از قلم: منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر بارہمولہ
رابط:6006952656
جنگل جنگل آگ لگی ہے دریا دریا پانی ہے
نگری نگری تھاہ نہیں ہے لوگ بہت گھبرائے ہیں
اس بات سے ہر ذی حیس انسان باخبر ہے کہ ١٩۷٤ سے ہر سال ۵ جون کو عالمی ماحولیاتی دن منایا جاتا ہے جس کا خاص مقصد لوگوں کو اپنے ماحول کے تئیں بیداری اور ذمہ داریوں کا احساس زندہ کرنا ہے. ہر سال ماحولیاتی سائنس کے ماہر اس دن کو ماحول کے حوالے سے ایک خاص موضوع پر بحث یا لب کشائی کرکے لوگوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہمیں ماحول کے ہر انگ کو تحفظ بخشنا ہے.یہ دن ہمارے احساس کو بیدار کرکے اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ ماحول ہی ہماری زندگی قائم ہے اور اس کے بغیر ہمارا وجود ناممکن ہے.ہماری غفلت اور خود غرضی کی وجہ سے ہمارا ارد گرد بیمار نظر آتا ہے اس کی اصل وجہ ہماری وہ بری حرکتیں جو ہم نے ماحول کے تئیں انجام دی. ہم نے اپنے مزاج کو اس قدر لالچی اور بداخلاقی بنایا کہ اپنی بربادی کے ساتھ ساتھ جانوروں کے بھی گھر اجاڑ دیے. زمانہ موجود میں ہم جس بھی پریشانی کے شکار ہوجاتے ہیں اس کے پیچھے فقط یہی بات ہے کہ ہم نے انتہائی ناانصافی کا مزاج اپنا کر ماحول کو بربادی کی شاہراہ پر کھڑا کیا.ہم نے وہ سب کارِ بد انجام دیے کہ ہر جانور ہماری صورت سے خوفزدہ ہے. جانور تو اب ڈرے ہوئے ہےبی اب پیڑ پودے بھی مظلوم نظروں سے ہماری اس ناشائستگی کا منظر دیکھ رہے ہیں. ہم نے ہوا پانی اور قدرت کے ہر امانت میں خیانت کی جس کی وجہ سے ہم روز بہ روز مصیبتوں سے دوچار ہے. اگر بات کرہ ارض کے ایک حسین ٹکڑے یعنی کشمیر کی ہوجائے تو دل میں لفظ جنت یکدم بیدار ہوتا ہے لیکن موجودہ وقت میں اس جنت کو ہماری خودغرضی اور لالچ نے تباہ و برباد کیا. ہمارے جنگل, ندیاں, پہاڑ ,لالازار ,آبشار غرض یہاں کا ہر چیز کائنات میں بحثیت مثال ہے لیکن ہم نے اپنی بداخلاقی کو اس قدر کھلی چھوٹ عطا کی کہ یہ سب دیکھتے دیکھتے فقط تاریخی الفاظ بن گیے. ڈل جھیل کا حسن کس انسان کو اپنے پیار کے گرفت میں نہیں لیتا تھا لیکن شکاری والوں ہوس بوٹ والوں اور حکومت میں افرنگی صوفوں پر تشریف فرما نااہل ضمیر فروشوں نے اس خزانے کو تباہ کیا.
جنگلوں کو کاٹ کر کیسا غضب ہم نے کیا
شہر جیسا ایک آدم خور پیدا کر لیا
اب جھیل کی بدبو انسانوں کو بے ہوش کرنے کے لیے ہی کار آمد ہے. جس جھیل کا پانی مردہ دلوں کو زندگی کی خبر دیتا تھا آج اسی میں گندگی کے ڈھیر اس قدر موجود ہے کہ یہ جھیل اپنے ظلم کی واویلا خود کررہی ہے. ہم نے ماحول کو بچانے کے نام پر فقط زبان پر افسوس کےتسبیح کی عمل کی باقی زمینی سطح پر ہم نے کیا سلوک کیا اس سے ہم سب باخبر ہے. ڈل اب موت کی ہچکیوں میں محو عمل ہے. اب اگر ماحول کے وفاداری پر بات کرے تو جس طرف نظر دوڑتی ہے وہاں فقط ماتم ہی ماتم.ہمارا سبز سونا یعنی جنگلات ہم نے ان کے ساتھ جو تباہی کا سلوک کیا اس سے ہر فہیم انسان آشنا ہے. رسول اکرم ﷺ نے فرمایاجو مسلمان کوئی درخت لگائے اور اس میں(پھل یا چارہ ) انسان یا جانور کھائے تو بونے والے کے لئے وہ تا قیامت باعث ثواب (صدقہ) ہو گا ( راوی۔ حضرت جابر بن عبدللہ۔ مسلم)ایک اور حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”اگر کسی نے ایک پودا لگایا اس پودے کو انسان اور جانور جب تک کھاتے رہیں گے یا اس سے انسانوں کو فائدہ (سایہ کی صورت میں) ملتا رہے گا تو اس کا اجر اس شخص کو ملتا رہے گا۔ گلمرک سے لیکر تمام جنگلات کا کٹاو بغیر خوف کے ہورہا ہے اور اس معملے میں سیاسی مضبوط ہاتھ شامل حال ہے. اس مصیبت وبا کی گھڑی میں بھی لوگوں نے ندامت اختیار نہیں کی بلکہ جنگلات کا قتل تمام علاقوں میں ہوا. اب جنگلی جانوروں کا جینا محال ہوا ہے اور دیکھا جائے تو
کشمیر میں چرندے پرندے اور جنگلات روز بہ روز تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں انتظامیہ فقط کاغذی گھوڑے ہی دوڑاتا ہے. ہم سب کو اس معملے میں حساسیت اختیار کرنی ہے ورنہ ہماری زندگی جہنم بن جائے گی. اگر ہمیں زندگی بچانی ہے تو تمام قدرتی وسائل کو جان سے عزیز سمجھ کر ان کی حفاظت میں آواز اٹھانی ہے. گلمرک کے جنگلات میں دور دور میں اب درخت نظر آتے ہیں یہ نتیجہ ہے ہمارے لاپرواہی کا.اس حوالے سے گاوں میں پنجایتوں کے ذریعے سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے. کیونکہ سبز سونے کا لوٹ ہماری بربادی کا مکمل ذریعہ ہے.اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہزاروں بیماریاں جنم لے سکتی ہے اور دوائیاں بھی روز بہ روز کم ہوجائیں گے. خیر اگر اپنے ارد گرد کے ماحول کو دیکھا جائے تو گندگی کے ڈھیر ہر دو قدم پر نظر آتے ہیں جس کے لیے ہم صرف اتنا تکلیف کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر مشتہر کرکے حکومت سے اس کی سفائی کے لیے ملتمس ہوجاتے ہیں جو کہ ایک ثمر آور بات نہیں ہے بلکہ حکومت کو یکطرف رکھ کر خود بھی اس کار خیر کو انجام دینے کے لیے کمر بستہ ہونا ہے.کوڈا کرکٹ صاف کرنے میں ہم انفرادی طور ذمہ داری کو بیدار کرے. ماحول میں درخت لگانے کا آغاز کیا جائے.ہوا کو صاف رکھنے کے حوالے سے ہمیں ہر اس چیز کو قابو میں لانا ہے جو اس کی آلودگی کا سبب ہے یہی مسلہ پانی کے حوالے سے بھی. ہمارے ندی نالوں میں جو بھی گندگی موجود ہے اگر تمام تعلیم یافتہ نوجوان ہمت کا کمر باندھ کر آگے آئیں گے تو ہمیں ان معمولی مسلوں پر حکومتی اداروں کے سامنے بھیک نہیں مانگنا ہے بلکہ خودی کے زور سے ہم ماحول کو خوشگوار بنا سکتے ہیں.ماحول میں جو بھی تبدیلیاں رونما ہوتی ہے وہ سب کچھ ہماری غیر اخلاقی حرکتوں سے ہوتی ہے.ہمارے جنگلات, جنگلی جانور, آبی وسائل اور باقی قدرتی وسائل ہماری خود غرضی کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر ہیں جس کی وجہ سے ہم موسموں کی تبدیلی اور ماحول کے مضر اثرات سے دوچار ہے. کیونکہ بابا آدم کے زمانے سے یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جب جب انسانوں نے قدرتی قانون کے ساتھ خود غرضی کا طریقہ اپنایا تب تب ماحول نے لوگوں کو بربادی کے دہانے پر کھڑا کیا.موجودہ وقت میں جو بھی ماحولی یا موسمی مسائل جنم لے رہے ہیں اس کا وجہ یہی ہے کہ ہم لوگوں نے حیاتیاتی تنوع کے ساتھ اپنےخود غرضی کے ہاتھوں ظلم کیا جس کی وجہ سے خوشگوار موسم ماحول کی رونق یا دیگر مفید چیزیں اب دن بہ دن نایاب ہوتے جارہے ہیں. اس احساس کا تشویش عالمی سطح پر محسوس ہوا اور ماحولیاتی ماہرین یا انسانی خیرخواہ اس چیز کے لیے فکر مند ہوئے.اب عالمی ماحولیاتی دن منایا جاتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ لوگوں میں یہ ادراک بیدار ہوجائے کہ ہماری لاپرواہی سے سارا قدرتی ماحول تباہی کے دہانے پر ہے اور اس کا تحفظ ہماری اولین ذمہ داری ہے.یہ دن اقوام متحدہ کے مشورے کے مطابق عالمی سطح پر منایا جاتا ہے اور اس سے لوگوں کے شعور کو اس بات کے لیے بیدار کیا جاتا ہے کہ ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر ماحول کی بقا کے لیے آگے آکر ذمہ داری اور سنجیدگی سے کام لینی .ہے. کیوں نا ہم خود میں یہ احساس پیدا کرے کہ گردونواح کا ماحول کو صاف رکھنے کے لیے کچھ وقت عبادت سمجھ کر اس میں صرف کیا جائے. رب کعبہ اس کے بدولت ہمیں مقام عطا کرے گا. اب بگڑتی صورتحال کی وجہ سے ہر موسم چہرہ بدل کر آتا ہے. اب وہ برف کہاں جو انسان کو خوشی میں اضافہ کرتا تھا بلکہ اب موسم بھی ہمارے ساتھ وفا کا سلوک نہیں کرتا اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہم نے ظلم کی انتہا کر دی اگر یہی روش جاری رہی تو بات سچ ثابت ہوگی کہ
رچھن ژ تلہ کتر تہ میہ چین تریش آرپل
سوزیہ بہ ڈالہء تاپھ ژ سوزیم نشانہ شین
جنگلات کو حکومت سے لے کر عام انسانوں تک جس نے جو چاہا وہ تباہی کردی. اب اس کا یہ انجام ہوا کہ موسموں میں اب بہت تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے. ماحول بری طرح سے متاثر ہوا. شور یا ہوا کی آلودگی کا مسلہ حد سے زیادہ بڑھ گیا. بہت سارے بیماریوں نے جنم لیا جن کے بارے میں اب سائنس بھی سوالیہ نشان کے دائرے میں کھڑا ہے. اب اتنے ماحولی مسائل کا للکار درپیش ہے کہ ہر ایک کسی بھی وقت پریشانی کا شکار ہوسکتا ہے. اب سہلاب ہر سال ہماری زندگی کو ویران کرکے جاتے ہیں. اگر دیکھا جائے تو چند سالوں سے اب سہلاب بڑے شرارت بھرے انداز سے گھر گھر کی تلاشی لیتے ہیں اس کا اصل سبب ہم لوگوں نے ماحول کے توازن کو ٹھیس پہنچایا. اگرچہ ہمیں اسلافوں سے یہ تربیت ملی تھی کہ ماحول میں ہر چیز کے ساتھ سلوک سے رہنا ہے کسی چیز پر ظلم نہیں کیونکہ یہ ہماری زندگی گزارنے کا ذریعہ ہے. بقول نند ریش رح
” ان پوشہ تیلہ یلہ ون پوشہ”
ہمارا غذا تب موجود رہے گا جب جنگلات رہیں گے. لیکن ہم نے اس تعلیم کو فقط کتابی دنیا تک محدود رکھا جس کی وجہ سے ہم زوال پزیر ہوئے. جنگلات کے کٹاو سے جنگلی جانوروں کے رہایش گاہ تباہ ہوگئے جس کی وجہ سے وہ بھی ہمارے لیے مسلہ بن گیاہے.ہم سب ایک یا دو دن کے بعد یہ خبر پڑھتے یا سنتے ہیں کہ کسی گاوں میں ریچھ یا چیتے نے انسان پر حملہ کیا اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کے گھر ہم نے تباہ کیے اب وہ ہم پر برس رہے ہیں. محکمہ وائیلڈ لیف بھی اب اس چیز کو قابو کرنے میں کمزور نظر آرہی ہے اس کی اصل وجہ ہماری خود غرضی ہے. جتنا ہم اس چیز کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے اتنا حادثات زیادہ بڑھیں گے. بدقسمتی سے ان دنوں بھی جب کہ پورے عالم میں النفسی کا عالم ہے ہمارے جنگلات کئی شر پسندوں کے ہاتھوں شکار ہورہے ہے. کچھ دنوں پہلے محکمہ جنگلات نے کئی بے غیرتوں کو پکڑ کر فتح حاصل کی.لیکن جس بیماری یعنی Covid19 نے ہم پر حملہ کیا یہ بھی ہماری غیر ذمہ دارانہ مزاج سے ہوا ہم نے توازن کے ساتھ طفلگی کا طریقہ اپنایا تو قدرت نے ہمیں سریا سے زمین پر دے مارا. ہمارے یہاں بہت سارے جانوروں کی نسل ختم ہورہی ہے اب وہ فقط تاریخی الفاظوں میں نظر آتے ہیں ان میں ہانگل ایک اہم نام ہے جو ہمارے سرمایے کا ایک اہم کردار ہے. اگر یہ روش جاری رہی تو وہ دن دور نہیں کہ آکیسجن کے لیے بھی مسائل جنم لیں گے.اسلام نے ان جانوروں پیڑ پودوں کو تحفظ بخشا مگر ہم نے ظلم کی انتہا کردی.اللہ تعالی نے قرآن پاک میں جانداروں کو انسان کا خاندان یا انسانوں کی طرح نوع کہا ہے۔ سورہ انعام (آیت 38 ) کا مفہوم ہے ۔” اور زمین میں چلنے والے جانور اور دو پروں پر اڑنے والے (پرندے ) تمہاری طرح جماعتیں (خاندان) ہیں“۔دوسری طرف قرآن پاک کی ایک آیت میں بہت واضح طور پر کائنات میں ماحول میں بگاڑپیدا کرنے کی سزا بتائی گئی ہے ، ”زمین اور سمندر میں انسان کے ہاتھوں جو کچھ بھی غلط ہوتا ہے اس کا نقصان اس کو اٹھانا پڑتا ہے “اور اگر کوئی اس دنیا میں ماحول کے تحفظ کے لیے کوشش کرتا ہے تو اس کواس عمل کااجر ملے گا ۔
آیے سب مل کر اپنے سوچ کو اس بات کے لیے قائل کریں گے کہ ہم.ہی اپنے ارد گرد کے ذمہ دار ہے.ہمیں انفرادی سطح سے یہ حالات بدلنے ہیں. اللہ ہمیں عقل سلیم عطا کرے کہ ہم اس ماحول کی تحفظ کو فرضی عمل سمجھیں گے.آمین