مجھے اس سے بڑھ کر کیا اور چاہے
کہ لے جا رہا ہوں میں تیری بھلائیں
ضرب دل پہ تیرے کہ کھائیں بہت ہیں
تبھی مار دالیں گی یہ کَج اَدائیں
کبھی اس طرف بھی نکل آؤ جاناں
کیا حال اپنا تجھے ہم سُنائیں
لگی آگ سینے میں سب کچھ جلا ہے
بچا کچھ نہیں ہے جسے ہم دِکھائیں
کوئی ہیر رانجھا کوئی لیلہٰ مجنوں
جنوں ہو گئے ہیں ملا کر نگاہیں
ترے سامنے جانے کی ضد پڑی ہے
قدم لڑکھڑایں،ہُنر کیا دِکھائیں
تجھے لت لگی روشنی کی ہے یاورؔ
کوئی شمع آفت رَواں میں جلائیں
٭٭٭٭٭
یاورؔ حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ