عصر حاضر میں انسان اگر چہ معاشی طور خود کفیل ہے اور مجموعی طور آرام دہ زندگی بسر کرتے ہیں لیکن سکون کھویا ہوا ہے۔اس کے بنیادی محرکات ہیں کہ انسان مادیت پرستی کی وجہ سے اپنی حقیقی وجود سے جان کر بھی ناآشنا ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں حلال وحرام اور حق وباطل کے درمیان تفاوت کرنے سے انسان قاصر رہتا ہے۔
انا پرستی اور دولت کی ہوس نے انسان کی آنکھوں پر پردہ ڈالا ہے اور اس کے تمام اثرات نجی زندگی پر مرتب ہوجاتے ہیں۔۔ لوگ تواپنے کاموں میں مشغول ہیں کسی کو کوئی فرصت نہیں ہے عدیم الفرصتی کے عالم میں ان پْرانی تمام رسموں اور روایتو ں کا جنازہ نکل چکا ہے کیونکہ آج سے پہلے کئی دہائی لوگوں کی رشتہ داری اور ہمسائیگی اتنی مضبوط تھی کہ کوئی بھی اپنے آپ کوتنہا محسوس نہیں کرتا تھا ہر ایک اپنے سے دوسروں کی بجائی اور خوشحالی میں خوش ہو جاتا تھا عبادت و عیادت اور خوشی و غم کی تقریبات و دیگر معمولات زندگی ایسی حسین و جمیل تھیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماضی میں انسان اقتصادی اور معاشی طور خود کفیل نہیں تھا لیکن ایک دوسرے کے سہارے جیاکرتے تھے،دکھ درداور خوشیوں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے تھے مذہبی رواداری، مساوات اور بھائی چارہ ہر انسان میں چاہیے امیر تھا یا غریب کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو اتھا۔ایک ساتھ روتے تھے اور ایک ساتھ مسکراتے تھے تب وہ لوگ غریب تھے لیکن پْر سکون اور فرحت بخش زندگی گذارتے تھے غریب کی وہ تمام اڑچنے اور سختیاں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بانٹتے تھے اور ایک دوسرے کو دلاسہ دیکر زندگی کے مزے لیا کرتے تھے پھر انسان نے اپنی نظریں دور کی منزلوں کی طرف دوڑائے اور وہ غربت کی تمام آزمائشوں سے تنگ آکر ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنے لگا لیکن اس دوڑ میں انسان اصلی وجود و حقائق سے دور ہوتا گیا یہاں تک کہ اشرف المخلوقات ہو کر بھی معاشی حیوان بن بیٹھا۔
اس کے بنیادی محرکات یہ ہیں کہ انسان نے مذہب کے اصولو ں کی پابندی اور اخلاقی اقدارکی پاسداری سے اپنا توجہ ہٹا کر بے راہ روی، منشیات کے دھندوں اور بے حیائی کے طور طریقوں میں داخل ہوگیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر ایک شخص ایک دوسرے کا معاوِن و مددگار ہوتا ہے لیکن جو شاہی گدیوں پر برا جماں ہوتے ہیں اْن کی آنکھوں پر تعصب، ضد اور تکبر کی عینک لٹکتی رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ حقیقت سے بھی نا آشنا ہوجاتے ہیں ٹھیک ہے کہ جو انسان ترقی کی دوڈ میں غلط طریقے سے پیسے بٹور کر آگے بڑھتے ہیں وہ ہر اعتبار سے پریشان ہوتا ہے۔
یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ اگر آج بھی انسان مذہبی اصولوں اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کرے تو عین ممکن ہے کہ انسان ترقی کے ساتھ ساتھ پْر امن اور خوشحال زندگی گذارسکتا ہے۔ اسکے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان خود غرضی، لالچ،دْھوکہ بازی اور فریب کاری سے اپنے آپ کو دور ر کھ کر انسانوں کی طرح زندگی گذاریں اس ترقی یافتہ دور میں انسان کو اپنے حقیقی وجود کی طرف اپنی نظریں مرکوز کرنی لازمی ہے۔ تاکہ انسان اپنے نفس کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے بھی خیر خواہ اور ہمدرد ثابت ہوسکے تو ضرور وہ انسان زندگی کے غموں سے نکل کر خوشحالی کی طرف گامز ن ہوجائے گا۔