ملی ہے نظر سے نظر دھیرے دھیرے
ہوا دل جگر پے اثر دھیرے دھیرے
پلٹ کر جو دیکھا مجھے چاندنی نے
مچلنے لگے رہ گزر دھیرے دھیرے
یہ رسمِ اذاں اور وہ روحِ بلالی
دِلوں پے کرے گی اثر دھیرے دھیرے
فقط روشنی کا سہارا ملا ہے
کروں زندگی اب بسر دھیرے دھیرے
مجھے ترکِ اُلفت سے لینا عوض ہے
سنبھلنے لگا پھر مگر دھیرے دھیرے
لہو در لہو ہے یہ فریاد میری
ہوئے چارسو میں سحر دھیرے دھیرے
گریبان جھانکا کرو اپنا یاور
اِسی میں پلیں گے ہُنر دھیرے دھیرے
یاور حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ