یہ مرے جگر کا سکوت ہے یا مرے جگر کا سوال تھا
اسے آج میری خبر نہیں میں تو کل کا ایک خیال تھا
اسے رہ گزر کی نافکر تھی وہ سراپا عشقِ جمال تھا
میرے درد کی یہ کہانی تھی سَرِعام میرا زوال تھا
اسے پوچھ پوچھ کے یوں گماں ہوا ایسا بھی یہ کیا کیا
یہی تیرا حالِ کمال تھا یہ کمال بھی لا مثال تھا
وہ کوئی کوئی نا کیا کرے میرے دم میں دم یہ برا کرے
ہے پھنسا دیا مجھے جال میں کہ مجھے بچانا محال تھا
یہ سفر بھی کیسا سفر ہوا جو گزر گزر کے بھی تھک گیا
میں نہیں بھٹکتا گیا کہاں مجھے راہ دکھانا محال تھا
وہ جو بات کر کے مکر گئے وہی میرے دل کے قریب تھا
وہ جو عمر بھر کا خطیب تھا یوں بچھڑ نا تیرا وبال تھا
یوں فنا کے اتنے قریب سے وہ گزر گئے میں گزر گیا
مجھے پاس کیسے بلا لیا میں فنا کے در کا عیال تھا
مجھے بے خبر وہ کہا کرے میں ادھر سے کب کا گزر گیا
کبھی ان کو ہم سے شکایت تھی میرا آیا وقتِ زوال تھا
اسے کھونے کا کوئی غم نہیں وہ سراپا غم کا غریب تھا
سَرِ عام ہم نے وفا کیا،وہ وفا کا بھی تو دلال تھا
یاورؔ حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ