انسانی زندگی کا محور فطری تقاضوں کے مطابق ہے کیونکہ کسی جگہ پر کسی ملک میں کسی نہ کسی زمانے میں ایسی تبدیلی رونما ہوتی ہے کہ لوگ خود بھی اس پر یا تو نازاں ہوتے ہیں یا حیران ہوجاتے ہیں اگر ہم اپنی ریاست کی بات کریں توجہاں اقتصادی اورمعاشی ترقی ہوئی وہیں تعلیم کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا لیکن ہرسو احساس ذمہ داری کا فقدان پایاجارہا ہے کیونکہ زندگی کے ہر شعبہ میں کام کرنے والے انسان کو لالچ اور ذاتی مفادات نے اپنی لپیٹ میں لیاجس کے نتیجے میں انسان صرف اور صرف اقتصادی فائدے کی تلاش میں اپنا وجوداور اپنی شناخت بھی گنواں دینے میں کوئی دقیقہ فراوگذاشت نہیں کرتا ہے۔
آجکل کا انسان اپنی عزت پر بھی دولت کو ہی ترجیح دیتا ہے حالانکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دولت انسان کے پاس لمحوں کی امانت ہوتی ہے اور لمحات میں یہ انسان کے ہاتھوں سے نکل جاتی ہے اور اس کو پتہ بھی نہیں چلتا ہے۔جبکہ علم و عمل انسان کو تاابد ساتھ ہے اور اس کا ساتھ نہیں چھوڑتیبلکہ دنیا و آخرت میں سرخروی اور عزت و اکرام دلاتے ہیں۔چنددہائیوں قبل تعلیم کی شرح بالکل کم تھی اور تعلیم کی طرف لوگوں کا کم رجحان تھا لیکن اس وقت کے اساتذہ کی تشنگی نئی نسل کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کا ایک اہم ذریعہ بنا ہواتھا اور دور حاضر میں اس کانتیجہ ہمارے سامنے ہے۔اس میں دوراہے نہیں ہیں کہ تعلیم کا رجحان آئے روز بڑھتا ہے لیکن اْس تعلیم کا فقدان ہے جس سے انسان اپنے خالق کی عظمت اور اپنے وجود کی حقیقت کو پہچان سکتا۔
اس کے بنیادی محرکات یہ ہیں کہ ہر کوئی انسان اپنی حقیر مفادات کے خاطر احساس ذمہ داریوں سے دستبردار ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انسان بے لگام ہوکر من مانی زندگی بسر کرنے میں اپنی عافیت سمجھتا ہے حالانکہ اس سے دیر سویر پچھتاوے کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماضی میں استاد اور بچے کا رشتہ کافی مضبوط ہوا کرتا تھا اور استاد ایک فیملی ممبر ہوتا تھا اور بالخصوص بچوں کے والدین کو ان کے اساتذہ کے ساتھ نزدیکی مراسم ہوا کرتے تھے اور والدین جو شکایت براہ راست بچوں کے ساتھ نہیں کر پاتے تھے تووہ والدین اساتذہ کے ذریعہ ہی ان تک پہنچانے کی کوشش کرتے تھے اور استاد کی ہر بات موثر ثابت ہوتی تھی کیونکہ ہر کوئی بچہ اپنے استاد کی بات کو حرف آخر تصور کرتا تھا لیکن زمانہ حال میں حالات اس کے برعکس سامنے آتے ہیں کیونکہ ہر ذمہ دار شخص کی طر ح استاد بھی احساس ذمہ داریوں کا پالن کرنے میں کوتاہیاں برتتے ہیں جس کے نتائج من وعن آج ہمارے سامنے ہیں اور استاد اپناحقیقی مقام کھویا ہواہے“جس کو بحال کرنے کیلئے استاد کواپنی ذمہ داریوں کااحساس دلانا ہوگا۔
وہ ماضی کے اساتذہ کا طریقہ اختیار کرکے اپنامقام بحال کریں اور نئی پود میں وہی تعلیم پیوست کریں جو بہتر سماج کی تعمیر اور استاد کو اپنامقام واپس دلائے‘ اس لئے تمام سیاسی،علاقائی،ذات وپات اور رنگ ونسل کے اختلافات سے بالاتر ہوکر استاد اور بچوں و ان کے والدین کے رشتے کو مضبوط کرنے اور استاد کے مقام کو بحال کرنے کے اقدامات ترجیحی بنیادوں پراٹھانا اور ان کو عملی جامہ پہنانا وقت کی پکار ہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ ہر انسان کوا پنی ذمہ داریوں کو نبھانا ہوگا تب بہتر سماج کی تعمیر ممکن ہے۔ضررورت اس بات کی ہے کہ بچوں کو تعلیم سے آراستہ وپیراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کوحقائق سے روشناس کرنے اور ذمہ داریوں کااحساس دلانے میں والدین اور سماج کے ذمہ دار شخصیات اور دانشور اپنارول ادا کریں تاکہ ہمارے سماج میں استاد کا مقام اور بچوں کے ساتھ ان کی شفقت بحال ہوسکے۔