تو دعویٰ کر، میں دوا کرتا ہوں
تو دغا کر، میں وفا کرتا ہوں
دے دے کے مجھے لالچِ نفس
تو تباہ کر ، میں حیاء کرتا ہوں
ہر گہرا زخم تو افشا ہی رکھ
میں قیدئے عشق شفاء کرتا ہوں
دریائے عشق پہ ڈال کرکروٹیں
تو رُکا کر ، میں بہا کرتا ہوں
اِس سفرِ بے بس، بے بہار کی
تو ابتداء کر،میں اِنتہاؔ کرتا ہوں
فاحد احمد انتہاؔ