شیخ عابد حسین احساس
ترہگام
9906609701
سماجی جرائموں کو انجام دینے میں, میں نے تقریباً تمام مخلوقات کو ذمہ دار ٹھرایا جو ہماری عام زندگی میں سماج کا حصہ ہیں. پر جب ہر ایک مخلوق پر بغور مطالعہ شروع کیا تاکہ یہ جان سکوں کہ سماج کو آلودہ کرنے میں کس مخلوق کا کتنا حصہ ہے. یعنی میں نے ایک مشاہدہ شروع کیا تو ایسا لگا جیسے ہر ایک مخلوق معصوم ہے سوائے انسان کے, جو انسان سماج کو آلودہ کرنے میں کوئی کثر باقی نہیں چھوڑتا. یہاں ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک انسان جس کو قدرت نے اتنے بڑے لقب سے نوازا ہے یعنی ہم کیسے امید کر سکتے اس مخلوق سے جس کو قدرت نے سب سے افضل مخلوق قرار دیا ہے. اور سب سے بڑھ کر شعور دیا ہے.
سوال یہ بھی ہے کہ انسان کون ہے؟ عام طور پر ہم انسان اسی کو کہتے ہیں جس کے اندر انسانیت ہو, اچھی بات ہے ہم بجا کہتے ہیں, لیکن میرے نزدیک انسان وہ ہے جس کا ہر ایک عمل انسانیت کے دائرے کے اندر ہو, اب اگر ایک شخص خود کو انسان سمجھ لیتا ہے پر انسانیت کے دائرے میں کام نہیں کرتا ہے تو وہ لا انسان کے ساتھ ساتھ لا مزہب بھی ہے.
موجودہ دور میں ہم سماج میں مختلف جرائموں کو دیکھتے ہیں جن میں سے کچھ ایسے جرائم بھی ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر ہم لرز اٹھتے ہیں اور ہماری زبان خاموش ہوجاتی ہیں. اور ہم سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ آیا یہ کون درندہ تھا جس نے اسے انجام دیا. لیکن جب خیال کرتے ہیں تو سمجھ آتا ہے کہ یہ کوئی غیر نہیں بلکہ ایک انسان ہی ہے اور اسی پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں حالنکہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ان جرائموں سے نہ صرف موجودہ نسل کو بلکہ آنے والی نسل کو بھی بے حد نقصان ہیں.
موجودہ نسل جب سماج کو آلودہ کرتی ہیں تو آنے والی نسل بھی بگھڑی ہوئی نظر آتی ہیں اسی لیے کہ ان کا جنم ایک صحیح ماحول میں نہیں ہوئی ہوتی ہے. جس ماحول کو آلودہ کرنےمیں انسان کا سب سے بڑا ہاتھ ہوتا ہے آئے ہم سب مل کر اپنے آپ کا مشاہدہ کریں کہ سماج کو سنوارنے میں ہمارا کیا اشتراق ہیں اور یہ بھی جاننے کی کوشش کریں کہ ہم اپنے ساتھ اور اپنی آنے والی نسل کے ساتھ کتنا ظلم کرتے ہیں. آئے ہم عہد کرتے ہیں کہ سامج کو ہر آلودگی سے پاک کریں. اور ایک پُر فضا ماحول قائم کریں. جسے ہم, پیڑ پودے اور جانور سکون حاصل کریں. ہماری آس پاس مخلوقات اس کے منتظر ہیں تاکہ راحت کی سانس لے پائیں.