تیرے خیال میں اکثر ہوتا رہا نمازوں میں
اِسی لئے ہجرِ دائم کیلئے روتا رہا نمازوں میں
تصورِ عجبِ دنیا تھا جونہی گرتا سجدے میں
بس اُسی پل سکوں سے سوتا رہا نمازوں میں
یہی حقیقتِ قائم کیلئے دیتا رہا ثبوتِ لازم کہ
کاٹنے کیلئے بے بہا پھل بوتا رہا نمازوں میں
یوں تو یاد کیا ہی تھا وعدئے قالو بلٰی کبھی مجھے
خطیب کی دھمکی سے کھوتا رہا نمازوں میں
جو داغِ عشق انتہاؔ نے چہرے پہ دیے ظاہراً
آنکھوں کے اشک سے وہی دھوتا رہا نمازوں میں
فاحد احمد انتہاؔ
واگہامہ بجبہاڑہ