سری نگر، 22 مارچ : ‘مہربانی کر کے سرنڈر کرو۔ اگر آپ واپس نہیں آنا چاہتے تو مجھے بھی وہیں پر بلا کر گولی مار دو۔ میں بھی وہیں پر مروں گی’۔
یہ الفاظ جنوبی ضلع شوپیاں کے مانی ہل میں سکیورٹی فورسز کے محاصرے میں پھنسنے والے مقامی جنگجو راقب احمد ملک کی اہلیہ کے ہیں جنہوں نے ان کا اظہار اپنے شوہر کو سرنڈر کی اپیل کرتے ہوئے کیا ہے۔
تاہم جب راقب ملک نے اپنی اہلیہ اور چار سالہ بچے کی اپیلوں کے باوجود سرنڈر نہیں کیا تو سکیورٹی فورسز نے فائرنگ کر کے راقب سمیت چار مقامی جنگجوئوں کو ہلاک کیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز، جو بظاہر سکیورٹی فورسز نے ریلیز کئے ہیں، میں راقب ملک کی اہلیہ اور چار سالہ بچے کو سرنڈر کی اپیلیں کرتے ہوئے سنا اور دیکھا جا سکتا ہے۔
راقب ملک کی اہلیہ کو یہ اپیل کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے: ‘ہم مر گئے ہیں۔ آپ کے بچے بھی مر رہے ہیں۔ ہم رات کی تاریکی میں آپ کے پاس آئے ہیں۔ آپ واپس آ جائو اور سرنڈر کرو۔ یہ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
‘مہربانی کر کے واپس آ جائو۔ اگر آپ واپس نہیں آنا چاہتے تو مجھے بھی وہیں پر بلا کر گولی مار دو۔ میں بھی وہیں پر مروں گی۔ افان اور ایفا (راقب کے کمسن بچے) میرے پاس ہیں’۔
ایک اور ویڈیو میں راقب ملک کے کمسن بچے کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے: ‘ابا جی باہر نکلو، میں افان ہوں۔ مہربانی کر کے باہر آ جائو۔ یہ آپ کو کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ مجھے آپ کی بہت یاد آ رہی ہے’۔
ویڈیو میں سکیورٹی فورسز کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے: ‘فوج نے آپ کو چاروں اطراف سے گھیر لیا ہے، آپ لوگوں کے بھاگنے کے تمام راستے بند ہیں، آپ اپنے ہتھیار پھینک دیں اور پھیرن باہر نکالیں اور ہاتھ کھڑا کر کے باہر آ جائیں’۔
جنوبی کشمیر میں قائم فوج کی وکٹر فورس کے جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) میجر جنرل ریشم بالی نے کہا کہ فوج کی 44 آر آر نے راقب ملک کی اہلیہ اور اس کے چار سالہ بیٹے کو لایا اور ان سے اس کو سرنڈر کرنے کی اپیل کرائی لیکن انہوں نے سرنڈر کرنے سے انکار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا کہ وہ سرنڈر کرنا چاہتا تھا لیکن اس کو وہاں پھنسے ساتھیوں نے ایسا کرنے سے روکا اگر وہ واپس آجاتا تو شاید وہ بچ جاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ تصادم میں ہمارا ایک فوجی جوان اس کو سرنڈر کرانے کی کوشش کے دوران ہی گولی لگنے سے زخمی ہوا۔
موصوف میجر جنرل نے کہا کہ ہم نے تصادم کو رات سے صبح تک اسی لئے موخر کیا تاکہ جنگجو سرنڈر کر سکیں ورنہ یہ آدھے گھنٹے میں ہی ختم ہوسکتا تھا۔
یو این آئی