سیفی سرونجی
غالب کا دور گذرے زمانہ گزر گیا
دہلی کی سرزمین کا چرچا نہیں گیا
دنیا کی ہر زبان میں جتنے بھی شاعر ادیب یا عظیم شخصیات گذری ہیں اگر ہم ان کی زندگی اور ان کی شخصیت اور ان کے کارناموں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ خدا نے انہیں بے شمار صلاحیتوں کے ساتھ بڑے کارنامے انجام دینے کے لئے ہی پیدا کیا ہے۔ غالب بھی انہیں عظیم ہستیوں میں سے ایک ہیں، جن کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری میں ہی نہیں ہے بلکہ ان کی گفتگو ان کے زندگی، دوستوں اور عزیزوں سے تعلقات، ان کے خطوط، انسانی ہمدردی کا جذبہ ساری خصوصیات جب کسی ایک انسان میں یکجا ہوجائیں تو پھر ایسی شخصیت ابھرتی ہے کہ وہ عظیم مرتبہ حاصل کر لیتی ہے۔ غالب ایک ایسی ہی شخصیت کا نام ہے، جس میں یہ تمام خصوصیات یکجا ہوگئی ہیں۔ غالب ایک شاعر ہی نہیں تھے، وہ ایک بہترین مفکر سیاست داں اور یاروں کے یار تھے، سیاسی تنقیدی شعور اتنا تھا کہ اقبال ؔ، فراقؔ اور بشیر بدر کے بعد کسی میں دیکھنے میں نہیں آیا، کس سے تعلق رکھنا ہے، کس کو شعر سنانا ہے، کونسی محفل میں جانا ہے، کونسا لباس پہننا ہے، قلعہ تک رسائی کس طرح حاصل کرنا ہے۔ کہاں کس سے کس طرح کا فائدہ اٹھانا ہے۔ یہ تمام خوبیاں اور صلاحیتیں غالب میں موجود تھیں، جس سے ان کی دور اندیشی اور ان کے فہم وادراک کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے بقول کسی شاعر کے فرق جو بھی نظر آتے ہیں وہ ادراک کے ہیں
ورنہ پتلے تو مری جان سبھی خاک کے ہیں
غالب کے اسی پختہ شعور نے انہیں اس عظیم مرتبہ پر پہنچایا۔ یہ بات طے شد ہ ہے کہ جس نے بھی غالب کے ذہن تک رسائی حاصل کر لی سمجھئے کہ اس نے ترقی کی ساری منزلیں طے کر لیں۔ پروفیسر مختار شمیم نے تو صرف شمس الرحمٰن فاروقی کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ:
”اپنے آپ کو منصوبہ بند طریقے سے خود کو پروجیکٹ کر کے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والوں میں اردو کے نامور ادیب شمس الرحمٰن فاروقی بھی ہیں، انہیں منصوبہ بندی کے بھی سارے ہنر آتے ہیں اور لابی تیار کرنے کی دانشمندی ان میں ہے۔“
لیکن یہ بات بھی سچ ہے جتنے منصوبہ بند طریقے سے اپنے آپ کو پھیلانے کا ہنر غالب کو آتا تھا، کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ ہاں جن شاعروں، ادیبوں کی رسائی غالب کے ذہن تک ہوگئی وہ کامیابی اور بلندیوں سے ہم کنار ہوئے۔ ان میں علامہ، فراق گورکھپوری، گوپی چند نارنگ، شمس الرحمٰن فاروقی، ندا فاضلی اور بشیر بدر کا نام لیا جاسکتا ہے، جن میں غالب جیسی ذہانتیں موجود ہیں۔
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ غالب کو اپنی زندگی میں کچھ مقام حاصل نہیں تھا، یہ بات بالکل غلط ہے، غالب اپنے عہد میں بھی عزت وافتخار کی زندگی جی رہے تھے، بڑے بڑے لوگ ان سے ملنے کی تمنا کرتے تھے، ان کی گفتگو سننے اور انہیں قریب سے دیکھنے کے متمنی رہتے تھے، ایوان حکومت میں بھی ان کے نام کا دبدبہ تھا۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ جب کسی فنکار کی شہرت ہوجاتی ہے اور ا س کے نام کی گونج ہر جگہ سنائی دینے لگتی ہے، تو وہی لوگ جو کل تک اسے نظر انداز کرتے تھے، اس کا مزاق اڑایا کرتے تھے، اس پر طرح طرح کے طنز کرتے تھے، پھر وہی اس سے تعلقا ت پر فخر کرنے لگتے ہیں۔ وہ تمام دوست رشتہ دار اس کے نام سے رشتہ جوڑنے لگتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایسی عظیم ہستی کی وجہ سے ہی اس کے شہر کا نام، اس کے دوستوں کا نام، حد تو یہ ہے کہ ان کے نوکروں تک کا نام کتابوں میں آنے لگتا ہے، اس کے نام پر شہروں، گلیوں، بازاروں کے نام رکھے جاتے ہیں، اس کے نام سے جگہ جگہ ادارے، انجمنیں قائم ہونے لگتی ہیں۔… کہاں کہاں قیام کرتا ہے، کس کس سے ملاقات کرتا ہے، ان شہروں ان جگہوں کا ذکر ہونے لگتا ہے، غالب جہاں جہاں گئے، جن جن سے ملاقاتیں کیں، آج ان سب کا نام کتابوں میں محفوظ ہے، بھوپال کو بھی یہ فخر حاصل ہے کہ یہاں ان کے شاگرد رہے ہیں، ان کا دیوان نسخہ حمیدیہ دستیاب ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اس موضوع پر کئی مضامین لکھے جاچکے ہیں اور غالب کا بھوپال سے تعلق تاریخ کا ایک حصہ بن گیا، یہاں صرف کہنے کا مقصد اتنا ہے کہ کسی بھی عظیم شخصیت کا تعلق کسی ادنیٰ آدمی یا کسی چھوٹے سے شہر، قصبے یا گاؤں سے بھی رہا ہو تو وہ بھی ادبی تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے اور یہ ا س شخصیت کی عظمت، شہرت کا کھلا اعتراف ہوتا ہے، جہاں تک غالب کی شاعری کا تعلق ہے، تو غالب وہ خوش نصیب شاعر ہے کہ جن پر اب تک سینکڑوں مضامین، سینکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی۔ اس لئے کہ زیادہ تر شاعر اپنے عہد سے متاثر ہوتا ہے اور اپنے آس پاس کے ماحول کی عکاسی کرتا ہے، جیسے حالات ہوتے ہیں، ویسی ہی شاعری ہوتی ہے، اپنے حال کی عکاسی کرنا شاعر کا پہلا فریضہ بھی ہوتا ہے کیوں کہ اپنے حال سے بیگانہ رہ کر بڑا ادب تخلیق نہیں کیا جاسکتا لیکن غالب کا معاملہ دوسرا ہے، غالب حال، ماضی او مستقبل تینوں ادوار کا شاعر ہے، یہاں زیادہ کچھ لکھنے کے بجائے مشہو رنقاد ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب ’غالب ذوق تماشا‘ سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں:
”بے شک کوئی ایسا شاعر مشکل ہی سے ملے گا، جو محض حال، محض ماضی یا محض مستقبل کا شاعر ہو لیکن یہ ضرور ہے کہ اس کے ہاں بالعموم کوئی ایک رجحان اتنا نمایاں ہوگا کہ وہ اسی کا نمائندہ قرار پائے گا بلکہ بعض شعراء بیک وقت ان تینوں سطحوں پر بڑے شاعر ہوتے ہیں اس لئے قارئین کے جملہ طبقات کو شعریکیف مہیاکرنے کی خود سکت رکھتے ہیں، غالب کی عظمت کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ وہ بیک وقت ماضی، حال اور مستقبل کے شاعر ہیں، اور اس لئے ہر زمانے کو غالب اس کا اپنا عکاس نظر آتا ہے، فنکار دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو گویا پتھر کی سل پر ماحول کی تصویر کھینچ دیتے ہیں اور دوسرے وہ جو پتھر کی سل کو اپنے فن کی مدد سے یوں صیقل کرتے ہیں کہ اس میں ارد گرد کا عکس نظر آنے لگتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ سل پر بنی ہوئی تصویر تو صرف اپنے زمانے تک محدود رہتی ہے لیکن صیقل شدہ سل ایک ایسا آئینہ بن جاتی ہے، جس میں ہر زمانے کو اپنا خوب تر عکس دکھائی دینے لگتا ہے، یوں دیکھئے تو یہ کلیہ کچھ ایساجاندار دکھائی نہیں دے گا کہ شاعر وہی اچھا ہے جو اپنے ماحول کی تصویر کشی کرے وجہ یہ کہ ماحول تو ہردم بدلتا رہتا ہے جو شاعر محض آج کے ماحول کی تصویر پیش کرے گا، وہ آج سے سو برس بعد کے ماحول کا عکاس کیوں کر قرار پائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ شاعر اپنی پوروں کے لمس سے لفظ کے مزاج ہی کو بدل ڈالتا ہے، اس طور کہ اب یہ لفظ کسی ایک لمحے کا پابند نہیں رہتا بلکہ وقت کی زنجیر وں سے آزاد ہوجاتا ہے، غالب کے کلام میں یہی معجز ہ رونما ہوا ہے اور اس لئے اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود غالب آج بھی تازہ اور زندہ ہیں۔“
غالب کی ذہانتیں تو اپنی جگہ ہیں ان کا مطالعہ بھی بہت وسیع تھا، ان کے وسیع مطالعہ کا ہی نتیجہ تھا کہ غدر کے بعد جن دنوں وہ تنہائی کی زندگی گزار رہے تھے، تو وقت کاٹنے کے لئے فارسی لغات کی مشہور کتاب ’برہان قاطع‘ کا مطالعہ کرنے لگے اور پھر بقول غلام رسول مہر اس میں جہاں جہاں انھیں غلطیاں نظر آئیں، ان کے متعلق کتاب کے حاشیہ پر اشارات لکھے گئے بعد میں جسے کتابی شکل میں مرتب کر دیا گیا اور اس کا نام قاطع برہان رکھا، جبکہ اس سلسلے میں غالب نے کسی کتاب سے مدد نہیں لی، صرف اپنی یاد داشت پر بھروسہ کرتے ہوئے الفاظ کی نشاندہی کی، ان کی وفات کے بعد رضا قلی خان ہدایت نے ایران میں فارسی لغت کی ایک کتاب فرہنگ ناصری لکھی اور برہان قاطع کے الفاظ کی نشاندہی کی۔ مولانا حالی لکھتے ہیں کہ:
”جو اعتراض مرزا نے برہان پر وارد کئے تھے، ان کی جا بجا فرہنگ ناصری سے تائید ہوتی ہے۔“
اس واقعہ سے غالب کے حافظہ اور ذہانت اور وسیع مطالعہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، غالب اپنے آپ کو فارسی کا بڑا شاعر کہتے تھے لیکن ان کی شہرت اور مقبولیت اردو سے ہوئی، وہ بھی ان اشعار سے جو سادہ اور آسان زبان میں ہیں ؎
بازیچہئ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب وروز تماشا مرے آگے
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے تو پھر لہو کیا ہے
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
گوہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر ومینا مرے آگے
تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر نام بر ملے
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسہ مرے آگے
غالب کے یہ وہ اشعار ہیں جن سے کہ ان کی شہرت ہوئی، اور جن سے ان کی شوخیاں، ذہانتیں اور انداز بیان کے چرچے ہونے لگے اور دنیائے ادب میں ان کی عظمت کا پرچم بلند ہوتا گیا۔
٭٭٭
سیفی سرونجی، سہ ماہی ’انتساب‘،سرونج
9425641777
[email protected]