نازک لبوں سے مسکرائے تو غزل کہتے ہیں
جام آنکھوں سے پیلائے تو غزل کہتے ہیں
یاد بن کر وہ جو آئے میری تنہائی میں
روح میں آکے سمائے تو غزل کہتے ہیں
منتظر جس کا ہوں میں ایک مدت سے
میری دنیا میں وہ گر آئے تو غزل کہتے ہیں
خوشبوؤں سے مہک اٹھی فضائیں ساری
زلف ان کی جو لہرائے تو غزل کہتے ہیں
مست پلکوں کو جھکانے کی ادائیں ان کی
سو فسانے وہ بنائے تو غزل کہتے ہیں
کھلی زلفوں میں چھپا چاند سا چہرا تیرا
چاندنی اپنی برسائے تو غزل کہتے ہیں
کھنکتی آنکھوں سے یوں دیکھے مجھ کو
تیرنظروں سے چلائے تو غزل کہتے ہیں
یہ حسین خواب سا پیار اگلشنؔ
حقیقت گر بن جائے تو غزل کہتے ہیں
گلشن رشید لون
، ریسرچ اسکالر شعبۂ عربی
، بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی، راجوری
[email protected] (9596434034)