تحریر: الطاف جمیل ندوی
یوم حجاب ویلنٹائن ڈے ان میں سے آپ چاہیں جس پر تنقید کرسکتے ہیں یہ اپنے اپنے افکار و نظریات پر منحصر ہے کہ کون کس طرف موجود ہے یا اپنی حاضری لگا رہا ہے پر ایک طبقہ ایسا ہے جو ایسی واہیات پر خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہوں دور بڑی ہی چالاکی سے اپنی مرضی کے افکار و نظریات پر کام کرتا ہے کہ ہی تو یہ ویلنٹائن ڈے نامی مصیبت گزر گئی جس کے دل میں ذرا سا بھی خوف الہی ہو وہ ایسی واہیات کسی صورت بھی تسلیم نہیں کرسکتا جس کی بنیاد ہی فحاشیت عریانیت بے حیائی جیسے افکار پر ہو ایسے ہی یہ رسم ذلت و عریانیت بھی پے جسے لوگ ویلنٹائن ڈے کے نام سے یاد کرتے ہیں اور محبوب کی بانہوں میں جھولتے ہوئے خود کو اس آسمان کی نیچے کی سب سے پیاری مخلوق سمجھتے ہیں وہ خواہ بیٹی ہو یا بیٹا ہو ہر دو صاحب یہ کام ابھی تک گھر سے دور ہی کسی صحت افزاء مقام پر (جو کہ حقیقت میں حرام کاری کی آماجگاہیں ) پر انجام دیتے ہیں اس میں دونوں برابر کے شریک ہیں مرد بھی اور عورت بھی.
ویلنٹائن ڈے کے بارے میں کتنی بھی آپ تحقیق کریں سوائے عشق و محبت کے آپ کو کچھ نہیں بتایا جائے گا جیسے ایک پادری تھا اس کا نام ویلنٹائن تھا اس نے راہبہ سے تعلق بڑھایا پھر یوں ہوا اور پھر یوں اس طرح ویلنٹائن ڈے کی بنیاد پڑھ گئی مجھے راہبہ یا راہب کی داستان سے کوئی غرض نہیں اب اس کے بارے میں دیکھے کہ اس کا معنی کیا ہے تو بتایا جائے گا یوم محبت یوم تعلق مرد و زن کا اختلاط ہوتا ہے اس دن یعنی وہ ایک دوسرے کو اپنی محبت کا یقین دلانے کے لئے تحفہ و تحائف دیتے ہیں اس روز سوائے اس کے اس دن کی کوئی توجہی نہیں بتائی جاتی پہلے یہ پڑھیں اس اقتباس کے ذریعہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یوم محبت کا انجام کیسا ہوتا ہے
ویلنٹائن ڈے کی تباہیاں
ویلنٹائن ڈے نے پاکیزہ معاشرہ کو بڑی بے دردی کے ساتھ بدامن اور داغ دار کیا ہے، اخلاقی قدروں کو تہس نہس کیا ہے ،رشتوں، تعلقات اور احترام انسانیت تمام چیزوں کوپامال کیا ہے، لال گلاب اور سرخ رنگ اس کی خاص علامت ہے ،پھول کی تقسیم اور اس موقع پر ویلنٹائن کارڈ کا تبادلہ بھی اظہارِ محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے، بڑے پیمانے پر اس کی تجارت ہوتی ہے اور ہوس پرست اس کو منھ بولے دام میں خریدتے ہیں۔ منچلوں کے لیے ایک مستقل تفریح کا سامان بن گیا۔ ویلنٹائن کی جھوٹی محبت کا انجام کیا ہوتا ہے اس کو مختصر جملوں میں بیان کیا ہے : عشق کا بھوت نفرت میں بدل گیا ، محبت کی شادی کا درد ناک انجام، خاوند کے ہاتھوں محبوبہ کا قتل ۔ عشق کی خاطر بہن نے بھائی کا قتل کر دیا۔ محبوب سمیت حوالات میں بند۔ محبت کی ناکامی پر دو بھائیوں نے خود کشی کر لی۔ یہ وہ اخباری سرخیاں ہیں جو نام نہاد محبت کی بنا پر معاشرتی المیہ بنیں اور آئے روز اخبارات کی زینت بنتی جارہی ہیں۔ (ویلنٹائن ڈے، تاریخی حقائق اور اسلام کی نظر میں:119)
ایسی بیہودگیوں کا انجام ایسا ہی ہونا ہے جن کی بنیاد ہی شہوت ہو وہاں انسان پھر کیا سے کیا ہوتا ہے اس کا تصور بھی ابتدائی مرحلوں میں نا ممکن ہوتا ہے پر جوں ہی انجام بد نکل کر اپنی شکل دیکھاتا ہے تب اس عاشقی معشوقی کا بھوت گر جاتا ہے تب عقل تو سامنے منڈلانے لگ جاتی ہے جناب دماغ میں پر پھر ایسی عقل کا کیا فائدہ جس کے استعمال کے مواقع کے ضیاع پر کبھی آہ بھی نہیں نکلی ہو
سبب بے حیائی
حیاء ایک پاکیزہ معاشرے کی علامت ہے جس کی تعلیم ہر دین و مذہب میں دی گئی ہے اسلامی تعلیمات بھی اس پر ہیں کہ حیاء معاشرے کے لئے لازم ہے اللہ تعالی کی کتاب میں مرد و خواتین کو نگاہیں نیچے رکھنے کی تعلیم ہے اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کا تصور دیا گیا ہے مؤمنین کے اس کی تعلیم جا بجا اللہ تعالی کی کتاب میں دی گئی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات اپنی انفرادی زندگی میں حیاء اور پاکیزگی کی تعلیم دی ہے اور خود اس پر عمل کر کے بتایا ہے اصحاب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ترغیب دی گی اس حیاء اور پاکیزگی کا جو تصور ہے وہ پاک دامنی اور بد کاری سے بچاؤ کا ایک ذریعہ ہے جو یکساں مرد و خواتین کے لئے لازمی بتایا گیا ہے پر ہمارے معاشرے کے لئے اس سے بڑی اور بربادی کیا ہوگی کہ عورت کو تو حیاء اور پاکیزگی کی تعلیم دی جاتی ہے اسے اس کی ترغیب دی جاتی ہے اس کے اسباق پڑھائے جاتے ہیں پر مرد اس زمرے میں خود کو صاحب دانا کہلاتا ہے اب دیکھئے نا ویلنٹائن ڈے پر صرف اتنا سب نے کہا کہ کسی کی بہن کے انتظار میں رہنے کے بجائے اپنی بہن کو پردے میں رکھا کرو یا اپنی اپنی بہن کو برقعہ یا عبایا تحفے میں دو ارے حد ہوتی ہے ٹھیک ہے عورت کے لئے پردہ کرنا فرائض سے ہے تو کیا مرد جہاں چاہئے بیل کی طرح سینگ مارتا رہے نہیں رب نے یا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کوئی تعلیم نہیں دی بلکہ دونوں کے لئے حیاء اور پاکیزگی اور نیکی کی تعلیمات یکساں طور پر دی گئی ہیں اس میں کسی کی کوئی تخصیص نہیں ہے
معاشرے اور ان کی تشکیل
معاشروں کی تشکیل و تعمیر کا سب سے بہترین ذریعہ ہے قانون فطرت قانون فطرت ہمارے نزدیک وہی ہے جس کی تعمیر و ترقی اور تحفظ کا اعلان اسی ذات با برکت نے کیا ہے جس کے حکم سے یہ دنیا و جہاں کی رونقیں ہیں مچلتی اور تڑپتی جوانیان ہیں یہ مستیاں اور ویرانیاں یہ رونقیں اور یہ بربادیاں ہیں یہ جلوے حسن و جوانی کے اور یہ قبرستان کی خاموشیاں یہ صبح کی ٹھنڈی و پاکیزہ ہوائیں ہیں یہ شبنم کے قطرے جو ہر جگہ رقصاں ہیں اور دن کی چہل پہل کے بعد مغرب میں جاتے سورج کے سبب بکھرتے اندھیرے ہیں ہاں یہ اسی ذات مقدس کا اعلان ہے کہ آئے انسان خبردار مجھ سے بغاوت نہ کرنا نہیں تو تجھے تیری دنیا میں ہی نشانہ عبرت بنانے میں مجھے کوئی قوت مانع نہیں ہوسکتی ۔۔ میں اپنے ان الفاظ میں ان انسانوں سے مخاطب ہوں جو اپنی لذت و چاشنی کے لئے تو سعید و پاکباز بن جاتے ہیں پر دوسروں کے لئے رکاوٹیں بنائے رکھتے ہیں رب کریم کا فرمان ہے کہ خبر دار زمین پر فساد نہ پھلانا جب اس کی اصلاح کردی گئی ہو آپ سمجھ گئے نا آئے اہل ایمانو مطلب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات مکمل ہو گئیں ہوں تو تم اپنی من مانیاں کر کر کے زمیں پر ہنگامے نہ کرانا کیوں کہ قرآن کہتا ہے تم نہیں جانتے وہ جو میں جانتا ہوں ہاں یہ الگ بات ہے کہ اب ہم جانتے ہوئے بھی انجان بن کر رہنا پسند کرتے ہیں کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری عقل و دانشمندی کے ڈھنکے بجتے ہی رہیں اب اصل بات کی اور آتے ہیں
اللہ تعالی بخوبی جانتے ہیں کہ اس انسان کی ضروریات زندگی کیا کیا ہیں مثال کے طور پر کھانا کھانا انسانی ضروریات سے ہیں اب اس میں حلال و حرام کی جو بندش بنائی گئی ہے یہ انسان کے جسم و جاں کے تحفظ و وقار کے لئے لازم ہے اب حلال کھانے کی بھی ایک مقدار ہے جو انسان کے پیٹ کے لئے لازم ہے اب کوئی اپنی ضرورت سے زیادہ حلال کھانا کھائے اور پیٹ اس کا پھول جائے یہ اس کی اپنی خطا ہے مطلب فساد فی ذات اس کا انجام بھی اسے سہنا پڑے گا یا گر ہم کہہ دیں ہر قسم کا کھانا کھانا غلط ہے بھوک پیاس ہی لازم ہے تو تھوڑا سا انتظار کرنے کے بعد ہی اس صاحب کی زندگی کا چراغ بج جائے گا یوں ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹا قانون فطرت ہو کہ بڑے سے بڑا جوں ہی دنیا ان سے بغاوت کرتی ہے تو الہی پھٹکار برسنا شروع ہوجاتی ہے
فطرت سے بغاوت
انسان کے لئے لازم ہے کہ پتھر پر دانہ اگانے کی سعی لاحاصل ہے کیوں کہ یہ پانی جذب کرنے سے قاصر ہے تو اس میں کتنے بھی دانے لگائے جائیں یہ سعی لاحاصل ہے پر اگر ہلکی پھلکی سی کوشش ایسی زمین پر کی جائے جو گر چہ سخت ہو پر اس میں پانی جذب ہو رہا ہو تو تھوڑی سی کوشش پر فصل اگ آئے گی پہاڑ جو اللہ نے کھڑے کئے ہیں انہیں زمین پر سے ختم کیا جائے تو یقین کریں زمین دھنسنا شروع ہوجائے گی لے دے کر ہم خود سے کچھ کر نہیں سکتے تو کیوں ہم غور و فکر نہیں کرتے تاکہ اللہ ہم سے ناراض نہ ہوجاتا اور ہمارے جہاں کی یوں بربادیاں نہ ہو جایا کرتیں انسان نے جب بھی فطرت کے خلاف بغاوت کرنے کی جسارت کی تب تب اسے منہ کی کھانی پڑی پر یہ ہے کہ اسے پھر بھی عقل و دانشمندی چھو کر نہیں گزرتی کہ وہ کام انجام دیتا جو اس کی بقاء کے لئے لازمی ہوتے.
اب دیکھئے ہزاروں حسرتوں ہزاروں خواہشوں کے درمیان بنانے والے خالق نے اک حسیں و خوبصورت خواہش دل میں سجائے رکھی جسے ہم نکاح شادی کے نام سے واقف ہیں آپ یقین کر سکتے ہیں کہ جوں ہی کوئی زى روح اپنی جوانی کی دہلیز پر دستک دے دیتا ہے تو جنس مخالف اس کی تمناؤں آرزؤں کی تلاش بن جاتی ہے / بن جاتا ہے ۔۔ کوئی ذی روح اس خواہش کے آڑے آنے کی قوت خود میں پیدا نہیں کرسکا کیونکہ وہ خوب واقف ہیں کہ یہ فطرت ہے جس سے بغاوت ممکن نہیں مثال کے طور پر گر جانور ضد کر جائیں کہ ہمیں یہ فطرت قبول نہیں تو ہم سب گوشت سے لازم محروم ہوجائیں گئے یہ جو ان کی جنسی تکمیل ہوجاتی ہے سمندر سے خشکی تک یہ ہماری زندگی کے ضامن ہیں ان کی پیدا ہو رہی نسلیں ہماری نسلوں کے لئے لازم ہیں انہوں نے ایسا کچھ کیا نہیں پر انسان بغاوت کر بیٹھا اور اپنے بچوں پر مختلف نام اور مختلف رسم و رواج کی بندشیں لگا کر سمجھا کہ میں ان کی تربیت کر رہا ہوں پر جب ہماری نسل کی جائز طریقے پر نکاح یا شادی ہونے کے لئے عمر دراز کی ضرورت لازم ہوئی اور ابتدائی مراحل پر جسم کی ضرورت کی تکمیل نہ ہوئی تو شیطان نے ایک شوشہ اڑا دیا کہ چلئے ویلنٹائن ڈے کت نام پر جنس مخالف سے اپنی تسکین کی کوشش کی جائے جس کی مخالفت میں ہم نے یوم حیاء دن شروع کردیا پر علاج یہ نہیں کہ صرف حیاء کی باتیں کی جائیں بلکہ اس کی فطری خواہشوں کی تکمیل کرکے اسے حیاء و پاک دامنی کا درس دیا جائے تاکہ اس کے لئے آسان ہو باحیا و پاکیزہ بن کر رہ جانا ورنہ یہ کیا تماشہ ہے کہ فطرت کے خلاف آپ برسر پیکار بھی ہوں اور فطرت کے خالق سے کرم بھی مانگ رہے ہوں آنے والے ایام میں نکاح انسانی فطرت ہے جس سے بغاوت ممکن نہیں جو بغاوت ہوگئی اس الہی قانون سے تو نتیجہ انسانی معاشروں کی بربادی کے سوا کچھ بھی نہ آئے گا.
یار زندہ صحبت باقی