تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس سلفیہ مسلم ہائرسکینڈری پرے پورہ
رابطہ نمبر:6005465614
داستانِ غمِ دل ان کو سنائی نہ گئی
بات بگڑی تھی کچھ ایسی کہ بنائی نہ گئی
جذبات کو یک طرفہ رکھ کر سوچا جاۓ تب بھی یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ عرب ہو یا عجم مسلم حکمران غیرت جیسی نعمت سے محروم ہوچکے ہیں۔فلسطین کی مقدس سرزمین پر بہتا ہوا خون عرب و عجم کے حکمرانوں کے ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہے۔یہاں مسلمان آرام و اطمنان کے ساتھ فرش مخمل پر بستر گرم کررہے ہیں اور وہاں ہماری ماؤں اور بہنوں کی عزت کو لوٹا جارہا ہے۔ یہاں وطن پرستی کی لعنت میں مبتلا افراد اپنے وطن کا دفاع کرتے کرتے اتنے دیوث بن چکے ہیں کہ اب اسلامی شعار کا پاس و لحاظ بھی نہیں رکھتے۔ یہود اپنے صفوف مضبوط کررہے ہیں اور بیت المقدس کی حرمت کو پامال کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور یہاں عرب و عجم کے ارباب اقتدار اپنے محلات میں اعلی نعمتیں نوش کررہے ہیں۔ کفار سے ہمدردی دل میں گھر کر چکی ہے، کفار کی غلامی انہوں نے قبول کرلی ہے، ظالموں سے دوستی ان کا شعار بن چکا ہے۔مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنا ان کا طرز زندگی بن چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے حکمران اسلام کے نام پر بدنما داغ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
جب ارض فلسطین کی مظلوم بیٹی کی لٹتی ہوئی عزت سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہے تب ہمارے دلوں میں وہ ولولہ اور جوش کیوں نہیں آتا؟ اسلئے نہیں آتا کیونکہ ہم اپنی بنائی ہوئی عارضی جنت کھونا نہیں چاہتے۔ ہم اپنی دولت، عیش و عشرت کے پجاری بن چکے ہیں۔ پیسہ ہمارا خدا بن چکا ہے۔جب بیت المقدس میں معصوم مسلمان بچوں کا خون بہایا جاتا ہے تب مسلمان لشکر خواب خرگوش سے بیدار کیوں نہیں ہوتے؟ اسلئے نہیں ہوتے کیونکہ کفار نے انہیں شباب و کباب کی محفلوں میں مصروف رکھا ہے۔ انکے دن لہو و لعب میں اور انکی راتیں مے کدوں میں گزرتی ہیں۔ مسجد اقصیٰ پر ہتھیاروں سے حملہ کیا جاتا ہے، تب ملت اسلامیہ کفار کے خلاف ایک ہی صف میں کھڑی کیوں نہیں ہوتی؟ اسلئے نہیں ہوتی کیونکہ کفار نے ہمیں ایک دوسرے پر فتویٰ بازی کرنے میں لگادیا ہے۔ کوئی کسی کو خارجی کہتا ہے تو کوئی کسی کو مشرک۔ کوئی کسی کو بدعتی کہتا ہے تو کوئی کسی کو کافر۔ ہم ڈوب چکے ہیں دنیا کی محبت میں۔ ہم موت کو گلے نہیں لگانا چاہتے۔ لیکن موت سے بھاگنے والے!! مظلوموں کو بے سہارا چھوڑ کر تم عزت کی زندگی بھی بسر نہیں کرسکتے۔ عزت کی شھادت بہتر ہے ذلت کی حیات سے۔ اگر آج سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ، سیدنا محمد بن قاسم رحمہ اللہ، سیدنا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ بیت المقدس فتح کرنے جاتے تو بے غیرتوں کی ایک جماعت انہیں بھی خارجی قرار دیتی۔ مسلم حکمران بے غیرتی کی نیند میں عزت حاصل کرنے کے خواب دیکھنے میں مشغول ہیں جو کہ ہماری ہی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔مسجد اقصیٰ پچپن سے زیادہ مسلم ممالک کے ضمیر پر ایک تازیانہ ہے۔
ارض شام کے گلاب بچے عید کے موقع پر کفار کے ہاتھوں شھید ہورہے تھے اور یہاں ہم عید کی خوشیاں منانے میں لگے ہوئے تھے۔ کہیں ہماری یہ خوشی منانا کفار کے تسلط پر رضامندی تو نہیں۔؟ دنیا کی حفاظت کرنے کا بہانا بنا کر تماشا دیکھنے والے کیا یہ آیت نہیں پڑھتے، "اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کے لیے (تورات میں) لکھ دیا تھا کہ جس شخص نے کسی دوسرے کو علاوہ جان کے بدلہ یا زمین میں فساد بپا کرنے کی غرض سے قتل کیا تو اس نے گویا سب لوگوں کو ہی مار ڈالا اور جس نے کسی کو (قتل ناحق سے) بچا لیا تو وہ گویا سب لوگوں کی زندگی کا موجب ہوا اور ان کے پاس ہمارے رسول واضح دلائل لے کر آتے رہے پھر بھی ان میں سے اکثر لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں”.(القرآن) آج اگر مسجد اقصیٰ کسی ملک کا قومی مسلہ ہوتا تو ہر طرف سے ماتم شروع ہوچکا ہوتا لیکن تمام مسلم ممالک نے مسجد اقصیٰ کو یتیم بنا کر تنہا چھوڑ دیا، اب اگر اس پر میزائل بھی برستے ہیں تب بھی ہم تماشائی بن کے رہ جاتے ہیں۔کیا ہمارے سجدے، ہماری نمازیں قبول ہونگی جب کہ ہم نے ایک بے بس قوم کو یتیمی کی حالت میں تنہا چھوڑ دیا ہے۔
کیا ہم بھول گئے بدر کے میدان کو جہاں ایک طرف کفار کی بڑی جماعت ہتھیار لئے کھڑی تھی اور دوسری طرف غرباء صحابہ قلیل تعداد میں تھے، لیکن ان میں ایمان تھا، ان میں غیرت تھی، ان میں بھائی چارہ اور اخوت تھی جن اوصاف سے ہم محروم ہوگئے۔اے مسلم حکمرانوں!! اگر تم بیت المقدس کو قبلہ اول نہیں مانتے تو مانو فقط ایک مسجد ہی تسلیم کرلو۔ لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ عالمی سطح پر کچھ بھیانک ہونے والا ہے جس کا انتظار کررہے ہیں۔ شاہی محلات میں راج کرنے والو!! کب تک مظلوم کی بددعاؤں سے بچتے رہو گے۔ مسجد اقصیٰ رو رہی ہے، محمد بن قاسم کو ڈھونڈ رہی ہے، مسجد اقصیٰ کی فریاد کیوں ہم سن نہیں پاتے، کیا ہم مر چکے ہیں۔ ہماری زندگی دھرتی پر ایک بوجھ ہے۔ جسے اب یہ زمین بھی برداشت نہیں کرے گی۔ارض فلسطین کے شھداء کا خون اسی سرزمین پر پڑ رہا ہے، ملک شام کے آنسوں اسی دھرتی پر گر رہے ہیں، یہ آنسو، یہ خون کے قطرے جو اللہ کو بہت محبوب ہیں، کچھ بھیانک کرنے والے ہیں۔ آج جو لوگ انکی بےبسی کا عالم دیکھ کر ٹس سے مس نہیں ہوتے وہ بھی اسی طرح تڑپ تڑپ کر بے گھر ہونے والے ہیں جس طرح علاقہ شیخ جراح کے باشندوں کو بے گھر کردیا گیا۔ آج جو لوگ خون کی بہتی ندیاں دیکھ کر تڑپ نہیں اٹھتے، وہ یاد رکھیں انکے گھر بھی خون کی ہولی سے سجنے والے ہیں کیونکہ کائنات انتقام لیتی ہے۔ یہ بہتا خون کبھی ضائع نہیں جاتا۔
آج مسجد اقصیٰ پکار رہی ہے کہ مجھے امید ہے کہ کوئی تو ہو گا جو صلاح الدین بن کر میری حرمت کی خاطر اٹھے گا.
میں کسی ایوبی کی راہ تکتے ہوئے ساری امت کو پکار رہی ہوں.
کوئی تو کہے گا کہ لبیک اقدس.
کوئی تو اٹھے گا اور با آواز بلند یہ نعرہ لگایے گا کہ القدس لنا.
کاش کوئی مرد حر ، کوئی مومن صادق جان جائے کہ اندھیری رات میں امت کی خستہ حالی کا ماتم کرنے والی یہ میں، مسجد اقصی ، بیت المقدس ہوں.رب کا قرآن اعلان کر رہا ہے کہ، "اور کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور ہمارے لیے اپنے ہاں سے کوئی حمایتی کر دے اور ہمارے لیے اپنے ہاں سے کوئی مددگار بنا دے”.(سورہ نساء)
اے اقصیٰ! تیری طرف میرے نبی ﷺ نے نماز پڑھی ہے لیکن آج ہم نمازی بن کر بھی تیرے لئے کچھ نہیں کرپاتے۔ اے اقصیٰ! تو مقدس ہے، تو پاک ہے، تو بابرکت ہے، انبیاء کرام نے وہاں نماز پڑھی ہے لیکن ہم فقط تماشائی بن گئے ہیں۔ اے اقصیٰ! تیری آزادی کے لئے اسلاف نے اپنا سب کچھ قربان کردیا لیکن ہم بے وقعت ہوگئے۔
اے اقصیٰ! ہم تیرے مجرم ہیں، ہم تیرے مجرم ہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے ذہنوں سے غلامی کا پردہ ہٹادے۔۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔