تحریر: اعجاز بابا
نائدکھئے سوناواری
فون نمبر 7889988513
مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ اس کائنات میں سب سے پرسکون جگہ رحم مادر ہے۔ جہاں ہم نو ماہ سکون سے گزارتے ہیں۔ اور پھر ایک دن ایک نئی اور انجانی دنیا میں ہمیں کک آؤٹ کر دیا جاتا ہے۔ اُس دنیا سے اس دنیا میں آتے ہی سب سے پہلے ڈاکٹر یا دائیہ یا کوئی پھپو چچی بنا کوئی سلام دعا کیے اور حال احوال چائے پانی پوچھے ہمیں ٹانگوں سے پکڑ کر الٹا لٹکاتی ہے۔ اور ہماری ڈھوئی پر 5-7 چپیڑیں ٹکا کے مارتی ہے۔ ہم چیخ مارتے ہیں ، ایک لمبی سانس لیتے ہیں اور یوں زندگی چلنے لگتی ہے۔ جس وقت یہ سب ہوتا ہے اس وقت ہماری عمر تین سیکنڈ ہوتی ہے ۔ آخر ہم جب بڑے ہوتے ہیں ہمارے پاس علم عقل دماغ تجربہ جسم صحت طاقت ہاتھ پاؤں آنکھیں ناک کان اور کئی سہارا دینے والے لوگ بھی ہوتے ہیں۔
شاید اس وقت ہمارے پاس بھروسہ نہیں ہوتا۔
بھروسے کی عدم موجودگی کا نام خوف ہے!!!
اور زندگی خوف کے اس پار بستی ہے!!!
-پرانے زمانے میں جب کہیں مقابلے کی فضا بنتی تھی یا کسی کی غیرت کو للکارنا ھوتا تھا تو کہا جاتا تھا "اگر تو نے ماں کا دودھ پیا ھے تو میدان میں آ”. اور مائیں اپنے بچوں کو اپنی بے پناہ محبت کا احساس دلانے کے لئے کہتی تھیں ” تجھے میرے دودھ کی قسم,/میں تجھے دودھ نہیں بخشوں گی”.
ماں کی گود پر قبضہ مردانہ معاشرے کےاس باپ کا ہوتا ہے جو کہ اس ماں کا حاکم اور وہ ماں اس مرد کی ملکیت ہے ، اس لیے وہ اپنی گود کا صیحیح استعمال نہیں کر سکتی کیونکہ وہ مرد اسے روٹی دیتا ہے اس لیے عورت کو اس کا محکوم بن کر رہنا ہوتا ہے بچپن سے ہی اسے یہ پاٹ پڑھایا جاتا ہے کہ تمہاری عزت شوہر کی فرمابرداری میں ہےاور وہ گود سے گور تک شوہر کی فرمابرداری کرتی رہتی ہے اس دوران اولاد ک تربیت کرنا تو اسے یاد نہیں رہتا ،شوہر کی چاکری کرنے کے علاوہ اس ماں کو ماں بننے کی تربیت تو دی ہی نہیں جاتی بلکہ ماں بنا دیا جاتا ہے ….ایک جسمانی بھوک کو مٹناے(یہ کام بھی وہ شوہر کو خوش کرنے کے لیے کرتی ہے کہ کہیں قطع نظر اپنی خوشی اور ذہنی آمادگی کے) کے لیے اور دونوں حادثاتی طور پر ماں باپ کے منصب پر فائض ہو جاتے ہیں… پھر آپ کہتے ہیں اس ماں کی غیر تربیت یافتہ گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے …..