مومن مقبول
کولگام کشمیر
وجود انسان نے دنیا کو ایک ایسے مخلوق سے نوازا ۔جو دنیا کو سنوار کر مہکانے سے لے کر بہکا کر بگاڈنے تک کے تمام تر خصوصیات و ہنر رکھتا ہے۔کاینات کے قیام سے ہی مخلوقات میں یہ روش رہی ہے کی زندگی کو اچھے سے بہتر اور بہتر سے بہترین بنایا جائے۔ایک ایسی دنیا کا قیام ہو جو مثالی ہو،جسمیں امن اور امن کے چاہنے والے ایک ساتھ ملکر رہتے ہوں،جہاں سماج خود میں جان رکھتا ہو اور انفرادی خیالات کو بروے کار لانے کا ہنر رکھتا ہو۔اسی نظریے کے ارد کی کروں اور تحریکات چلے۔جو زندگی کی بہتری کے راستے پر ہموار تھے۔چاہے وہ حضرت نوح کا ناؤ کا بنانا ہو ،حضرت موسیٰ کا عصاء مارنا ہو یا کوئی فرانسیسی یا روسی انقلاب کی لہر ہو۔ان تمام تر کوششوں کا دعوا زندگی کو سنوارنے کا تھا۔
وقت کے گزارنے کے ساتھ ساتھ اس نظریہ کی شناخت بدلتی رہی۔جہاں پہ سماج بہتری کا خیال تھا وہاں پہ حصول طاقت کی لالچ پیدا ہو گئ۔جہاں انسانی زندگی قدر و قیمت رکھتی تھی وہاں اسی انسان کو داؤ پر لگیا جا رہا ہے۔جہاں آنسوں اثر رکھتے تھے وہاں خون بے اثر ہو گیا۔گرز یہ کہ انسان کی لالچ نے اس نظام کو بگاڈ کر رکھ دیا۔ایک انسان کو دوسرے پے عظیم بنا دیا،ایک قوم کو دوسرے سے ایک ملک کو دوسرے سے اور کیا کیا نہیں۔فساد برپا کر دیا اور تاریکی کو اپنےروز میں مدعو کیا۔
جب اندھیرے کی انتہا ہو گیئ اور ظلمت کی رات خوب چھا گی تو صبح کا عیاں ہونا ضروری تھا۔ان ظلمتوں کو دور کرنے کے لئے اللّه کی طرف سے زمین والوں کے لئے ایک چراگ آیا۔چارگ کہ جسنے اس رات کی تاریکی کو صبح کی روشنی میں بدل ڈالا۔اور دنیا کو ایک عملی نمونہ پیش کیا کہ امن و سکوں کی زندگی ایک ہی سايے کے نیچے ہے ۔ جو کہ دین اسلام ہے۔جو انسان کو زندگی کے ہر کسی شعبے میں ترقی تک رہنمایی کرتا ہے۔جو اعلیٰ ہستی حیوانوں کی دنیا میں ایک معمولی انسان کو اشرف ال مخلوقات بنا دیتا ہے۔رسول ﷺ نے دین اسلام کی رہنمایی میں ایک ایسی سوسائٹی کی بنیاد ڈالی جو قیامت تک انسان کو رہنمایی کرے گی ترقی تک۔ایک ایسا نظام دنیا کو بخشا جسکی طلب میں آج بھی لوگ مرتے مٹتے ہیں۔لیکن محرومی کا خاتمہ نہیں ہوتا۔
دور حاضر میں دیکھا جائے تو بظاھر محسوس ہوتا ہے کہ ساینسی ایجادات اور اسکی دیں سے انسانی زندگی عروج پر ہے۔لیکن دیکھا جائے تو انسانی زندگی کی تخلیق سی لے کر آج تک کے تمام مراحل میں سے بدترین اور پرفتن دور دور حاضر ہے۔نہ آواز کی قیمت ہے نہ ہی خون کی قدر۔لگتا ہے کی جاہلیت نے عالم لوگوں کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔وحشت نے انسانیت پر قابو پا لیا ہے۔جس مسلم قوم نے دنیا کو زندگی کی حقیقت اور جینے کے طریقے سے آراستہ کیا تھا۔آج وہی قوم خود مجبور و محکوم پڈی ہے۔دنیا پر چوروں اور قاتلوں کی حکمرانی نافذ ہے۔اور امن کے دعوے میں ہزاروں کی تعداد میں معصوم لوگ روز مر رہے ہیں۔
ایسے پر فطن دور میں انسانیت کو ایک ایسی رہبرانہ اور رہنما قیادت کی ضرورت ہے۔جو پھرسے ایک مثالی طریقے سے دنیا کو سنبالے اور سنوارے۔جسکے لئے ہزاروں کوششیں بر کرار ہیں۔مسلمانوں کا رول اس تحریک میں کچھ کم نہیں ہے۔البتہ باریکی سے دیکھا جائے تو مسلم قوم اس وقت انسانیت کو کچھ دینے سے قاصر ہے۔جہاں پر دنیا کا دستور ہی یہی رہا ہو کہ دنیا کی قیادت انہی ہاتھوں میں رہتی ہے جو ہاتھ انسانیت کو کچھ دینے کا ہنر رکھتے ہوں۔وہاں پراکثریت میں یہ پایا جاتا ہے کہ مسلمان اپنے لئے پہننے کے کپڑے بھی دوسروں سے ہی لیتے ہیں اور خود چھو ٹے مسایل میں ایک دوسرے کی دشمنی میں محو ہیں ۔
دنیا کی حکومت اللّه تعالا کے ہاتھوں میں ہے ۔اور اللّه تعالازمین پر نیب اسی کو مقرر کرتے ہیں جو اسکی مخلوقات کو کچھ فراہم کرنے کے طریقے سےبخوبی واقف ہو ۔بھلا ایک مالک کسی ایسے انسان کو بغبان کیسے بنا سکتا ہے جو اپنے گھر کے چھوٹے مسلوں میں پڑھ کر پورے باغ کو ہی جلاڈالے۔یقیناً وہ کسی ایسے فرد کو کام سونپے گا جو باغبانی کا ہنر کسی سے بھی اچھا رکھتا ہو۔
مسلمانوں کے پاس بلکل بگڈی زندگی کو سنوارنے کا طریقہ موجود ہے۔لیکن اس طریقے کو بروکار لانے کے لئے کسی صلاح دین کی ضرورت ہے جو اپنے قوم کی حفاظت کے لئے اپنا گھر بار رات کے اندھیرے میں چھوڑنے کے لئے تیار ہو۔طارق بن زیاد کی ضرورت ہے جو اپنی کشتیاں جلانے کا ہنر رکھتے ہوں۔اس قوم کو محمودغزنوی کی ضرورت ہے،تیمور کی ضرورت ہے،بابر کی ضرورت ہے۔جو نہ کہ صرف طریقے کا علم رکھتے ہوں بلکہ اسکو عملی جاما پہنانے کے طریقے بھی جانتے ہوں۔جو نہ کہ صرف زرایعوں کا استعمال جانتے ہوں بلکہ دنیا کو زرایعوں سے نوازنے کا ہنر بھی جانتے ہوں۔
بلاخر ضرورت اس چیز کی ہے کہ ہر فرد کو بروےکار لآیا جائے اور باہمی مسایل کو دیگر کر کے ایک ساتھ کام کر کے دنیا کو روشنی کی جھلک سے آشنا کیا جائے۔اور دنیا کی کھیتی میں امن کے ایسے درخت لگاے جایئں کہ جن کےسایے میں آکر ساری کاینات امن کے گیت گیایں اور پھر امن کے پھول مہکیں۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارا
(اقبال)