کمال کی کتاب تم، ہمال سوں ہُوا ہُوا
کہ دل بلال آج تم، زُباں ہوئی دُعا د ُعا
ہجاب نم عبادتوں حساب گم ہے گفتگو گفتگو
اشارے من سمجھ گیا، قسم خُدا قسم خُدا
اسم ولی ضعیف ہے، شمار ذات کس کرو
بریں قدم تمہارے ہیں، رواں رواں رواں رواں
قلم ہے بس سامان کہ، قرض کی شاخ بیٹھ لوں
قدیم ہے ورق میرے، آزاں گنواں آزاں گنواں
میں تھک گیا ر ضوان ہوں، ستم تیریستم تیرے
کوئی پیا س پلا بھی دو قرض بڑا قرض بڑا۔
ظاہر بشیر
کلسٹر یونیورسٹی، سرینگر