شاعرہ: عطیہ تبسم
بگلہ ڈوڈہ
محبت کے تقاضے بھی کہا ں تک اب نبہاتےہم
رہ ورسمِ محبت بھی کہاں تک اب نبہاتے ہم
چلو مانا تمہے بھی تھا اندازہ اس جداٸ کا
مگر تم مشورہ لیتے تو کویٸ حل بتاتے ہم
مناسب کیوں نہیں سمجھا ہم پہ اعتبار کرنا
کہ جاں پر کھیل کے بھی اپنا ہر عدہ نبہاتے ہم
زمیں بھی ہےیہ افسردہ فلک بھی اب بہاۓ اشکہ
اس دورِ بغاوت میں کہاں تک مسکراتے ہم
بجھا جاۓ چراغ اب وفاٶ کا تو کیا کیجٕے
کہ تاریک شب میں کارواں کب تک چلاتے ہم
غمِ ہجر تجھے تو یوں ہی بدنامی نے گھیرا ہے
فریبِ وصلِ یار کو کہاں تک اب نبھاتے ہم
شبِ فرقت تجھے بھی تو سیاہی نے ستایا ہے
تو پروانے کولے کرساتھ شب میں کب تک بھٹکتے ہم
چلو چھوڑو یہیں پر ہم ختم کرتے ہیں رسموں کو
ستایا ہے گر رسموں نے تو قسموں کو نبہاٸں ہم
رہِ عشق کے سفر کو عطیہ کیوں نہ دلچسپ کریں
کہ دردِ دل دوا ہو تو اسے بھی آزماٸں ہم