سجاد احمد خان
ریپورہ گاندربل کشمیر
گذشتہ دنوں غزہ‘ فلسطین میں اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کے بعد قبلہئ اول‘ بیت المقدس اور فلسطین ایک مرتبہ پھر دنیا بھر کی نظروں کے سامنے آگئے۔ تحریکِ جہادِ فلسطین کی داستان تقریباً ایک صدی پر پھیلی ہوئی ہے‘ جس سے آج ہماری نئی نسل بالکل ناواقف ہے۔ اہل ِ فلسطین کی کہانی روشنائی سے نہیں اُن کے مقدس لہو سے لکھی گئی ہے۔ فلسطین کے ہر چپہ بھر زمین پر قربانیوں کی ایسی لازوال داستانیں نقش ہیں جس سے وہاں کے باشندوں کی جرائت غیرت اور استقامت کا پتہ چلتا ہے‘ فلسطین کے معصوم بچے‘ قابلِ عزت مائیں بہنیں اور جوان‘ بوڑھے سب ہی جس ظلم کی چکی میں پِس رہے ہیں اُس کے بارے میں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو بزبانِ حال یہی کہہ سکتے ہیں: ؎
تم شہرِ اماں کے رہنے والے! درد ہمارا کیا جانو!
ساحل کی ہوا‘تم موج صبا‘ طوفان کا دھارا کیا جانو!
بیت المقدس‘ مسجد اقصیٰ‘ قبلہئ اول‘ غزہ‘ فلسطین اور حماس۔ یہ سب وہ الفاظ ہیں جو آج کل ساری دنیا کی خبروں پر چھائے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطینی مسلمان اب تقریباً ایک صدی سے تکلیف اور آزمائش کی چکی میں پس رہے ہیں اور یہ دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو خود اپنے ہی علاقے اور اپنے وطن میں مہاجروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل اہلِ فلسطین کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ کسی بھی صورت اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
فلسطین کا غم‘ امت مسلمہ کا مشترکہ غم ہے اور اہل ِ فلسطین کا درد بھی سانجھا ہے۔ ایک لمبا وقت گزر چکا ہے‘ کئی نسلوں سے چلا آنے والا یہ المیہ آج بھی تازہ ہے۔ اس موقع پرتُرکی کے صدر نے فلسطین کے معاملے صرف امت‘ مسلمہ کی ترجمانی ہی نہیں کی بلکہ تاریخِ اسلام کی کئی بھولی بسری یادیں بھی تازہ کر دی ہیں۔ یہ یادیں چونکہ یہود و نصاری کیلئے تو ہیں ہی سو ہانِ روح‘ ساتھ ساتھ عرب قوم پرستوں کو بھی یہ اچھی نہیں لگتیں‘ اس لیے ان کو بھلا دیا گیا ہے۔ قوم پرستی اور بت پرستی میں کوئی بہت زیادہ فرق نہیں۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو ہی جڑ سے اکھیڑ پھینکا تھا۔
۲۹۴ھ میں اہل ِ صلیب نے فلسطین پر جب اپنے خونی پنجے گاڑے تو موصل کے سلطان عماد الدین زنگیؒ آگے بڑھے۔ وہ بھی نسلی اعتبار سے ترک تھے۔ وہ قحطان کی نسل سے تھے نہ ہی اُن کا نسب نامہ عدنان سے ملتا تھا۔ وہ تو اسلام کے سدا بہار گلشن کے پھول تھے۔
۱۴۵ھ میں عماد الدین زنگیؒ نے جام شہادت نوش کیا تو اُن کے صاحبزادے‘ جو واقعی صاحبزادے کہلانے کے لائق تھے‘ سلطان نورالدین زنگیؒ نے آزادی فلسطین کا پرچم بلند کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے اتنی سختیاں جھیلیں‘ مشقتوں کا سامنا کیا‘ تلخ گھونٹ پیے اور مشکلات کا سفر طے کیا کہ لوگ اُنہیں چھٹا خلیفہ راشد کہنے لگے۔
نورالدین دمشق (شام) تک تو جا پہنچے لیکن القدس کے اس بیٹے کا دل مسجد اقصیٰ میں ہی اٹکا ہوا تھا۔۹۶۵ھ میں جب یہ بھی لیلائے شہادت سے ہم آغوش ہوئے تو یہ پرچم سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے تھام لیا۔ یہ نسلی اعتبار سے کُرد تھے اور کوئی شک نہیں کہ سلطان جیسے لوگ صدیوں میں جنم لیتے ہیں اور مائیں ایسے بچے بہت کم جنا کرتی ہیں۔ تاریخ اسلام کے اس عظیم جرنیل کی تعریف اس کے بد ترین مخالف بھی کرتے ہیں اور مسلمانوں کی تو حالت یہ ہے کہ ان کا نام آتے ہی آنکھوں میں نور اور دل میں سرور اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
۰۷۵ ھ مطابق۴۷۱۱ء میں صلاح الدین ؒ نے دمشق میں داخل ہو کر مسلمانوں کو اس پرچم تلے متحد کیا۔ پھر جو پے درپے معرکے شروع ہوئے تو ۵۲ ربیع الثانی ۳۸۵ھ ۷۸۱۱ء کو ”حطین“ کے مقام پر سلطان نے صلیب پرستوں کو ایسی فیصلہ کن شکست سے دو چار کیا کہ اب اُس کے اور القدس کے درمیان کوئی قابلِ ذکر رکاوٹ نہیں تھی۔ اسلامی لشکر سروں پر عزت کے تاج رکھے‘ فتح کے پرچم لہراتا ہوا، ۷۲ رجب المرجب ۳۸۵ھ کو بیت المقدس میں داخل ہوا۔ اُس دن پورے عالم اسلام میں شکرانے کے نفل ادا کیے گئے اور اہلِ ایمان نے ہر طرح اپنی خوشیوں کا اظہار کیا۔
تاریخ کا پہیہ ذرا آگے گھوما تو۱۴۶ھ کو ملک کامل نے القدس فرنگی بادشاہ انبرٹن کے حوالے کیا تو سلطان نے اگلے ہی برس دوبارہ اسے واپس چھین لیا۔ اس مرتبہ ان کے لشکر میں بہت بڑی تعداد خوارزمیوں کی تھی‘ جو عرب کے باشندے تھے نہ گلشن عرب کے پھول۔ وہ تو اسلام کے سپاہی تھے۔
۶۵۶ھ ۷۵۲۱ء کو تاتاری لشکر کے ہاتھوں دارالخلافہ بغداد تباہ و برباد ہو گیا۔ تب ظاہر بیبرس اور ملک مظفر مسلمانوں کیلئے امید کی کرن بن کر طلوع ہوئے۔ ۸۵۶ھ کو ”عین جالوت“ کے مقام پر اس کے یہ فدائی ٹکرائے اور انہوں نے تاتاریوں کے ٹڈی دل لشکر کو تتر بتر اور تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ اس عظیم فتح پر ملک مظفر، اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر ادا کرنے کیلئے اپنے گھوڑے کی پشت سے زمین پر آگرا۔ یاد رہے کہ یہ دونوں بھی نسلی اعتبار سے عرب نہیں تھے۔
ہاں وہ شریف مکہ حسین ضرور عرب تھا‘ جسے برطانیہ نے عرب کی بادشاہت کا لالچ دیا تو اُس نے امت مسلمہ کے دل میں خنجر اتارتے ہوئے خلافت عثمانیہ‘ ترکی سے بغاوت کر دی۔ حالانکہ فلسطین چار صدیوں تک (۶۱۵۱ء تا ۸۱۹۱ء) اس کے زیر سایہ‘ دین ِ اسلام کی پیاری مہک میں بغیر کسی انتشار اور خلفشار کے پھلتا پھولتا رہا تھا۔ یہ وہ ہی شریف مکہ ہے‘ جس کا تذکرہ آپ کو بکثرت‘ حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کی کتاب ”اسیر مالٹا“ میں ملے گا۔ اس نے برطانیہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ اور ان کے پاک باز ساتھیوں کو گرفتار کر کے برطانیہ کے حوالے کیا تھا اور انگریزی حکومت نے انہیں پہلے مصر اور پھر جزیرہ مالٹا منتقل کر دیا جہاں یہ حضرات تین سال دو ماہ قید رہے۔ ایک عجیب ستم بھرا اتفاق ملا حظہ فرمائیں کہ اس شریف ِ مکہ کو بھی اپنے سادات میں سے ہونے پر بڑا فخر تھا لیکن اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب امتیوں کو پکڑ پکڑ کر کفار کے ہاتھوں بیچتے رہا۔
بات آئے القدس کے بیٹوں کی اور اُس میں خلافت عثمانیہ ترکی کے آخری تاجدار سلطان عبدالحمید رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر نہ آئے۔ وہ عظیم ہستی جو دنیا سے اس مظلومیت کے ساتھ گئی کہ مسلمانوں نے بھی اُنہیں ڈکٹیٹر، ظالم اور لالچی کے القابات دئیے اور غیبت کرنے والوں کی زبانیں اور قلم آج تک اُن کا گوشت نوچ رہے ہیں۔ اُن کی وفات اور خلافت عثمانیہ کے اختتام کے بعد جب مشہور یہودی لیڈر ہرتزل کی ڈائری شائع ہوئی تو پتہ چلا کہ سلطان عبدالحمید رحمۃ اللہ علیہ کو دراصل کس جرم کی سزا دی گئی تھی اور وہ تو فلسطین کے اُن عاشقوں میں سے جن کے بارے میں کہا گیا ہے: ؎
آئے عشاق‘ گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ‘ چراغِ رخِ زیبا لے کر
یہودیوں کے اپنے اعترافات کے مطابق سلطان عبدالحمید سے یہودیوں کے رابطوں کی ابتدا (1882)۲۸۸۱ء سے ہوئی جب ”صہیون دوست تنظیم“ نے اودیسا (روس) میں عثمانی قونسل کے سامنے فلسطین میں قیام کی اجازت کے لئے درخواست پیش کی- چنانچہ اس درخواست پر سلطان عبدالحمید کا جواب یہ تھا:
”ساری سلطنت عثمانیہ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ ترکی کی جانب ہجرت کرنے کے خواہش مند یہودیوں کو فلسطین میں ٹھہرنے کی اجازت نہ دی جائے“-وقت کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے جذبے کو اور مہمیز ملی اور انہوں نے وفد پر وفد سلطان کی خدمت میں بھیجنا شروع کئے مگر سلطان کی جانب سے انکار کے سوا کوئی جواب نہ ملتا تھا- امریکی سفیر نے مداخلت کی تو سلطان نے کہا:”جب تک سلطنت عثمانیہ قائم ہے میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتا“-
پال کانگریس کے بعد صہیونی تحریک میں تیزی آگئی جس نے سلطان کو۰۰۹۱ء میں وہ مشہور حکم جاری کرنے پر مجبور کردیا جو استانبول میں موجود ساری دنیا کے سفیروں کو پہنچایاگیا- اس حکم کے تحت یہودی زائرین کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ فلسطین میں صرف تین ماہ قیام کرسکتے ہیں اور ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے نقطہ دخول (انٹری پوائنٹ) ”بندرگاہ باب عالی“ پر اپنے پاسپورٹ سرکاری کارندوں کے حوالے کردیں – اس مدت سے زیادہ مدت قیام کرنے والے کو زبردستی نکالا جائے گا- سلطان نے یہودیوں کیلئے ”سرخ پاسپورٹ“ بھی جاری کیا تاکہ ان کو نکالنے میں آسانی ہو، اس وجہ سے جب یہودیوں کو قوت ملی تو انہوں نے سفارتی پاسپورٹ کا رنگ سرخ کردیا -اس پاسپورٹ کے حامل افراد کو بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر نہیں جانچا جاتا-
۱۰۹۱ء میں سلطان کے ایک حکم کے ذریعے یہودیوں کو فلسطین کی ایک چپہ زمین بھی خریدنے سے منع کردیا-ہرتزل مایوس نہیں ہوا- ۲۰۹۱ء میں ”قراصو“ کے ہمراہ ایک وفد اور نہایت قیمتی تحائف لے کر سلطان عبدالحمید سے ملنے گیا مگر سلطان نے ملاقات سے انکار کردیا- چنانچہ سارے تحائف ان کے وزیر اعظم تحسین پاشا کے حوالے کردیئے-
سلطان عبدالحمید کیلئے جو بیش بہا تحفے یہودیوں کی طرف سے لائے گئے تھے‘اُن کی تفصیل یہ ہے:
۱:۔۔۔۔ سلطان کی جیب خاص کے لئے پندرہ کروڑ انگریزی پاؤنڈ(۰۵۱ملین)-
۲:۔۔۔۔ سلطنت عثمانیہ کی تمام قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داری- ان قرضوں کی مقدار تین کروڑ تیس لاکھ انگریزی اشرفیوں کے برابر تھی- (۳۳ملین)
۳:۔۔۔۔سلطنت عثمانیہ کے دفاع کے لئے بحری بیڑے کی تعمیر جس پر لاگت کا اندازہ دس کروڑ بیس لاکھ سنہری فرانک تھا- (۰۲۱ ملین فرانک)-
۴:۔۔۔۔ بیت المقدس میں عثمانی یونیورسٹی کی تعمیر- ۵:۔۔۔۔ ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لئے تین کروڑ پانچ لاکھ گولڈن پاؤنڈ کی بطور قرض حسنہ فراہمی- (۵۳ ملین)
جیسا کہ خود ہرتزل کی ڈائری میں موجود ہے کہ ان ساری پیشکشوں کے جواب میں سلطان عبدالحمید نے کہا:”ڈاکٹر ہرتزل کو نصیحت کرو کہ آئندہ اس موضوع پر سنجیدگی سے کوئی قدم نہ اٹھائے- میں اس سرزمین کے ایک بالشت سے بھی دستبردار نہیں ہوسکتا، کیونکہ یہ سرزمین میری ذاتی ملکیت نہیں بلکہ یہ ساری عوام کی ہے- میری عوام نے اس کے حصول کے لئے جنگیں لڑی ہیں اور اسے اپنے خون سے سینچا ہے- یہودی اپنے کروڑوں پاؤنڈ اپنے پاس رکھیں جس دن میری سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے کئے جائیں گے وہ فلسطین کی سرزمین مفت میں حاصل کرسکیں گے- جب تک میں زندہ ہوں مجھے اپنے جسم کے ٹکڑوں کو دیکھنا فلسطین کو سلطنت عثمانیہ سے الگ دیکھنے سے زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے، یہ معاملہ نہ ہوسکے گا- میں جیتے جی اپنے جسم کی جراحی اور چیر پھاڑ کی اجازت نہیں دے سکتا“-
دین، سرزمین، خون اور عزت کی حفاظت پر بڑی لاگت آتی ہے، وقت کے چیلنجوں اور دشمنوں کی دھمکیوں کے سامنے صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والے لوگ ہی کھڑے رہ سکتے ہیں – وہی لوگ جو اللہ تعالیٰٰ کی مضبوط رسی کو تھامے ہوئے ہیں، جو اپنے ایمان کو دنیا کی حقیر متاع سے بلند سمجھتے ہیں او ر جو اپنے یقین کی قوت سے ہر طاغوت اور ظالم کا مقابلہ کرسکتے ہیں -اس ملاقات کے بعد یہودیوں نے سلطان عبدالحمید کو خلافت سے محروم کردینے کاپکا عزم کرلیا اور قراصو نے سلطان کے نام تار دیا کہ ”تمہیں اپنی اس ملاقات کی قیمت اپنی جان اور تخت کی صورت میں ادا کرنا پڑے گی“-چنانچہ سلطان کے اس تخت کو بارود بھری گاڑی کے دھماکے سے تباہ کرنے کی کوشش کی جس پر وہ جمعہ کی نماز ادا کیا کرتے تھے- مگر اللہ تعالیٰٰ نے ان کو بچالیا- اس کے بعد ”فری میسن“ (آزاد معمار) یہودی تنظیم کے ذریعے افسروں اور بڑے سرکاری ملازمین سے رابطے شرع کئے اور جگہ جگہ فری میسن کی انجمنیں قائم کیں – سالونیک پر خصوصی توجہ دی گئی، ان انجمنوں کے ذریعے دستور کے اعلان کا مطالبہ کیا، جس کا مطلب ”یہودیوں اور عیسائیوں کو مسلمانوں کے برابر“ قرار دلانا تھا-
فوج کے بعض یونٹوں نے حرکت کی اور ۳۲ جولائی ۸۰۹۱ء کو سلطان کو دستور کے اعلان پر مجبور کردیا، اس کے بعد ایسے نمائندگان کا انتخاب ہوا جس میں ”فری میسن“ کی انجمنوں میں پروان چڑھنے والے یہودی اور عیسائی بھی شامل ہوگئے، اور صرف نو ماہ کی قلیل مدت میں ۲۷ اپریل ۹۰۹۱ء کو ترکی کے روشن خیالوں کے ہاتھوں سلطان عبد الحمید کو تخت سے اتار دیا گیا، جس دن سلطان عبدالحمید کو تخت سے اتارا گیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس دن دو عظیم حادثے رونما ہوئے:
۱:۔۔۔۔ایک عظیم اسلامی مملکت اور مسلمانوں کی عالمی اور اجتماعی پناہ گاہ کا خاتمہ –
۲:۔۔۔۔ یہودیوں کے ہاتھوں فلسطین کا سقوط-
سلطان کی تخت سے محرومی گزشتہ صدی کے شروع میں اسلام پر سب سے کاری ضرب تھی-بظاہر کتنی عجیب بات لگتی ہے کہ ایک ترک اپنی جان اور سلطنت قربان کرکے فلسطین کا دفا ع کر رہا ہے اور ایک عرب حرص و لالچ کے ہاتھوں دھوکہ کھا کر فلسطین یہود و نصاری کے حوالے کرنے کا راستہ ہموار کر رہا ہے۔ لیکن یہ تو تاریخ میں ہمیشہ ہی ہوتا آیا ہے۔ ایک طرف وفادار ہیں تو دوسری طرف دوکاندار‘ ایک طرف سر فروش ہیں تو دوسری طرف ضمیر فروش‘ ایک طرف اسلام کی خاطر جان و مال لٹانے والے ہیں تو دوسری طرف دنیا کے چند حقیر ٹکوں کی خاطر اپنی قوم‘ اپنا وطن اور اپنا دین سب کچھ گنوانے والے۔اسرائیل‘ فلسطینی مسلمانوں کا قاتل ہے اور امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا سرپرست اور معاون‘ لیکن عرب اور غیر عرب مسلم ممالک بھی اسرائیل کو اپنا دشمن‘لیکن امریکہ کو اپنا دوست کہتے ہیں۔ ایسے میں اہلِ فلسطین کو آزادی ملے تو کیونکر؟ آ ج تو مسجدِ اقصیٰ کسی صلاح الدین ایوبی jکی منتظر ہے جو اُسے اہلِ صلیب کے ناپاک قدموں سے پاک کر سکے۔
غزوۂ بدر کے اس مہینے میں بدر والے جذبات پیدا کرنے چاہئیں … اور قبولیت کے اس مہینے میں اہل فلسطین سمیت تمام امت مسلمہ کی آزادی اور تحفظ کی دعاؤں کی اشد ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس نازک موقع پرمسلمانانِ عالم کو درست راستے کے انتخاب کی توفیق دے اور پوری امت کے مظلوم مسلمانوں کو ظالموں سے نجات عطا فرمائے۔(آمین ثم آمین)