر سیاسی منظر نامے پر اُن کی شاعری کا اطلاق بہتر طور پر کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کی سیاست کا ایک ایسا چہرہ بھی نظر آیا ہے جس میں مسلمانوں کے تئیں نفرت کا حد درجہ اظہار کیا گیا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر ہندو مسلم اتحاد کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ مسلمانوں پر بار بار ملک کے تئیں اُن کی وفا داری کو لے کر سوال اُٹھائے گئے ہیں، بھارت ماتا کی جے کے نعرے لگوانے سے مسلمانوں کو اُن کی وطن پرستی ثابت کرنے کو کہا گیا۔ اس ضمن میں جب اس طرح کے عناصر کی تلاش راحت صاحب کی شاعری میں کیا جاتا ہے تو یقیناً کوئی نہ کوئی شعر ایسا ہاتھ لگ ہی جاتا ہے جو اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے اور خبر دار کرتا ہے کہ بھئی! تم ہماری وطن پرستی پر شک نہ کرو، ایک دور ایسا تھا کہ یہ تخت و تاج سب ہمارا تھا۔
ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں
اسی تناظر کا دوسرا شعر بھی دیکھیں:
فیصلے لمحات کے نسلوں پہ بھاری ہوگئے
باپ حاکم تھا مگر بچے بھکاری ہو گئے
اب کہ جو فیصلہ ہوگا وہ یہیں پر ہوگا
ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی
اسی میخانے میں ایک وقت ہمارا تھا
مگر ہم تمہاری طرح نشے میں نہیں رہتے تھے
جنگ ہوتی تھہ جہاں تم بھی وہیں رہتے تھے
ہاں مگر اگلی صفوں میں تو ہم ہی رہتے تھے
راحت صاحب کا اسلوب نہایت ہی سادہ اور عام فہم ہے جو اُن کے سامعین کے ذہن پر بھاری نہیں پڑتا ہے کیوں کہ وہ پہلے ہی اس کا اعلان کر چکے ہیں کہ اُن کی شاعری یا اُن کے لیے ہوتی ہے یا اُن کے سامعین کے لیے۔ لہذا سامعین شعر کو بہ آسانی سمجھ سکیں اس کے لیے اُنھوں نے اپنے اسلوب کو غیر پیچیدہ بنا لیا۔مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ راحت صاحب کا ہر شعر ایک نشتر کی طرح سامعین کے ذہن پر وار کر دیتا ہے۔ وہ خود بھی اس بات سے بہ خوبی واقف ہیں کہ وہ جس اسلوب اور جس لہجے میں شعر کہتے ہیں اور جو بات وہ سامعین تک پہنچا دینا چاہتے ہیں وہ اُس میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اسی لیے اُنھوں نے کہا ہے:
ہم نے سیکھی نہیں ہے وہ قسمت سے
ایسی اردو جو فارسی بھی لگے
مشاعرے میں شعر سنانے کا ڈھنگ جو راحت صاحب نے اختیار کیا تھا وہ غیر معمولی تھا۔ جس طرح اُنھوں نے خود کہا ہے کہ وہ شعر کو پہلے خود پر مسلط کرتے ہیں اور پھر سامعین پر بھی وہی کیفیت طاری ہوتی ہے جو خود اُن پر طاری ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ شعر کے ہر لفظ کو محسوس کراتے ہیں۔وہ جب بھی شعر سناتے تھے تو مصرع اولیٰ کو کئی بار دہراتے تھے جس سے سامعین میں مصرع ثانی سننے میں ایک تجسس پیدا ہو جاتا تھا۔ اُن کی آواز اکثر مشاعروں میں بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک کی مانند ہوتی تھی اور جس انداز اور جس طریقے سے وہ شعر سناتے ہیں وہ نرالا انداز اُن کا خود کا ایجاد کردہ تھا۔ ملک زادہ منظور کی رائے میں کہ شعر خوانی کا انداز جو راحت صاحب نے ایجاد کیا تھا اُس کے بانی و خاتم وہی قرار دئیے جا سکتے ہیں۔مشاعروں کا تجربہ اُن کے پاس خوب تھا اور اس تجربے نے اُن میں خود اعتمادی کو مزید مستحکم بنا دیا تھااور وہ خود کہہ دیتے ہیں:
کوئی کیا دے رائے ہمارے بارے میں
ایسے ویسوں کی تو ہمت نہیں ہوتی
وامق جونپوری نے ایک جگہ لکھا ہے کہ چند ایک تبصرہ نگاروں نے راحت صاحب کو مشاعروں کا سلطانہ ڈاکوکے نام سے موسوم کیا ہے۔ بہ ظاہر اگر دیکھا جائے تو راحت صاحب کی شاعری اور لب و لہجے اور منفرد انداز بیان میں قوت بہ درجہ اتم موجود تھی کہ اُنھیں مشاعروں کا سلطانہ ڈاکو کہا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ مشاعرہ لوٹنا ہر کسی شاعر کے بس کی بات نہیں ہوتی ہے لیکن راحت صاحب نے اپنی سادہ تخیلی اور سحر انگیز شعر خوانی اور خود اعتمادی سے خود کو اس قابل بنا لیا تھا کہ وہ ہر مشاعرہ لوٹ کر ہی لے جاتے تھے۔
احتجاج اور مزاحمت کی اگر بات کریں تو راحت صاحب ایک غیر ت مند شاعر معلوم ہوتے ہیں جو اپنی بات کو مبہم انداز کی بجائے راست طور پر کہہ دیتے ہیں۔ مزاحمت کا رویہ بھی اُنھوں نے ایسا اپنایا ہے جو مکالمے کا مزہ دیتا ہے۔ اُس مزاحمت میں اُن کی بلند بانگی واضح ہے اور ظاہر سی بات ہے یہ ایک نڈر اور خود اعتمادی کے مادے سے بھر پور شاعر کے ہی بس کی بات ہے۔ جب عزت نفس کی بات آجاتی ہے تو وہ عاجزی اور انکساری کا رویہ نہیں اپناتے ہیں بلکہ اپنی آواز میں گن گرج پیدا کرکے یوں اپنی آواز بلند کرتے ہیں:
مجھ میں کتنے راز ہیں بتلاؤں کیا
بند ایک مدت سے ہوں کھل جاؤں کیا
عاجزی منت خوشامد التجا
اور میں کیا کیا کروں مرجاؤں کیا
ایک پتھر ہے وہ میری راہ کا
گر نہ ٹھکراؤں تو ٹھوکر کھاؤں کیا
اُس کے بعد جب راحت اپنے گرد و نواح میں نظر دوڑاتے ہیں تو اُنھیں موقع پرستی، خود غرضی، لالچ، حرص وغیرہ کا خوب احساس ہوتا ہے۔ وہ سرمایہ داروں پر نظر دوڑاتے ہیں تو استحصال اور نچلے طبقے پر ظلم کے سوا کچھ نہیں دیکھتے ہیں، سیاسی لیڈروں پر نظر دوڑاتے ہیں تووہ بھی بے ایمان اور غربا کو اپنے پیروں تلے روندنے والے نظر آتے ہیں، جب اُن لوگوں پر نظر پڑتی ہے جو ہمارے معاشرے کے صادق اور امین تصور کیے جاتے ہیں لیکن در حقیقت وہ دجالی اور شیطانی خصوصیات لیے ہوئے منافقوں کا روال ادا کرتے ہیں۔ تب وہ بو ل اُٹھتے ہیں:
اگر خلاف ہیں ہونے دو جان تھوڑی ہییہ سب دھواں ہے کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے کی آگ تو آئیں کے گھر کئی زدمیں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
راحت اندوری صاحب واقعی اردو شاعری کا چلتا پھرتا معجزہ تھے۔ جنھوں نے اپنی شاعری کو محض کاغذ کی زینت نہیں بننے دیا بلکہ خود اپنے سامعین کے بیچ جاکر اُن کے اذہان کو جھنجھوڑا اور اُنھیں اس انداز سے اپنی باتیں سنائی کہ سامعین اپنا سر دھننے پر مجبور ہو گئے۔جس طرح کہا جاتا ہے کہ ایک تخلیق کار معاشرے کا حساس ترین فردہوتا ہے اور اس حساسیت کا بین ثبوت راحت صاحب کی شاعری میں جگہ جگہ ملتا ہے۔اُنھیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ وقت کے تغیر و تبدل سے انسانی قدریں بھی اپنا وقار کھوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔جدید ٹیکنالوجی اور نئی نئی سائنسی اختراعات نے جہاں انسان کی ہتھیلی میں گویا پوری دنیا کو تھما دیا وہیں دوسری طرف لوگوں کے تئیں دل میں محبت و احترام اور انسانی و اخلاقی اقدارکے احساس کو گویا ختم ہی کر دیا ہے۔
وہ محبتوں کا سبق دے رہے ہیں دنیا کو
جو عید اپنے سگے بھائی سے نہیں ملتے
ہم اب مکان میں تالا لگانے والے ہیں
پتا چلا ہے کہ مہمان آنے والے ہیں
ہمارے جسم کے داغوں پر تبصرہ کرنے
قمیضیں لوگ ہماری پہن کے آتے ہیں