وعدہ کیا پر نبھایا نہیں ہے
لیکن صنم کو بُھلایا نہیں ہے
سزا بہت پائے ہے وفادار بن کر
لیکن ۔الف۔ کو آزمایا نہیں ہے
الم بہت دیکھے ہیں لیکن پھر بھی
غموں کا دنیا بسایا نہیں ہے
اُمیدوں کے خواب ادھورے بہت ہے
ذرا آنکھ نم ہے سُلایا نہیں ہے
ملی بے وفائی تو پتھر دل بن کر
غمِ یار دل میں سجایا نہیں ہے
وہ ظالم ہی سہی لیکن عاؔؔجز کو دیکھو
دلِ غمزدہ کو ستایا نہیں ہے
عاجز ایِثار
کلسٹر یونیورسٹی سرینگر